تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     04-04-2014

سرخیاں‘ متن اور ماہنامہ ’’ادبِ لطیف‘‘ کا خاص شمارہ

دہشت گردی کے خلاف اتفاق سے 
بڑھ رہے ہیں...نواز شریف
وزیر اعظم میاں نواز شریف نے کہا ہے کہ'' دہشت گردی کے خلاف اتفاق سے آگے بڑھ رہے ہیں‘‘البتہ دہشت گردی ہم سے بھی زیادہ اتفاق سے بڑھ رہی ہے اور اسی لیے طالبان کی جانب سے جنگ بندی میں توسیع بھی نہیں کی جا رہی حالانکہ ہم نے ان کے بندے بھی چھوڑ دیے ہیں ‘تاہم امید ہے کہ وہ اپنی رحمدلی جاری رکھیں گے جبکہ ہم تو مشرف کے خلاف بھی اتفاق ہی سے آگے بڑھ رہے تھے لیکن ان کا نام ای سی ایل سے نہ نکالنے پر اس اتفاق میں کسی قدر عدم اتفاق کا شبہ گزر رہا ہے اور بعض سٹیک ہولڈرز کو یہ بات خاصی ناگوار گزری ہے‘ تاہم ان سے بھی امید ہے کہ کسی قطع رحمی سے کام نہیں لیں گے۔انہوں نے کہا کہ ''پاکستان عدم مداخلت پر یقین رکھتا ہے‘‘ کیونکہ اگر ہم میں مداخلت کا دم خم ہی باقی نہیں رہا تو عدم مداخلت کے علاوہ اور چارہ ہی کیا ہے۔انہوں نے کہا کہ ''افغانستان میں جمہوری عمل کی حمایت کرتے ہیں‘‘ اگرچہ وہ بھی زیادہ سے زیادہ ہماری ہی طرح کا جمہوری عمل ہو گا جو جمہوریت کم اور جمہوریت کی پیروڈی زیادہ ہے۔آپ اگلے روز اسلام آباد میں وزیر اعظم کی قومی سلامتی کے مشیر کم ڈروچ اور شہباز بابر سے گفتگو کر رہے تھے۔ 
حکومت نے ناانصافی کی تو مشرف 
کا ساتھ دیں گے...شجاعت
مسلم لیگ ق کے سربراہ چودھری شجاعت حسین نے کہا ہے کہ ''اگر حکومت نے ناانصافی کی تو مشرف کا ساتھ دیں گے‘‘اگرچہ ہمارا ساتھ نہ ہونے کے برابر ہی ہو گا جبکہ اسی ساتھ دینے کی پاداش میں پچھلے عام انتخابات میں ہماری پارٹی کا صفایا ہی ہو کر رہ گیا حتیٰ کہ تمام تر کوششوں کے باوجود میاں صاحب نے بھی منہ نہیں لگایا حالانکہ رانا ثناء اللہ نے کہا بھی تھا کہ اگر ہم معافی مانگ لیں تو وہ صلح کروا سکتے ہیں ۔لیکن ادھر ہم معافی یافتہ نامہ تیار ہی کر رہے تھے کہ رانا صاحب نے آنکھیں ہی پھیر لیں اور کبھی بھُولے سے بھی دوبارہ اس کا تذکرہ نہیں کیا‘کیسا زمانہ آ گیا ہے ‘اور اب اسٹیبلشمنٹ بھی کچھ زیادہ گھاس نہیں ڈال رہی‘ اوپر سے جنرل صاحب نے اخباری اطلاعات کے مطابق جملہ عہدیدار فارغ کر کے اپنی پارٹی ختم کر کے کھوتا ہی کھوہ میں ڈال دیا ہے‘تاہم‘ہماری پارٹی کے دروازے ان کے لیے کھلے ہیں کیونکہ ہماری پارٹی کا حال بھی ان کی پارٹی جیسا ہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''حکومت کو ہٹ دھرمی کا شدید نقصان ہو گا‘‘جس سے میں بروقت آگاہ کر رہا ہوں‘پھر نہ کہنا ہمیں خبر نہ ہوئی۔آپ اگلے روز لاہور میں صحافیوں سے بات چیت کر رہے تھے۔
امن کے لیے ہر کڑوا گھونٹ پینے 
کے لیے تیار ہیں...خورشید شاہ
قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر اور پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنما سید خورشید احمد شاہ نے کہا ہے کہ ''امن کے لیے ہر کڑوا گھونٹ پینے کے لیے تیار ہیں‘‘کیونکہ پانچ سال تک اگر لگاتار میٹھے گھونٹ پیتے رہے ہیں تو ایک آدھ کڑوا گھونٹ بھی پیا جا سکتا ہے تاکہ ذائقہ تبدیل ہوتا رہے کیونکہ چار سال کے بعد پھر میٹھے گھونٹ پینے کی باری آنے والی ہے جبکہ سابق وزرائے اعظم سمیت میٹھے گھونٹ پی پی کر سبھی شوگر میں مبتلا ہو گئے ہیں اور انسولین پر لگ گئے ہیں ‘اللہ رحم کرے۔انہوں نے کہا کہ ''اگر عوام کی توقعات دم توڑ گئیں تو بڑا نقصان ہو گا‘‘اور اس بار ہمیں بھی یہ بڑا نقصان اسی لیے پہنچا ہے کہ توقعات کے ساتھ ساتھ خود عوام بھی دم توڑنے لگے تھے۔ انہوں نے کہا کہ ''اگر بھٹو ملک سے بھاگ جاتا تو آج کسی کو یاد بھی نہ رہتا‘‘اگرچہ آج بھی صورتحال کچھ ایسی ہی ہے کیونکہ اس کے نظریات کو ہی اگر فراموش کر دیا گیا ہے تو اسے یاد رکھنے کا کیا سوال پیدا ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''تمام دھمکیوں کے باوجود 4اپریل کو برسی منائیں گے‘‘ کیونکہ ...میاں بیوی کی برسی منانا ہی انہیں یاد کرنے کی ایک صورت باقی رہ گئی ہے اگرچہ ایسی فروعی باتوں کے لیے فرصت ہی کسے ملتی ہے۔ آپ اگلے روز روہڑی ٹائون ہال میں لیڈیز ونگ کے اجلاس سے خطاب کر رہے تھے۔
''ادبِ لطیف‘‘خاص شمارہ
مشہور زمانہ ''ادب لطیف‘‘ کا خاص شمارہ شائع ہو گیا ہے۔ اس قدیم ماہنامے کی ابتداء 1955ء میں ہوئی تھی اور جب سے یہ باقاعدگی سے شائع ہو رہا ہے اور اب ایک عرصے 
سے اسے صدیقہ بیگم نکال رہی ہیں۔خوبصورت ٹائٹل کے ساتھ کوئی پونے تین سو صفحات کو محیط اس تحفہ دستاویز کی قیمت 250روپے رکھی گئی ہے۔ اس کا حصہ نثر زیادہ جاندار ہے۔مضامین میں اشفاق احمد(مرحوم) کی تحریر ''غالب کی عشقیہ شاعری‘‘، ''اردو افسانے کا نیا تناظر‘‘ از محمد حمید شاہد اور ''منٹو اور ہم‘‘ کے عنوان سے ہماری پرانی دوست نبیلہ کیانی نے طبع آزمائی کی ہے۔ افسانوں میں سمیع آہوجہ‘نجیب عمر اور ''یاد رفتگاں‘‘ کے عنوان سے ڈاکٹر رانا غلام شبیر نے ممتاز مصنف شفیع عقیل کو یاد کیا ہے۔
پاکستان کی سیاسی تاریخ کی ذیل میں حسن جعفر زیدی نے ''پاکستان کیسے بنا‘‘ کے عنوان سے مضمون باندھا ہے‘ جس کی یہ 9ویں قسط ہے۔ اس کے بعد قسط وار سرگزشت ہے جسے طارق محمود نے ''گورنر ہائوس میں ماہ وسال‘‘ کا نام دیا ہے جو اپنی جگہ پر انتہائی دلچسپ ہے۔ ایک مختصر اقتباس ملاحظہ ہو:''گورنر ہائوس میں دن بھر ملاقاتیوں کا تانتا بندھا رہتا ہے۔ ایک دن جناب یوسف رضا گیلانی ایم این اے گورنر سے ملنے کے لیے آئے۔ وہ وقت سے کچھ پہلے آ گئے۔ ملٹری سیکرٹری کرنل خالد مسعود نے انہیں بڑے کمرے میں بٹھا دیا۔ میری ملتان میں تعیناتی کے دوران ان سے یاداللہ تھی۔ اس وقت وہاں اور بھی بہت سے ملاقاتی بیٹھے ہوئے تھے۔گیلانی صاحب کو بیٹھے بیٹھے''جیالوں‘‘ کی موجودگی میں نجانے کیا سوجھی‘ مجھے مخاطب ہوئے اور کہنے لگے‘سائیں‘ آپ کو یہاں مخدوم سجاد قریشی لے کر آئے تھے۔ میں اس جملے کے لیے قطعی تیار نہ تھا۔وہاں موجود چند جیالوں نے ابروئوں کو اٹھا کر میری طرف دیکھا اور میں نے برجستگی سے جواب دیا ‘جی سر! آپ اس وقت مسلم لیگ میں ہوا کرتے تھے‘ کمرے میں ہر طرف ہنسی بکھر گئی۔ یوسف رضا 
گیلانی بھی مسکرا دیے۔‘‘
اوکاڑہ جب ضلع بنا تو طارق محمود اس کے پہلے ڈپٹی کمشنر تعینات ہو کر آئے اور محمد سعید شیخ اسسٹنٹ کمشنر۔ وہیں ان دونوں نے فکشن لکھنی شروع کی۔اور‘اسے اوکاڑہ کا فیض ہی سمجھیے کہ آگے چل کر یہ دونوں ملک کے نامور ادیب ٹھہرے۔ علاوہ ازیں دونوں اس قدر اپ رائٹ تھے کہ آخر تک اپنی یہ خوبی جاری رکھی۔ اول الذکر وفاقی سیکرٹری کے عہدے سے ریٹائر ہوئے تو ثانی الذکر ممبر بورڈ آف ریونیو کے طور پر۔ ایک اور انتہائی اپ رائٹ شخصیت رئوف احمد شیخ وہاں پر سینئر سول جج ہو کر آئے تو پہلے دن ہی مجھے بلا بھیجا‘ میں سمجھ گیا کہ کیوں بلایا ہے۔باتوں باتوں میں کہنے لگے کہ میری بیوی نے مجھ سے جب پوچھا کہ آپ کا تبادلہ شیخو پورہ بھی ہو رہا تھا تو آپ نے اوکاڑہ کو کیوں ترجیح دی تو میں نے کہا کہ میں وہاں ایک آدمی سے ملنا چاہتا ہوں!آج کل آپ لاہور ہائی کورٹ کے جج ہیں ۔
پیدا کہاں ہیں ایسے پراگندہ طبع لوگ
افسوس تم کو میرؔ سے صحبت نہیں رہی
حصہ نظم میں ایوب خاور اور سلیم شہزاد نمایاں ہیں جبکہ ممتاز افسانہ نگار اسد محمد خاں کے لیے گوشہ مخصوص کیا گیا ہے جس میں ان سے لیا گیا حسنین جمال کا انٹرویو‘ ان کے چار افسانے اور ہمعصر مشاہیر کی طرف سے انہیں لکھے گئے خطوط شامل ہیں۔ایوب خاور کے نئے مجموعہ کلام ''محبت کی کتاب‘‘ پر سید انور جاوید ہاشمی کا تبصرہ ہے اور انگریزی کی دو کتابوں پر تبصرہ ‘موصولہ کتب کی فہرست ہے اور قارئین کے خطوط۔ 
آج کا مطلع 
اک دن ادھر سوارِ سمندِ سفر تو آئے 
خود بڑھ کے روک لیں گے کہیں وہ نظر تو آئے 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved