تحریر : بلال الرشید تاریخ اشاعت     04-04-2014

مشرقِ وسطیٰ کا ماجرا

مغربی میڈیا کا تاثر یہ ہے کہ صدر اوباما کا دورہء سعودی عرب کسی بڑی بہتری کا باعث نہیں بنے گا۔ توانائی کے میدان میں امریکہ تیزی سے خود کفالت کی طرف بڑھا ہے ۔ اپنے پرانے حلیف کی قدر و قیمت اب اس کی نظر میں کم ہو رہی ہے ۔ مئی 2013ء میں نیویارک ٹائمز نے یہ لکھا کہ پچھلے تین سال میں اوپیک ممالک سے تیل کی امریکی درآمد بیس فیصد گر چکی ہے ۔ اکتوبر 2013ء میں دو دہائیوں کے بعد پہلی بار امریکہ میں تیل کی مقامی پیدوار درآمد شدہ مقدار سے بڑھ گئی ۔ اس اچانک تبدیلی کی وجہ ہائیڈرالک فریکچرنگ ٹیکنالوجی میں بہتری سے شیل تیل (Shale Oil) نکالنے کی رفتار میں تیز ترین اضافہ ہے ۔ اس تکنیک میں مختلف کیمیکل اور ریت ملا پانی نہایت تیز رفتاری کے ساتھ چٹانوں میں داخل کر کے ان میں موجود توانائی نکال لی جاتی ہے ۔شمالی ڈکوٹا سے ٹیکساس کی طرف شیل تیل کے وسیع ذخائر بکھرے پڑے ہیں ۔ کفایت شعاری اوربہتر استعمال کی وجہ سے بھی عالمی طاقت کی ضروریات میں کمی دیکھنے میں آرہی ہے۔ اندازہ ہے کہ 2035ء تک وہ توانائی کی ضروریات میں مکمل طور پر خود کفیل ہو چکی ہوگی۔ 
ماضی میں تیل ایک ہتھیارکے طور پر استعمال ہو سکتا تھا۔ 1973ء کی جنگ میں یہودیوں کی مدد کرنے پر عرب اقوام نے 
امریکہ ، برطانیہ اور کینیڈا سمیت کئی ممالک کو تیل کی برآمد پر پابندی عائد کی تو چند ہی ماہ میں اس کے نرخ چار گنابڑھ گئے تھے ۔ اس کے بعد سے امریکی خارجہ اور سلامتی پالیسی میں بیرونی تیل تک رسائی نہایت اہمیت اختیار کر گئی تھی ۔ اس ایک واقعے کے علاوہ، پچھلی چھ دہائیوں میں امریکہ سعودی تعلقات کا مرکز ''سکیورٹی کے بدلے تیل‘‘ ہی رہا ہے لیکن امریکہ اب ان ضروریات سے بے نیاز ہو رہا ہے ۔ 
سعودی عرب کو ماضی میں جن خطرات کا سامنا تھا، ان میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے ۔ گزشتہ دہائی میں ایران کے ایٹمی طاقت بن جانے کا ڈھول پوری قوت سے بجایا گیا اور اب یہ خوف آسانی سے ختم نہیں ہو سکتا۔ عرب ممالک ہی کی طرح ، ایران بھی تیل اور گیس کے معاملے میں بے حد امیر ہے ۔ عالمی پابندیاں اٹھنے سے تیل اور گیس کی مد میں 60بلین ڈالر سالانہ کا نقصان ختم ہو گا ۔ دفاعی طور پر وہ پہلے ہی بے حد مضبوط ہے۔ شام میں ایران اور عرب ایک پراکسی جنگ لڑ رہے ہیں ۔ بشار الاسد کی حکومت کا پلڑا اب بھاری ہے ۔ روس بھی اس کی مکمل پشت پناہی کرر ہا ہے ۔وہ آج بھی دنیا کی ایک خطرناک ترین 
فوجی اور ایٹمی طاقت ہے ۔ حال ہی میں ، کریمیامیں اس نے مغرب کی ناک رگڑی ہے ۔ وہ امریکی تحفظات کو نظر انداز کرتے ہوئے عالمی طاقت کو اقوامِ عالم میں رسوا کر دینے والے ایڈورڈ سنوڈن کو اپنی پناہ میں لیتا ہے ۔ شام میں وہ جنگجوئوں کی حمایت کرنے والوں کو خطرناک نتائج کی دھمکیاں دے چکا ہے ۔ 
عرب بہار کے دوران خطے میں دہائیوں سے برسرِ اقتدار قوتیں شکست و ریخت کا شکار ہوئیں ۔کئی ممالک میں شدید عوامی احتجاج برپا ہوئے ۔ لیبیا، تیونس ، یمن اور دو بار مصر کی حکومت گرا دی گئی ۔ مصر اور شام میں جنگ تا حال جاری ہے ۔ یہ رجحان خطے کے ان ممالک کا رخ بھی کر سکتاہے ، جو اب تک اس سے محفوظ و مامون ہیں ۔ کسی بھی ملک میں ہنگامے پھوٹنے پر مغرب موقعے سے پورا فائدہ اٹھائے گا ۔لیبیا کی مثال سب کے سامنے ہے ، جہاں معمّر قذّافی کو عالمی اجتماعات میں پورے عزت و احترام سے مدعو کرنے والے ممالک کے عسکری اتحاد نے اینٹ سے اینٹ بجا کے رکھ دی ۔عراقی حکومت قطر کے ساتھ ساتھ سعودی عرب پر بھی خود کو غیر مستحکم کرنے کے الزامات عائد کر رہی ہے ۔ قطر اپنی جگہ ایک مسئلہ ہے ، جو سعودیوں کے متوازی، خطے میں اپنا اثر ورسوخ قائم کرنے کے لیے ہاتھ پائوں مار رہا ہے ۔ 
عالمی تجزیہ کاروں کے نزدیک اگلی دہائیوں میں بارود کے ڈھیر ، انتہائی غیر مستحکم مشرقِ وسطیٰ میں امریکی دلچسپی کم اور چین کا مفاد تیزی سے بڑھے گا۔ انٹرنیشنل انرجی ایجنسی کے نزدیک2030ء تک چین اپنی ضروریات کا 80فیصد تیل درآمد کر رہا ہوگا۔ اسی لیے وہ اپنی سرحد سے لے کر گوادر تک ،پاکستان کے طول و عرض سے گزر تا ہوا ایک موٹر وے اور ریلوے کا نظام تعمیر کر رہا ہے۔ چین بھی شیل آئل کے بڑے ذخائر رکھتاہے لیکن فی الحال وہ اس معاملے میں ٹیکنالوجی کی مشکلات سے نمٹنے کی بجائے روایتی ذرائع پر انحصار کرنے میں دلچسپی رکھتاہے۔ 
سب مسائل اپنی جگہ، جیسا کہ پہلے عرض کیا تھا، مقدس مقامات کے نگران سعودی عرب کی اہمیت کبھی کم نہیں کی جا سکتی۔دوسرے اسلامی ممالک کی طرح، کسی بھی ناگہانی صورتِ حال میں حرمین شریفین کا پوری قوت سے دفاع کیا جائے گا۔ سعودی عرب کو اس نازک ترین موقعے پر صرف تیل پر انحصار کرنے کی بجائے جدید صنعت اور دفاعی پیداوار سمیت ، تمام میدانوں میں آگے بڑھنے کا آغاز کرنا چاہیے۔ اسے دوسرے ممالک کی طرف دیکھنے کی بجائے اپنی فوجی تعمیرِ نو کرنا ہوگی۔ خطّے کی حکومتوں کی بجائے ، اسے عرب عوام کے مجموعی مفاد کی بات کرنی چاہیے۔ یوں عرب دنیا میں اس کے لیے وہ حمایت جنم لے گی ، جو اسے حقیقی قائدانہ کردار سونپ سکے گی ۔ خطّے میں اپنے کردار میں ممکنہ کمی سے پریشان ہونے کی بجائے، ساری توجہ خود کو مضبوط کرنے ، بالخصوص عسکری اور تعلیمی تعمیر پر صرف کرنی چاہیے۔ مغربی ممالک ہی کی طرح ریسرچ کے میدان میں ابھی سے سرمایہ کاری کا آغاز کرنا چاہیے کہ بالآخر بہتر ٹیکنالوجی ہی دوسروں پر برتری دلاتی ہے۔ پہلی اور دوسری جنگِ عظیم کے دوران جرمنی دوسرے یورپی ممالک کے ساتھ حالتِ جنگ میں تھا لیکن آج وہ باہم شیر و شکر ہیں۔ سعودی عرب کو ایران سے تعلقات میں مغرب کی طرف سے پیدا کردہ غیر ضروری کشیدگی میں کمی کی کوشش کرنی چاہیے۔ پاکستان اس باب میںاس کے ساتھ بے حد تعاون کرسکتاہے ۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved