تحریر : ڈاکٹر رشید احمد خاں تاریخ اشاعت     05-04-2014

افغانستان میں صدارتی انتخابات

افغانستان میں آج صدارتی انتخابات ہو رہے ہیں۔ 2001ء میں طالبان حکومت کے خاتمہ کے بعد یہ تیسرے صدارتی انتخابات ہیں لیکن گزشتہ دو انتخابات کے مقابلے میں آج کے انتخابات خصوصی اہمیت کے حامل ہیں کیونکہ ان میں پہلی دفعہ جمہوری طریقے سے سیاسی قیادت کی تبدیلی عمل میں آ رہی ہے۔ گزشتہ دو انتخابات میں حامد کرزئی صدر منتخب ہوئے تھے۔ افغانستان کے آئین کی رو سے چونکہ وہ تیسری بار صدارتی عہدے کے لیے اہل نہیں تھے‘ اس لیے اس دوڑ میں اب نئے لوگ شریک ہیں۔ ابتدا میں گیارہ امیدواروں میں مقابلہ تھا‘ لیکن اب میدان میں صرف آٹھ امیدوار ہیں؛ تاہم اصل مقابلہ سابق وزیر خارجہ عبداللہ عبداللہ اور سابق وزیر خزانہ اشرف غنی کے درمیان متوقع ہے۔ مبصرین کی رائے میں ان دونوں میں سے عبداللہ عبداللہ کی کامیابی کے امکانات زیادہ ہیں۔
افغانستان میں صدارتی انتخابات کا انعقاد بذات خود ایک اہم پیش رفت ہے۔ مبصرین کے نزدیک اگر افغان ووٹرز کی ایک معقول تعداد طالبان کی دھمکیوں اور حملوں کی پروا نہ کرتے ہوئے پولنگ سٹیشنز پر پہنچ گئی تو یہ انتخابات افغانستان کی تاریخ میں نیا موڑ ثابت ہوں گے؛ تاہم یہ صرف اسی صورت ممکن ہو گا جب انتخابات آزادانہ اور شفاف ہوں۔ مقابلے میں حصہ لینے والے تقریباً تمام اْمیدوار اس بارے میں اپنے خدشات کا اظہار کر چکے ہیں کہ انتخابات میں دھاندلی کی جائے گی۔ اس ضمن میں گزشتہ یعنی 2009ء میں ہونے والے صدارتی انتخابات کی مثال دی جاتی ہے‘ جن کے بارے میں ملکی ہی نہیں بلکہ غیرملکی حلقوں کی بھی متفقہ رائے یہ تھی کہ صدر کرزئی نے ان میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے وسیع پیمانے پر دھاندلی کی۔ تحقیقات پر تقریباً دس لاکھ ووٹوں کو جعلی قرار دیاگیا تھا۔ موجودہ انتخابات کے انعقاد سے صرف چند ماہ پہلے تک یہ بات پورے وثوق سے کہی جا رہی تھی کہ صدر کرزئی اقتدار سے چمٹے رہیں گے اور اس مقصد کے لیے یا تو وہ کسی آئینی ترمیم کے ذریعے خود کو تیسری بار صدارتی انتخابات میں حصہ لینے کا اہل بنا لیں گے یا پھر انتخابات کو ہی ملتوی کر دیں گے‘ لیکن ان خدشات میں سے کوئی بھی درست ثابت نہ ہوا؛ البتہ ان کے بھائی قیوم کرزئی صدارتی انتخابات میں حصہ لے رہے تھے۔ اس سے ان شبہات کو تقویت ملی کہ صدر کرزئی اپنے بھائی کو کامیاب کروا کے بالواسطہ طور پر اپنے اقتدار کو طول دینا چاہتے ہیں لیکن گزشتہ دنوں قیوم کرزئی انتخابی دوڑ سے باہر ہو گئے اور انہوں نے ایک اور امیدوار زلمے رسول کی حمایت کا اعلان کر دیا۔
دوسری طرف طالبان نے انتخابات کو ایک فراڈ قرار دے رکھا ہے اور واضح کر دیا ہے کہ وہ نہ تو ان انتخابات کو تسلیم کریں گے اور نہ ہی ان کے بعد تشکیل پانے والی حکومت کو۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے سرکاری تنصیبات، ایساف کے جوانوں، افغان فوج اور پولیس کے علاوہ انتخابات میں حصہ لینے والے امیدواروں پر حملے تیز کر دیے ہیں۔ گزشتہ دس دنوں میں طالبان کی طرف سے دارالحکومت کابل اور ملک کے دیگر حصوں میں متعدد ایسے حملے کیے گئے‘ جن میں درجنوں افراد ہلاک ہو گئے۔ ہلاک ہونے والوں میں سے بیشتر کا تعلق افغان اور نیٹو سیکورٹی فورسز سے ہے۔ اس قسم کا ایک حملہ گزشتہ بدھ یعنی دو اپریل کو کابل میں افغان وزارتِ داخلہ کی عمارت میں کیا گیا‘ جس میں پولیس کی وردی میں ملبوس ایک خود کش بمبار نے چھ افغان پولیس افسروں کو دھماکے سے اْڑا دیا تھا۔ 29 مارچ کو طالبان نے کابل میں الیکشن 
کمیشن کو اپنے حملے کا نشانہ بنایا تھا اور صوبہ زابل میں ایک خود کش حملے میں ایک نیٹو سپاہی کو ہلاک کر دیا تھا۔
اس سے ایک روز قبل طالبان نے کابل میں ایک گیسٹ ہائوس پر حملہ کر کے وہاں مقیم غیر ملکیوں میں سے دو افراد کو ہلاک کر دیا تھا۔ کابل میں نئے سال کے دوران یہ چوتھا حملہ تھا۔ ان حملوں کا مقصد یہ ثابت کرنا تھا کہ طالبان صدارتی انتخابات کو سبو تاژ کرنے کی پوری صلاحیت رکھتے ہیں۔ لیکن مبصرین کا خیال ہے کہ طالبان کے ان پے در پے اور کامیاب حملوں کے باوجود صدارتی انتخابات میں افغان عوام بڑھ چڑھ کر حصہ لیں گے اور ووٹر ٹرن آئوٹ 60 سے 70 فیصد تک ہو سکتا ہے‘ جبکہ 2009ء میں اہل ووٹرز میں سے صرف 30 فیصد ووٹرز نے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا تھا۔ آج کے انتخابات میں زیادہ ووٹ ڈالے جانے کی امید دو وجوہ کی بنا پر کی جا رہی ہے۔ اولاً گزشتہ انتخابات کے برعکس اس دفعہ افغان میڈیا نے ان انتخابات میں عوامی دلچسپی ابھارنے میں بڑا اہم کردار ادا کیا ہے۔ اس وقت افغانستان میں 75 کے قریب ٹی وی چینل، 175 ریڈیو سٹیشن اور سینکڑوں اخبارات موجود ہیں۔ میڈیا میں انتخابات کے متعلق معلومات اور تبصروں کے علاوہ امیدواروں کے درمیان ٹی وی مباحثوں نے بھی عوام کی توجہ ان انتخابات کی طرف مبذول کرانے میں نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ ان حالات کا اگر طالبان کے دور سے موازنہ کیا جائے تو یہ ایک بہت بڑی انقلابی اور بنیادی تبدیلی ہے۔ طالبان کے دور میں صرف ایک ریڈیو چینل''ریڈیو شریعت‘‘ کے نام سے کام کر رہا تھا۔
ثانیاً گزشتہ انتخابات سے سبق حاصل کرتے ہوئے اس دفعہ دھاندلی کو روکنے کے لیے خصوصی انتظامات کیے گئے ہیں۔ انتخابی مہم میں حصہ لینے والی مختلف ٹیموں سے تعلق رکھنے والے 22 ہزار الیکشن مانیٹر، 6000 پولنگ سٹیشنز پر 1500 کے قریب مبصرین الیکشن کی شفافیت کو یقینی بنانے کے لیے ڈیوٹی پر موجود ہوں گے۔ میڈیا اپنی جگہ چوکس ہے جس کی وجہ سے گزشتہ انتخابات کے برعکس اس دفعہ دھاندلی کا ارتکاب مشکل نظر آتا ہے۔
جہاں تک انتخابات کو لاحق سب سے بڑے خطرے یعنی طالبان کے حملوں کا تعلق ہے تو اس سلسلے میں افغان سکیورٹی فورسز اور نیٹو افواج نے ملک گیر پیمانے پر موثر انتظامات کر رکھے ہیں۔ پولنگ سٹیشنوں کی ایک بہت بڑی تعداد کو حساس قرار دے کر ان کی حفاظت کا خاص اہتمام کیا گیا ہے۔ اس کے باوجود پولنگ سٹیشنوں خصوصاً پاکستانی سرحد سے ملحق مشرقی اور جنوبی افغان علاقوں میں طالبان کے حملوں کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا۔ آج کے انتخابات کی ایک اور خصوصیت یہ ہے کہ ان میں پاکستان میں مقیم افغان مہاجرین کو حصہ لینے کی اجازت نہیں دی گئی۔ اگر طالبان حملوں کا خوف افغان ووٹرز کے ایک بہت بڑے حصے کو پولنگ سٹیشنز سے دور رکھنے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو لاکھوں کی تعداد میں افغان مہاجرین کی عدمِ شرکت کے باعث ان انتخابات کی نمائندہ حیثیت یقیناً مشکوک ہو گی‘ لیکن غیرملکی مبصرین کی رائے میں افغانستان میں ان انتخابات کو پوری سنجیدگی سے لیا جا رہا ہے اور عوام کی بھاری اکثریت‘ جن میں بڑی تعداد عورتوں کی ہے‘ اس اہم انتخابی معرکے میں بھرپور دلچسپی کا مظاہرہ کر رہی ہے۔ 
ان انتخابات کے دو مزید ایسے مثبت پہلوئوں کی نشاندہی کی گئی ہے جن کی بنیاد پر انہیںافغانستان میں ایک تعمیری، صحت مند اور جمہوری تبدیلی کا پیش خیمہ قرار دیا جا رہا ہے۔ ایک یہ کہ یہ انتخابات خالصتاً قبائلی اور لسانی بنیادوں پر منعقد نہیں ہو رہے بلکہ نمایاں امیدواروں کی ٹیم میں مختلف لسانی گروپوں سے تعلق رکھنے والے امیدوار بھی شامل ہیں‘ مثلاً اشرف غنی خود پشتون ہیں لیکن انہوں نے ازبک نسل سے تعلق رکھنے والے رشید دوستم کو اپنا نمبر دو مقرر کر رکھا ہے۔ عبداللہ عبداللہ تاجک ہیں مگر ان کے نائب محمد متقی کا تعلق ہزارہ قبیلے سے ہے۔ اس کے پیشِ نظر قبائلی بنیادوں پر ووٹوں کی تقسیم کا اندیشہ کم ہے۔ اس کے علاوہ عبداللہ عبداللہ اور اشرف غنی دونوں ٹیکنوکریٹ ہیں۔ عبداللہ عبداللہ کرزئی حکومت کے ایک کامیاب وزیر خارجہ تھے اور اشرف غنی نے بطور وزیر خزانہ قابل قدر خدمات سرانجام دیں۔ دونوں میں کسی کی بھی کامیابی افغانستان میں گڈ گورننس (Good Governance) کے امکان کو روشن کر سکتی ہے۔ سبھی امیدوار امریکہ کے ساتھ دوطرفہ سکیورٹی معاہدے کے حامی ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ انتخابات کا خواہ کوئی بھی نتیجہ برآمد ہو، 2014ء کے بعد بھی افغانستان میں امریکی اور نیٹو افواج موجود رہیں گی۔ اگرچہ ان کی تعداد محدود ہو گی اور ان کے فرائض میں صرف افغان سکیورٹی فورسز کی تربیت اور ضرورت پڑنے پر طالبان کی یلغار کو روکنے کے لیے افغان افواج کی مدد کرنا شامل ہو گا۔ پاکستان میں انتخابی نتائج کا بے تابی سے انتظار کیا جائے گا‘ کیونکہ افغانستان میں سیاسی تبدیلی ہماری سلامتی کے ماحول پر براہ راست اثر انداز ہو گی۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved