تحریر : خورشید ندیم تاریخ اشاعت     05-04-2014

ہیجان

فرض کیجیے جنرل مشرف کا مقدمہ اخبارات میں دو کالمی خبر کا مستحق ٹھہرے۔ فرض کیجیے، یہ ایک آدھ بار ٹی وی کے ٹاک شوز کا موضوع بنے۔ اگر ایسا ہو تو کیا اس کے بعد بھی سیاسی فضا میں یہی ہیجان ہو؟
جنرل مشرف پر چند الزامات ہیں۔ ملک کے قانون کے مطابق یہ عدلیہ میں زیرِ سماعت ہیں۔ کوئی شہادت ایسی نہیں کہ حکومت اس مقدمے پر اثر انداز ہو نے کی کوشش کر رہی ہے۔ فوج کی غیر جانب داری بھی واضح ہے۔ مشرف صاحب ملک سے باہر جانا چاہتے ہیں۔ قانون کے مطابق انہوں نے حکومت سے درخواست کی۔ حکومت نے اپنا قانونی حق استعمال کرتے ہوئے، اس درخواست کو رد کر دیا۔ اب قانون مشرف صاحب کو یہ حق دیتا ہے کہ وہ اس فیصلے کے خلاف عدالت سے رجوع کریں۔ انہوں نے ایسا ہی کیا۔ اس سارے معاملے میں غیر معمولی بات کیا ہے؟ پھر یہ ہیجان کیوں ہے؟ آخر ہم فکری بلوغت کا مظاہرہ کیوں نہیں کر سکتے ہیں؟
ایک اور معاملہ دیکھیے! سندھ اسمبلی نے کہا کہ اسلامی نظریاتی کونسل کو تحلیل کر دینا چاہیے۔ جواب میں مولانا فضل الرحمٰن نے ارشاد فرمایا: (اس جسارت پر) سندھ اسمبلی کو تحلیل کر دینا چاہیے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ اگر کسی کو اسلامی نظریاتی کونسل کی کسی بات سے اختلاف ہے‘ تو کیا اس کا حل یہ ہے کہ کونسل ہی کو ختم کر دیا جائے؟ یا اگر سندھ اسمبلی کا موقف کسی کے خیال میں درست نہیں تو کیا اس جرم پر اسمبلی ہی کو تحلیل کر دینا چاہیے؟ ایک طبقہ دعویٰ کرتا ہے کہ وہ لبرل اقدار کا علم بردار ہے۔ دوسرا خود کو مذہب کا نمائندہ کہتا ہے۔ کیا لبرل ازم اور مذہب میں کہیں اعتدال نہیں ہوتا؟ کیا ہم سب ردِ عمل کی نفسیات ہی میں جیتے ہیں؟ معلوم ہوتا ہے مذہب ہو یا لبرل ازم، یہ سب عصبیتوں کے عنوان ہیں، کسی کا ان کے حقیقی مفاہیم سے کوئی تعلق نہیں۔ کیا اسلام ایک عصبیت ہے؟ کیا لبرل ازم ایک فیشن ہے؟ 
طبیعتوں میں ہیجان ہے۔ اختلاف کو کوئی گوارا نہیں کرتا۔ مکالے کے بجائے مناظرے کا ماحول ہے۔ غلطی کا اعتراف تو خیر تہذیبِ نفس کا اعلیٰ درجہ ہے، اس کا ذکر کیا کرنا۔ تصوف کی بات بہت ہوتی ہے لیکن صوفیوں جیسا ظرف کہاں؟ جو تصوف کے نمائندے ہیں، وہ بھی معاصر اہلِ علم کا ذکر اس اسلوب میں کرتے ہیں کہ حیرت ہوتی ہے۔ سارا احترام اور شائستگی ماضی کے لوگوں کے لیے ہے اور وہ بھی ہم نواؤں کی حد تک۔ آدمی کا اصل امتحان تو یہ ہے کہ اپنے عہد کے لوگوں کے بارے میں کیا گمان کرتا ہے۔ اس رویے کا نتیجہ یہ ہے کہ ہم طبقات میں بٹ گئے ہیں۔ ہر نیا اختلاف ایک نئے طبقے کو جنم دیتا ہے۔ اختلاف مذہبی معاملے میں ہو تو نئی مذہبی جماعت، سیاست میں ہو تو بھی نئی جماعت۔ اگر اس کی توفیق نہ ہو تو ہم خیال یا فارورڈ بلاک۔ کبھی آپ نے سوچا جہاں ضرورت نہیں ہوتی، وہاں مسجد کیوں بنتی ہے؟ جہاں ایک مدرسہ موجود ہوتا ہے، وہاں دوسرا کیوں قائم ہوتا ہے؟ ایک مزار کے بہت سے مجاور کیوں ہوتے ہیں؟ دکانوں میں اضافہ تو قابلِ فہم ہے کہ کاروبار ہے‘ خانقاہ اور مسجد تو کاروبار نہیں۔ میرا خیال ہے یہ تو انتشار ختم کرنے والے ادارے ہیں۔ یہ تو لوگوں کو خیر کے نام پر جمع کرتے ہیں۔ یہاں سے تو ایک ہی آواز اٹھتی ہے: حی علی الفلاح۔ آؤ فلاح کی طرف۔ اس کے مخاطب سب ہوتے ہیں، بلاامتیاز۔ مسجد دنیا میں جہاں ہو گی وہاں سے یہی صدا بلند ہو گی۔ تصوف کی روایت میں تو تبدیلیِ مذہب کا بھی کوئی تصور موجود نہیں۔
خبر آپ نے پڑھ لی کہ ایک نو ماہ کے بچے پر اقدام قتل کا مقدمہ درج کر لیا گیا۔ عدالت حیران‘ لیکن میرے لیے اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں۔ میں نے اپنے پی ٹی وی کے پروگرام میں سوال اٹھایا کہ جرم کیوں ہوتا اور اسے کیسے ختم کیا جا سکتا ہے۔ وفاقی سیکرٹری برائے قانون بیرسٹر ظفراللہ خان اور نیک نام پولیس افسر ذوالفقار چیمہ، آئی جی ٹریفک پولیس نے اظہار خیال کیا۔ معلوم ہوا کہ عوام سب سے پہلے انصاف کے راستے میں حائل ہوتے ہیں‘ پھر پولیس۔ اس کے بعد وکیل اور پھر عدالت۔ جب ایف آئی آر درج کرائی جاتی ہے تو سب مخالفین کے خلاف، 
قطعِ نظر اس کے کہ وہ جرم میں شریک ہیں یا نہیں۔ پولیس تفتیش میں اپنا فرض ادا نہیں کرتی۔ وکیل موکل کو جھوٹ کے راستے دکھاتا ہے۔ آخر نو ماہ کے بچے کو نامزد کرنے والا کون ہے؟ وہی جس نے ایف آئی آر درج کرائی۔ یہی آ دمی خود کو عوام کہتا ہے اور شکوہ کرتا ہے کہ اس ملک میں عوام کو انصاف نہیں ملتا۔ اعتدال اور انصاف ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔ ظلم اور عدم اعتدال ہم معنی ہیں۔ عربی میں ظلم کی یہی تعریف ہے۔ کسی چیز کو ایسی جگہ رکھ دینا جو اس کا محل نہیں ہے۔ ہم دشمنی میں انصاف پر کھڑے ہوتے ہیں نہ دوستی میں۔
کہا جا تا ہے کہ کچھ لوگوں کو سب عیب اپنے ملک میں اور اپنے لوگوں میں دکھائی دیتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ان سماجی مسائل کا ماخذ کیا ہے؟ سندھ اسمبلی کے ارکان کہاں سے آئے ہیں؟ مو لانا فضل الرحمٰن کس ملک کے شہری ہیں؟ یہ لبرل کون ہیں جو اختلاف کو گوارا نہیں کرتے؟ یہ مذہبی عناصر کس ملک کے شہری ہیں جو ردِ عمل کی نفسیات میں جیتے ہیں؟ کیا میں ان سب کو بیرونی قوتوں کا آلہ کار مان لوں؟ کیا میں انہیں دشمن کا ایجنٹ سمجھوں؟ میں ایسا نہیں کر سکتا۔ اس کا بڑا سبب یہ ہے کہ میرے ہر طرف اسی رویے کا غلبہ ہے۔ میں خاندانی معاملات میں لوگوں کے رویے کو دیکھتا ہوں۔ سماجی حوالے سے لوگوں کا کردار میرے روزمرہ مشاہدے کا حصہ ہے۔ روز افزوں جرائم میرے سامنے ہیں۔ ہر جگہ اسی رویے کا 
عکس ہے جو ہم مذہب و سیاست کے باب میں قومی سطح پر دیکھتے ہیں۔ بیس میں سے اٹھارہ کروڑ کیا، بیرونی ایجنٹ ہیں؟ عوام کو رعایت دی جا سکتی ہے کہ وہ مقلدِ محض ہوتے ہیں۔ یہاں تو بات قائدین کی ہے۔ مثال کے طور پر سندھ اسمبلی کے بارے میں مولانا فضل الرحمٰن کا یہ بیان، ان کے معتقدین کی کیا تربیت کر رہا ہے؟ انہیں اختلاف کے کس اسلوب کا خوگر بنا رہا ہے؟
سوئے ظن، بدگمانی، شدت پسندی، سب انتشارِ فکر کے مظاہر ہیں۔ یہ علامتیں ہیں، ایک مرض کی۔ ہم کوئی نظامِ اقدار بنانے میں کامیاب نہیں ہو سکے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کی تربیت جدید تعلیمی اداروں کے نصاب کا حصہ ہے‘ نہ دینی مدارس کے ماحول میں اس کا گزر ہے۔ دینی مدارس میں مناظرہ پڑھایا جاتا تھا، کبھی مکالمہ نہیں پڑھایا گیا۔ جنہیں ہم پڑھا لکھا کہتے ہیں اور جو یونیورسٹیوں کے فارغ التحصیل ہیں، کبھی اُن سے اختلاف کر کے دیکھیے، آپ مذہبی لوگوں کو بھول جائیں گے۔ ہر روز ہم ٹی وی ٹاک شوز میں جنہیں چونچیں لڑاتا دیکھتے ہیں، ان میں سے اکثر جدید اداروں کی دین ہیں۔ اپنی بات دہراتا ہوں۔ مسئلہ لبرل یا مذہبی ہو نے میں نہیں، رویے میں ہے۔ رویہ جو ہیجان پیدا کرتا ہے۔ یہ سماج کے ہر طبقے میں سرایت کر گیا ہے۔ اس نے اعتدال کی جگہ لے لی ہے۔ شدت پسندی اسی کا ایک مظہر ہے۔ میڈیا اس کو اب کمائی کا ذریعہ سمجھتا ہے۔ اس کا نام 'ریٹنگ‘ ہے۔ یہی مشرف صاحب کا مقدمہ دیکھ لیجیے۔ اگر یہ اخبارات میں دو کالمی سرخی ہو تو؟ اگر یہ ٹی وی ٹاک شوز میں اس کثرت سے زیرِ بحث نہ آئے تو؟ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved