بلوچستان سے ماضی کی زیادتیوں
کا ازالہ کریں گے... نواز شریف
وزیر اعظم میاں نواز شریف نے کہا ہے کہ ''بلوچستان سے ماضی کی زیادتیوں کا ازالہ کریں گے‘‘ البتہ موجودہ اور مستقبل کی زیادتیوں کے بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا کیونکہ ایک وقت میں ایک ہی کام ہو سکتا ہے، اس لیے جب ماضی کی زیادتیوں کے ازالے سے فارغ ہو لیں گے تو موجودہ اور مستقبل کی زیادتیوں کے بارے بھی سوچیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ''صوبے کی ترقی اولین ترجیح ہے‘‘ بشرطیکہ صوبے کا کوئی فرد اللہ کو پیارا ہونے سے رہ گیا کیونکہ لوگ نہ صرف اغوا ہو رہے ہیں بلکہ ان کی مسخ شدہ لاشیں بھی دستیاب ہو رہی ہیں اور اجتماعی قبروں کا سراغ بھی مل رہا ہے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں اختر مینگل سے بات چیت کر رہے تھے۔
مذاکراتی عمل خراب کرنے والوں
کے حوصلے توڑ دیئے... سمیع الحق
مذاکراتی کمیٹی کے رکن اور جمعیت علمائے اسلام (س) کے سربراہ مولانا سمیع الحق نے کہا ہے کہ ''مذاکراتی عمل خراب کرنے والوں کے حوصلے توڑ دیئے ہیں‘‘ جس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ طالبان نے انتہائی دریا دلی سے کام لیتے ہوئے جنگ بندی میں ایک ہفتے کی توسیع کر دی ہے جس کے عوض محض گنتی کے طالبان قیدیوں کو ہی رہا کرنا پڑا ہے اور پختہ امید ہے کہ جب تک طالبان قیدیوں کی تعداد ختم نہیں ہو جاتی‘ جنگ بندی میں ایک ایک ہفتہ توسیع ہوتی رہے گی اور مذاکراتی عمل خراب کرنے والوں کے دانت کھٹے ہوتے رہیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ''دہشت گردی کی آگ کو مذاکرات سے ہی بجھانا ہو گا‘‘ جبکہ جونہی طالبان قیدیوں کی تعداد ختم ہوتی ہے‘ ان کے دیگر مطالبات بھی شروع ہو جائیں گے اور یہ آگ بجھانے کے لیے یہی پانی کام آئے گا۔ انہوں نے کہا کہ ''اسی سے امن کا قیام ممکن ہے‘‘ کیونکہ اگر کچھ لینا ہے تو ساتھ ساتھ کچھ دینا بھی ہے۔ آپ اگلے روز پشاور میں منعقد ہونے والی امن کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔
محمود شام
پچھلے دنوں قیامِ کراچی کے دوران میں ڈاکٹر فاطمہ حسن کے ہاں ٹھہرا ہوا تھا کہ برادرم محمود شام اپنی بیگم کے ہمراہ آ گئے۔ انہیں کھانے پر بلایا ہوا تھا لیکن بقول اقبال ؎
اہلِ دنیا یہاں جو آتے ہیں
اپنے انگار ساتھ لاتے ہیں
وہ کچھ پکوان خود بھی تیار کروا کے ساتھ لے آئے جن میں بڑیاں‘ حلوہ اور چٹنی بطور خاص شامل تھی۔ میں اکیلا ہی شیطان کی طرح مشہور نہیں‘ محمود شام مجھ سے بھی دس قدم آگے ہیں۔ انہوں نے اپنی تازہ تصنیف ''ترقی کرتا دشمن‘‘ (چند سفر ہندوستان کے) بھی عنایت کی۔ کتاب میں شامل فہرست کے مطابق موصوف کی اب تک 20 کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ کتاب کے پسِ سرورق وہ لکھتے ہیں:
آج میں ایک اور نیا تجربہ کرنے جا رہا ہوں۔ ہندوستان اور پاکستان دونوں ملکوں کے قارئین کے لیے ایک ہی تحریر پیش کر رہا ہوں۔ میں جذبات سے مغلوب ہوں۔ اللہ کے حضور شکر گزار بھی ہوں کہ مجھے یہ موقع نصیب ہو رہا ہے۔ میں ان تمام مدیران اور مالکان کا بھی ممنون ہوں جنہوں نے مجھے اپنے اپنے علاقے میں بہت پڑھے جانے والے اخبارات میں جگہ دی ہے جس کی بدولت میں اپنے دل کی آواز آپ سے شیئر کر سکتا ہوں۔ مجھے جب اور جہاں بھی جانے کا موقع ملتا ہے میں اپنے پڑھنے والوں کو سا تھ رکھتا ہوں۔ ان کو اپنے لطف‘ کرب‘ تعجب‘ تجسس میں شریک رکھتا ہوں‘‘۔
آخر پر ان اخبارات کے نام بھی درج کر دیئے ہیں جن میں زمانہ‘ سادات‘ مشرق‘ انتخاب‘ عبرت‘ پریس کانفرنس‘ امن‘ ہند سماچار‘ آگ‘ سیاست اور پرتاب شامل ہیں۔
یہ سفرنامہ مصنف کے دلی‘ دکن‘ یوپی اور اڑیسہ کے دوروں کی مختصر داستان پر مشتمل ہے جو دلچسپ بھی ہے اور معلومات افزا بھی۔ اسے ویلکم پورٹ کراچی نے شائع کیا ہے اور قیمت 350 روپے رکھی ہے۔
محمد ندیم بھابھہ
''حال‘‘ نامی مجموعۂ غزل اس نوجوان شاعر کا تیسرا پڑائو ہے۔ چند اشعار دیکھیے:
خدا کی طرح کوئی آدمی بھی ہے شاید
نظر جو آتا نہیں آس پاس ہو کر بھی
بھیک مل جاتی ہے اور پانی بھی پی لیتا ہوں
ہاتھ کشکول بھی ہیں اور مرے برتن بھی
میرے اندر بھٹکنے والے سُن
میں کسی دشت کا بنا ہوا ہوں
مکمل تجھ کو بھی ہونے نہ دوں گا
تجھے لکھ کر ادھورا چھوڑنا ہے
یہ اور بات کہ رہنا مرا گوارا نہیں
تمہارے شہر میں خالی مکان آج بھی ہیں
میں محبت کو ابھی جنگ سمجھتا نہیں دوست
اس لیے اپنا ہی نقصان کیے جاتا ہوں
وقت کی طرح ترے ہاتھ سے نکلے ہوئے ہیں
ہم ستارے ہیں مگر رات سے نکلے ہوئے ہیں
اک آواز کے آتے ہی مر جائوں گا
اک آواز کے سننے کو زندہ ہوں میں
میں نے سیکھا ہے اسے دیکھ کے رستہ ہونا
لوگ کہتے ہیں کہ دیوار کو دیوار سمجھ
اس کتاب کے دیباچے عباس تابش اور حسنین سحر نے لکھے ہیں۔ اسے ''ورّاق‘‘ ادبی تنظیم لاہور نے چھاپا ہے اور اس کی قیمت 350 روپے رکھی ہے۔
آج کا مطلع
یہ جہاں آدھا فقط آہنگ سے پیدا ہوا
اور جو باقی بچا وہ رنگ سے پیدا ہوا