ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کو 35سال پہلے پھانسی پر لٹکایا گیا تھا۔ان کی میت راولپنڈی سے لاڑکانہ لائی گئی اور گڑھی خدا بخش میں اسے دفن کردیا گیا۔چند افراد کو ان کے جنازے میں شرکت کی اجازت ملی اور وہ شخص جو لاکھوں کے اجتماعات سے خطاب کرتا اور ان میں زندگی کی لہر دوڑا دیتا تھا، خاموشی سے منوں مٹی تلے دبا دیا گیا۔ان کی بیوی اور بیٹی کو آخری رسومات میں شرکت کی اجازت بھی نہ ملی اور ملک بھر میں سناٹا چھا گیا۔ ایک ایسا سناٹا کہ جس پر چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کو پریشانی لاحق ہوگئی۔خدشہ پیدا ہوا کہ یہ خاموشی کسی طوفان کا پیش خیمہ نہ بن جائے، سو اس کو ٹوٹنا چاہیے، ''بھٹو لورز‘‘ کے دلوں کا بوجھ ہلکا ہونا چاہیے۔ احتجاج کی حوصلہ افزائی کرنے کا فیصلہ کیا گیا، نعرے لگا کر بازاروں میں نکلنے والوں پر مارشل لاء کا کوڑا نہ برسانے کا حکم ہوگیا،لیکن بھٹو کا غم آج تک ان کے حامیوں کے دلوں کا زخم بنا ہوا ہے۔اس پھانسی نے ملکی سیاست کو اس طرح متاثر کیا کہ بھٹو کے بعد تخت نشین ہونے کا خواب دیکھنے والے سیاستدان خاک چاٹتے رہ گئے۔
انتخابات میں دھاندلی کے الزام میں جو تحریک شروع کی گئی تھی اور جس کا بنیادی مقصد ملک میں صاف ستھرے، آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کا انعقاد تھا، اس کے نتیجے میں آٹھ سالہ طویل مارشل لاء تو قوم کو مل گیا، لیکن وہ انتخابات نہ مل پائے جن کا مطالبہ کیا جارہا تھا اور جن کے خواب دیکھے اور دکھائے جا رہے تھے۔1977ء کے انتخابات کو کسی طور شفاف نہیں کہا جا سکتا ، ان میں انتظامیہ کا کردار اب کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ ہزاروں صفحات پر مشتمل دستاویزات مرتب ہو چکیں اور جھرلو پھیرنے والوں کے ہاتھ اور پائوں گواہی دے چکے، لیکن ان کے خلاف احتجاج کرنے والوں کے حاشیۂ خیال میں بھی نہیں تھا کہ انہیں قومی اسمبلی کی جو 37نشستیں مل چکی ہیں، وہ بھی ان سے چھن جائیں گی۔ ''مفتی اعظم وزیراعظم‘‘ اور ''وزیراعظم اصغر خان‘‘ کے نعرے وقت کے قبرستان میں اس طرح دفن ہوں گے کہ پھر کبھی ان کی بازگشت بھی سنائی نہ دے سکے گی۔
4اپریل 1979ء کو تو بھٹو صاحب کو سپردخاک کر دیا گیا، لیکن 35سال گزرنے کے بعد بھی ان کے ہزاروں، لاکھوں پُرجوش حامی ان کی قبر پر جمع ہوتے، ایصال ثواب کے لئے قرآن پڑھتے اور اپنی سیاسی قوت کے اظہار کے لئے جلسۂ عام کی رونق بنتے ہیں۔ بھٹو صاحب کو تو دفن کردیا گیا، لیکن ان کی شخصیت اور سیاست کو دفن نہیں کیا جا سکا، آج بھی سندھ میں ان کی پارٹی برسراقتدار ہے اور وفاق کی سطح پر ایک بڑا وجود رکھتی ہے۔آج پیپلزپارٹی کی قیادت بلاول بھٹو زرداری کے ہاتھ میں ہے۔ زرداری صاحب اپنے اکلوتے بیٹے کے اتالیق ہیں، لیکن اس کی رگوں میں ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو کا خون جوش مار اٹھتا ہے۔ 35 سال سے 4اور 5اپریل کی درمیانی رات کو ملک بھر سے لوگ بھٹو کے مرقد پر جمع ہوتے اور جس لمحے ان کو پھانسی دی گئی، اس لمحے کی یاد تازہ کرتے چلے آ رہے تھے، لیکن اس سال بلاول نے 4اپریل کی سہ پہر کو جلسہ کرنے کا فیصلہ کیا اور دودن پہلے تبدیلی کی اطلاع دی گئی۔ اس کے باوجود اتنے افراد موجود تھے، جنہیں سیاست کی زبان میں لاکھوں کہا جاتا ہے۔ بھٹو صاحب کا ترکہ چونکہ ان کے تمام ورثا میں تقسیم ہو چکا ہے، اس لئے مرتضیٰ بھٹو کی بیوہ غنویٰ بھٹو بھی پیپلزپارٹی پر اپنا حق جتاتی ہیں۔ وہ اپنے شوہر کی پیپلزپارٹی کو بھٹو شہید گروپ کے نام سے زندہ رکھے ہوئے ہیں۔ انہوں نے بھی 4اپریل ہی کو جلسے کا اعلان کر رکھا تھا۔ان کے لئے راستہ یوں چھوڑا گیا کہ دو بجے سے پہلے ان کو جلسے کی اجازت دے دی گئی۔انہوں نے دن کے ابتدائی نصف میں دل کی بھڑاس نکالی، جبکہ دو بجے کے بعد محترمہ بے نظیر بھٹو کی وراثت نے اپنا آپ دکھایا۔ دونوں اجتماعات میں حاضری کے اعتبار سے کوئی مقابلہ نہیں تھا،بھٹو مرحوم کے جیالے سیاسی ترکے میں غنویٰ بھٹو کو حصہ دینے پر تیار نہیں ہیں، وہ بے نظیر بھٹو سے ہوتے ہوئے زرداری صاحب اور ان کے بعد بلاول بھٹو زرداری تک پہنچ جاتے ہیں اور ان کے ہم آواز ہو کر اپنی آواز آسمان تک پہنچاتے ہیں۔
چند میڈیا دوستوں کے ساتھ ،پہلی بار برسی کے اجتماع میں شرکت کا موقع ملا۔بھٹو صاحب کی مرقد پر تو کئی بار آنا ہوا تھا، لیکن 4اپریل کے حوالے سے یہ پہلا اتفاق تھا۔عزیزم محسن نقوی کی رفاقت نے فاصلے سمیٹ دیئے تھے کہ وہ ہمیں ہوا کے ذریعے موہنجوداڑو لے گئے، وہاں سے چند کلومیٹر لاڑکانہ تھا۔ موہنجوداڑو کے آثار سے ملاقات ہوئی، ہزاروں سال پہلے کا یہ شہر خبر دیتا ہے کہ یہ ایک جدید اور ترقی یافتہ بستی تھی۔ گلیاں ، نالیاں، پختہ مکانات، نہانے کے لئے تالاب قدم قدم پر اس کی گواہی دیتے ہیں۔یہاں سے گڑھی خدا بخش کے لئے روانہ ہوئے تو راستے میں نوڈیرو میں طویل قیام کیا۔ آصف علی زرداری صاحب ہمارے میزبان تھے، ان کا دسترخوان پُرتکلف اور وسیع تھا۔ محترمہ فریال تالپور، شرجیل میمن، ڈاکٹر عاصم اور پیپلزپارٹی کے کئی قدآور رہنمائوں سے ملاقات ہوئی۔ زرداری صاحب سے کھل کر بات چیت ہوئی، وہ نوازشریف حکومت سے محاذ آرائی کے لئے تیار نہیں تھے۔ آئندہ انتخابات میں قسمت آزمائی کے علاوہ تبدیلی کا کوئی راستہ ان کے سامنے نہیں تھا۔چین کے ساتھ اشتراک کو وہ اپنے دور ہی کی وسعت قرار دیتے تھے کہ بار بار وہاں جا کر انہوں نے اس کی بنیاد رکھ دی تھی۔طالبان سے عہدہ برآ ہونے کا کام نوازشریف حکومت ہی کے سپرد کرنے پر مُصر تھے اور سعودی عرب سے ملنے والے ڈیڑھ ارب ڈالر پر بھی ان کو اعتراض نہیں تھا۔ اگر اس طرح کا تعاون کوئی اور دوست ملک کرے یا سعودی عرب دوبارہ ہاتھ بڑھائے تو وہ بصدمسرت اسے تھامنے پر تیار تھے۔ جنرل پرویز مشرف کو عدالت کے سپرد کر دینے پر بھی وہ مطمئن و مسرورتھے۔ ان کا کہنا تھا کہ ''بلّے‘‘ کو اب کچھ نہیں کھانے دیں گے...لیکن جلسہ گاہ میں پہنچ کر جب بلاول بھٹو زرداری کی تقریر سنی تو رنگ بدلا ہوا تھا، وہ بھٹو کے لہجے میں برس رہے تھے اور نوازشریف حکومت سے حساب مانگ رہے تھے، تیز جملوں اور حملوں نے ماحول کو دہکا دیا تھا۔ باپ بیٹے کے درمیان باپ اور بیٹے کا فاصلہ موجود تھا!!
(یہ کالم روزنامہ ''دُنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)