ستر کے عشرے میں پاکستان کا بچہ بچہ 'سیاسی‘ ہو چکا تھا۔ مجھے 1971ء کا زمانہ یاد ہے‘ جب میں گجرانوالہ کے سکول کی نرسری میں تھا۔ ہمارے سکول کی دوسری اور تیسری جماعت کے بچے ''بھٹو کا سہرا‘‘ گایا کرتے تھے جس میں پاکستان کے بنیادی مسائل کے ساتھ ساتھ بھٹو کی بہادری، ذہانت اور حب الوطنی کا ذکر ہوتا تھا۔ یہ بھٹو کا ہی اعزاز ہے کہ وہ پاکستانی سیاست کو حکمران طبقات کے ڈرائنگ رومز سے نکال کر پاکستان کے گلی محلوں، کھیتوں کھلیانوں، مزدوروں، کسانوں اور طالب علموں میں لے آئے۔ بھٹو اس ملک کی سیاست کا ایک دیومالائی کردار تھے جنہیں عوام نے سر آنکھوں پہ بٹھایا مگر دوسری طرف اسٹیبلشمنٹ ان کی جان کی دشمن بن گئی۔ انہوں نے بطور وزیر اعظم فقط چار سال اور چند ماہ حکومت کی لیکن یوں لگتا ہے کہ وہ ایک ایک پل میں صدیاں جیئے۔ وہ انتہائی متحرک اور ذہین لیڈر تھے‘ جنہیں زندگی مہلت دیتی تو پاکستان ایک ترقی یافتہ اور لازوال ملک بن جاتا مگر افسوس ایسا نہ ہو سکا۔ بھٹو صاحب کی 35ویں برسی کے حوالے سے چیئرمین بھٹو کے نظریاتی ساتھیوں ضیا کھوکھر اور نیویارک سے آئے ہوئے عرفان میر سے بہت سی باتیں ہوئیں جن سے ایک طرف تو خوشگوار یادوں پر مشتمل میرا ناسٹلجیا مہک اٹھا اور دوسری طرف بھٹو جیسے بڑے لیڈر کو کھونے کے غم نے روح کو گھائل کر دیا۔
بھٹو صاحب نے اپنے دور اقتدار میں خطے کے تمام ممالک کے ساتھ دوستانہ دوطرفہ تعلقات کا قبلہ درست کیا وگرنہ اس سے قبل پاکستان کی خارجہ پالیسی متوازن نہ تھی۔ انہوں نے اقتدار سنبھالنے کے فوراً بعد مغربی ایشیا (مشرقِ وسطیٰ) اور افریقہ کے بارہ ممالک کا طوفانی دورہ کیا تاکہ اسلامی دنیا کے ساتھ اظہار یک جہتی کر سکیں۔ بھٹو صاحب نے چین اور روس جیسے اہم ممالک کے ساتھ بھی رابطہ کیا۔ وہ بھارت کو یہ تاثر دینا چاہتے تھے کہ پاکستان اس نازک مرحلے پر تنہا نہیں۔ بھٹو جینئس تھے، انہوں نے اقتدار سنبھالتے ہی روسیوں کو پاکستان کے خلاف ایک بڑے آپریشن سے روک لیا تھا۔ انٹیلی جنس بیورو نے کرنسی کے ایک بڑے بحران کی نشاندہی کی تھی۔ رپورٹ کے مطابق افغانستان میں روسیوں کی مدد سے پاکستان کی جعلی کرنسی بھاری مقدار میں چھاپ کر پاکستان میں پھیلائی جا رہی تھی تاکہ یہاں مالی و اقتصادی بگاڑ پیدا کیا جا سکے۔ بھٹو نے اپنے قریبی دوست رفیع رضا کو ماسکو بھیجا۔ وہ اس سازش کے کچھ ثبوت اپنے ساتھ لے کر گئے تھے۔ بھٹو نے رفیع رضا کو ہدایت کی کہ وہ دوٹوک انداز سے روسیوںسے دریافت کریں کہ وہ ''پاکستان کی سلامتی کے حق میں ہیں یا نہیں؟‘‘ بھٹو صاحب کا اندازہ درست ثابت ہوا کیونکہ روسیوں نے توقع کے مطابق رسپانس دیا اور کچھ دنوں میں پاکستان میں جعلی کرنسی کا دھندہ بند ہو گیا وگرنہ پاکستان کی اکانومی کو زبردست نقصان پہنچایا جا سکتا تھا۔
یہ بات بھٹو کے مخالفین بھی مانتے ہیںکہ وہ انٹرنیشنل افیئرز کے ماہر تھے۔ تیزگام بھٹو کا المیہ یہ تھاکہ وہ بذات خود انٹرنیشنل محاذ پر پاکستان کے مفادات کی جنگ لڑ رہے تھے جبکہ ملک کے انتظامی معاملات انہیں زیادہ تر اپنے ساتھیوں پر چھوڑنے پڑے۔ بھٹو اپنے گورنروں اور وزرائے اعلیٰ سے کہا کرتے تھے کہ وہ ملک میں کوئی ہنگامہ، گڑبڑ یا فساد نہیں دیکھنا چاہتے‘ جس سے پاکستان کے بین الاقوامی مفادات متاثر ہوں۔ یہ وہ مشکل وقت تھا جب بھٹو صاحب پاکستان کو بحرانوں سے نجات دلانے کے لیے اندرون اور بیرون ملک چومکھی جنگ لڑ رہے تھے۔ انٹرنیشنل سیاست کے فاسٹ ٹریک پر وہ خود برق رفتاری سے آگے بڑھ رہے تھے جبکہ نیشنل ایشوز کو ان کی ٹیم ہینڈل کر رہی تھی۔ بھٹو صاحب چونکہ ملک میں امن چاہتے تھے اس لیے ان کی ٹیم میں شامل گورنروں، وزرائے اعلیٰ اور بیوروکریسی نے 'سب اچھا ہے‘ والا ماحول بنانے کے لیے ڈنڈا چلایا جس سے معاملات رفتہ رفتہ خراب ہوتے گئے۔ یہ غیر محتاط رویہ بھٹو صاحب کی ٹیم اور بیوروکریسی کا تھا جسے بھٹو صاحب کے کھاتے میں ڈال دیا گیا۔
ستر کے عشرے میں چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو انٹرنیشنل لیڈرشپ کے سیاسی ریمپ پر سب سے نمایاں دکھائی دے رہے تھے؛ حالانکہ اس وقت دنیا کے دیگر ممالک کی لیڈرشپ بھی قابل ذکر تھی۔ یہ وہ وقت تھا جب امریکہ کے صدر رچڑڈ نکسن، سعودی عرب کے فرمانروا شاہ فیصل، چین میں چو این لائی، بھارت میں اندرا گاندھی، ایران میں رضا شاہ پہلوی، یوگنڈا میں عدی امین دادا، لیبیا میں کرنل معمر قذافی جبکہ سوویت یونین میں برزنیف جیسے لیڈر اپنے اپنے ملک کی
نمائندگی کر رہے تھے۔ بھٹو دنیا بھر کی لیڈرشپ اور انٹرنیشنل لائم لائٹ پر پوری طرح چھائے ہوئے تھے۔ جس وقت بھٹو کو پاکستان میں اقتدار سونپا گیا، بھارت کی وزیر اعظم ذہین اور مقبول لیڈر اندراگاندھی تھیں۔ جواہر لعل نہرو کی سپوتری اورچیئرمین بھٹو کے مابین سفارتی، سیاسی اور نفسیاتی ''ٹی ٹوئنٹی میچ‘‘ کھیلا گیا تو اس کے نتیجے میں بھٹو نہ صرف 93 ہزار جنگی قیدی پاکستان لے آئے بلکہ ساڑھے 5 ہزار مربع میل علاقہ بھی واگزار کرانے میں کامیاب ہو گئے۔ اس کے لیے بھٹو نے سفارتی سیاست میں پہلوانی دائو آزمایا جسے ''سجی دکھا کرکھبی مارنا‘‘ کہتے ہیں یعنی ''دایاں دکھا کر بایاں مارنا‘‘۔ بھٹو صاحب کو دونوں ہی کام سرانجام دینے تھے مگر یہ کیسے ممکن ہوتا جبکہ بھارت رتی برابر تعاون کے لیے تیار نہ تھا۔ بھٹو صاحب نے دانستہ اور منصوبہ بندی کے تحت نہایت ہوشیاری سے بھارت کے سامنے جنگی قیدیوں کا معاملہ پاکستان کی زندگی اور موت کا مسئلہ بنا کر پیش کیا؛ حالانکہ بھٹو پہلے پاکستان کا مقبوضہ علاقہ بھارت کے قبضے سے چھڑانا چاہتے تھے۔ اندرا گاندھی خود سے زیادہ انٹیلی جنٹ بھٹو کے چکر میں آ گئیں اور انہوں نے ساڑھے 5 ہزار مربع میل پاکستانی علاقے کا قبضہ چھوڑنے کی پیشکش کر دی۔ اندر کھاتے تو بھٹو بھی اسی گیم میں تھے مگر انہوں نے نہایت دانشمندی سے اندرا گاندھی کو یہ تاثر دیا کہ پاکستان اور خصوصاً ان کی حکومت کے لیے اس کے جنگی قیدی بہت اہمیت کے حامل ہیں لیکن وہ بادل نخواستہ اور لاسٹ آپشن کے طور پر مقبوضہ علاقہ جات
کی پیشکش قبول کر رہے ہیں۔ بھارت نے مقبوضہ علاقے تو اپنی مرضی سے خالی کر دیے جبکہ اسے جنگی قیدی بھی غیرمعمولی عالمی دبائو کے تحت جلد ہی چھوڑنے پڑے۔ عالمی دبائو کے باعث اندرا گاندھی کو تاوان جنگ، جنگی جرائم کے تحت مقدمات چلانے اور دیگر مطالبات کا ہوش ہی نہ رہا جن کا وہ پہلے اکثر ذکر کرتی رہتی تھیں۔ بھٹو صاحب نے عام پاکستانی کو پاسپورٹ جاری کرکے لاکھوں کی تعداد میں لوگوں کو بیرون ملک بھیجا‘ جس کے نتیجے میں پاکستان میں لگ بھگ گزشتہ چالیس سال سے زرمبادلہ آرہا ہے ۔
بھٹو صاحب کے ساڑھے چار سالہ دور کا موازنہ پاکستان کی ساٹھ سالہ تاریخ سے کیا جائے تو ان کا مختصر دور ثقافتی، سماجی، سیاسی، معاشی، سفارتی، ترقیاتی اور نفسیاتی طور پر حاوی دکھائی دیتا ہے۔ بھٹو صاحب کے سیاسی مخالفین تسلیم کرتے ہیں کہ اگر اس وقت کے آرمی چیف جنرل محمد ضیاالحق ان کے خلاف چلائے جانے والے مقدمہ پر اثر انداز نہ ہوتے تو ایک منتخب وزیر اعظم کو یوں پھانسی نہیں دی جا سکتی تھی۔ بھٹو صاحب کو پھانسی دینا وہ قومی گناہ تھا جس کی سزا ہم آ ج بھی بھگت رہے ہیں۔ بھٹو اور بے نظیر بھٹو شہیدکے خون کے صدقے میں ملنے والی زرداری حکومت کا فرض تھا کہ وہ چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو کو عدالت سے علامتی طور پر ''باعزت رہائی‘‘ دلاتی مگر افسوس وہ اتنا بھی نہ کر سکی۔ وطن عزیز میں منتخب جمہوری نمائندوں کی تقدیر میں جلاوطنیاں اور پھانسیاں لکھی جاتی رہیں۔ آج اگر آمر کے ساتھ بھی قانون کے مطابق نمٹا گیا تو یہ ایک طرح سے شہید ذوالفقار علی بھٹو کے ناحق خون کا کفارہ ہو گا وگرنہ بقول منیر نیازی:
ورنہ یہ عمر بھر کا سفر رائیگاں تو ہے!
(ختم)