مذاکرات کے نام پر حکوموت اندھوں سے راستہ پوچھ رہی ہے...بلال بھٹو زرداری
پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ''مذاکرات کے نام پر حکومت اندھوں سے راستہ پوچھ رہی ہے‘‘جبکہ ہم نے گزشتہ پانچ سالہ دور میں پیسے پیسے پر نظر رکھی کہ کہیں جانے نہ پائے اور آنے والوں کو راستہ بھی بتایا کہ حکومت ایسے کی جاتی ہے‘اگرچہ آنے والے یعنی موجودہ بھی اس باریک کام کو اچھی طرح سے جانتے ہیں اور پاپا کا زبردست مقابلہ کر رہے ہیں ۔ ع
مگر وہ بات کہاں مولوی مدن کی سی
کیونکہ کارلوسِ اعظم کا خطاب انہیں دنیا نے ایسے ہی نہیں دے رکھا۔ انہوں نے کہا کہ ''طالبان کی آمریت قبول نہیں‘‘ جبکہ نانا جان نے صرف ایوب خاں کی آمریت قبول کی تھی اور انہیں ڈیڈی کہہ کر پکارتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ ''پاکستان بچانے کی سوچ اپنانا ہو گی‘‘جیسا کہ ہمارے سابق وزرائے اعظم گیلانی اور راجہ صاحب کی سوچ تھی اور ان کی زوردار کوششوں کے باوجود پاکستان بچ نکلا اور دیوالیہ ہونے کی آخری حدوں کو چھونے لگا۔ آپ اگلے روز گڑھی خدا بخش میں بھٹو کی برسی سے خطاب کر رہے تھے۔
مشرف کو سزا کا سوال ہی
پیدا نہیں ہوتا...اسلم بیگ
سابق آرمی چیف جنرل (ر) مرزا اسلم بیگ نے کہا ہے کہ ''مشرف کو سزا کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا‘‘کیونکہ اگر آئی جے آئی کے لیے رقوم کی تقسیم پر اقبال جرم کرنے کے باوجود ہمیں نہیں پوچھا گیا اور کیس سرد خانے کی زینت بن گیا ہے تو مشرف کو کون مائی کا لال سزا دے سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''جرم انسانی فطرت ہے‘‘ اور مشرف نے بھی محض فطرت کے اصولوں پر عمل کیا ہے جبکہ ہم سب پیسے تقسیم اور وصول کرنے والے بھی صرف فطرت کے اصولوں کی پاسداری کر رہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ ''میں نہیں سمجھتا کہ ملک میں مارشل لاء کا راستہ رک گیا ہے‘‘کیونکہ میں نے اگر ضیاء الحق کے طیارہ حادثے میں شہادت کے بعد مارشل لاء نہیں لگایا تھا تو یہ محض میری بزدلی اور حماقت تھی جس پر آج تک پچھتا رہا ہوں اور توقع نہیں کہ آئندہ ایسا موقع آنے پر کوئی جرنیل ایسی حماقت کا ارتکاب کرے گا۔ انہوں نے کہا کہ ''معاملات طے ہو رہے ہیں‘‘اور چند دنوں میں ان کا نتیجہ بھی نکلنے والا ہے‘ اس لیے کوئی کسی خوش فہمی میں نہ رہے۔ آپ اگلے روز لاہور میں روزنامہ ''دنیا‘‘ سے گفتگو کر رہے تھے۔
پانی کی ایک ایک بوند کو استعمال میں
لا رہے ہیں...حمزہ شہباز شریف
نواز لیگ کے مرکزی رہنما اور رکن قومی اسمبلی میاں حمزہ شہباز شریف نے کہا ہے کہ ''ہم پانی کی ایک ایک بوند استعمال میں لا رہے ہیں‘‘جس طرح کمائے ہوئے ایک ایک پیسے کو استعمال میں لا رہے ہیں اور پیپلز پارٹی والوں کی طرح نہیں جن کی نیک کمائی بیرون ملکی بنکوں ہی میں پڑی سڑ رہی ہے بلکہ ہم انشاء اللہ اس سے پوری پوری سرمایہ کاری کر رہے ہیں تاکہ اس میں زیادہ سے زیادہ برکت پیدا ہو سکے۔انہوں نے کہا کہ ''مستقبل میں پانی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے منصوبہ بندی کر رہے ہیں‘‘اگرچہ حال کی ضروریات پر کچھ زیادہ فکر مندی نہیں ہے کیونکہ لوگ گندے پانی کے ویسے ہی عادی ہو گئے ہیں اور صاف پانی سے ان کے بیمار ہو جانے کا خدشہ ہے‘ اسی طرح عوام غربت اور لوڈشیڈنگ سے بھی پوری طرح مانوس ہو چکے ہیں جس میں دخل اندازی کوئی مناسب حرکت نہیں ہو گی۔انہوں نے کہا کہ ''مری میں ٹرین‘کیبل کار‘واٹر سپلائی اور تھری ڈی سینما کے منصوبے زیر غور ہیں‘‘اور چونکہ غورو خوض کا سارا کام تایا جان کے سپرد ہے اس لیے مشرف اور طالبان کے مسئلے سے فارغ ہوتے ہی وہ اس سلسلے میں بھی اپنے کمالات دکھانا شروع کر دیں گے۔ آپ اگلے روز مری میں ایک پراجیکٹ کا افتتاح کر رہے تھے۔
پنجاب حکومت کی شرمندگی کا سلسلہ
ابھی تک جاری ہے...منظور وٹو
پیپلز پارٹی پنجاب کے صدر میاں منظور احمد خاں وٹو نے کہا ہے کہ ''پنجاب حکومت کی شرمندگی کا سلسلہ ابھی تک جاری ہے‘‘جبکہ ہم نے تو شرمندہ ہونے کا سلسلہ شروع ہی نہیں کیا تھا‘ اس لیے اس کے جاری رہنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کیونکہ کچھ لوگوں نے ہمیں بتایا تھا کہ جو کارنامے ہم نے اجتماعی طور پر اپنے حالیہ دور میں سرانجام دیے تھے ان پر شرمندہ ہونے کی بجائے فخر کرنے کی ضرورت ہے چنانچہ ہمارا سر مزید بلند ہو گیا ہے اور نہایت بے صبری کے ساتھ ایک بار پھر اپنی باری کا انتظار کر رہے ہیں تاکہ فخرومباہات کے اس سلسلے کو آگے بڑھایا جا سکے۔انہوں نے کہا کہ ''احتجاج کرنے والے اساتذہ کرام کے ساتھ پیپلز پارٹی مکمل یکجہتی کا اظہار کرتی ہے‘‘البتہ اپنے دور میں ہم ان کی خدمت اس لیے نہیں کر سکے کہ برسات کے دنوں کے لیے رزق روٹی جمع کرنے میں بری طرح مصروف تھے ورنہ ہم ان کے معاملات پر ضرور توجہ دیتے لیکن افسوس کہ اسی عدیم الفرصتی کی وجہ سے ہم اس وقت ان کے ساتھ یکجہتی کا اظہار بھی نہیں کر سکتے۔ آپ اگلے روز لاہو ر میں ایک بیان جاری کر رہے تھے۔
اختر منیر(زرعی یونیورسٹی فیصل آباد)
میں نے سوچا ہے محبت اب اگر کرنی ہے
ایک ہی شخص سے پھر زندگی بھر کرنی ہے
تیرے خوابوں نے میری آنکھ پہ دی ہے دستک
اور کہا ہے کہ ہمیں رات بسر کرنی ہے
اپنے ہونے کی ہوائوں کو خبر کر دوں گا
انہیں معلوم ہے کس کس کو خبر کرنی ہے
تجھ سے کہتا تھا‘ نہ اتنا مت ملا کر
دیکھ لے مشہور ہوتے جا رہے ہیں
بس بھٹک جانے کا ڈر ہے اس لیے ہم
قافلے سے دور ہوتے جا رہے ہیں
پہلے کی بات اور تھی‘اب ہم جوان ہیں
ویسے ہی مل سکیں‘ یہ سہولت نہیں رہی
تیرے ہجر میں سوچ رہا ہوں یہ دنیا
اتنی غیر ضروری بھی ہو سکتی ہے؟
رکھ دی ہے درویش کے ہاتھ پہ ایک دعا
اب اس کی منظوری بھی ہو سکتی ہے
نام لینا‘نام لے کے مسکرانا چھوڑ دے
تو کسی کی یاد سے ملنا ملانا چھوڑ دے
کہاں سورج کو کوئی آنکھ بھر کر دیکھ سکتا ہے
جو تجھ کو دیکھتے ہیں اپنا ہی نقصان کرتے ہیں
آج کا مطلع
جا چکا ہے وہ‘ مگر شام جدائی خوبصورت ہے
اس سے بھی بڑھ کر غبار بے وفائی خوبصورت ہے