تحریر : علامہ ابتسام الہٰی ظہیر تاریخ اشاعت     06-04-2014

ایک تھنک ٹینک کی افتتاحی تقریب

مغربی ممالک میں مسائل کے حل کے لیے عموماً معاشرے کے نمائندہ افراد پر مشتمل تھنک ٹینکس قائم کیے جاتے ہیں۔ ان کی آراء کی روشنی میں مختلف مسائل کا حل احسن انداز میں تجویزکیا جاتاہے۔ ان تجاویزکو بعدازاں ریاست کو چلانے والے اداروں تک منتقل کیا جاتا ہے اور ریاست ان تجاویزکی روشنی میں اپنی پالیسیاں وضع کرتی ہے۔

 

مغربی ممالک میں مسائل کے حل کے لیے عموماً معاشرے کے نمائندہ افراد پر مشتمل تھنک ٹینکس قائم کیے جاتے ہیں ۔ مختلف شعبوں کے ماہرین کی اجتماعی ذہانت کے نتیجے میں معاشرے کو درپیش مسائل کا تجزیہ کرنے میں آسانی ہو تی ہے اوران کی آراء کی روشنی میں مختلف مسائل کا حل احسن انداز میں تجویزکیا جاتاہے۔ ان تجاویزکو بعدازاں ریاست کو چلانے والے اداروں تک منتقل کیا جاتاہے اور ریاست ان تجاویزکی روشنی میں اپنی پالیسیاں وضع کرتی ہے۔ ہمارے ملک میں یہ روایت عام نہیں لیکن حال ہی میں اس حوالے سے مجھ سے رابطہ قائم کیاگیا کہ پاکستان میں بھی ایک تھنک ٹینک کا قیام عمل میں لایا جارہا ہے جس میں علماء، دانشور، صحافی، ریٹائرڈ فوجی افسران اور دیگر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے نمایاں افراد شامل ہوں گے اور مجھے بھی اس کی افتتاحی تقریب میں شمولیت کی دعوت دی گئی ۔ میں نے حب الوطنی کے جذبے کے تحت اس تقریب میں شرکت کی ہامی بھر لی۔ چنانچہ 3اپریل کو اسلام آباد میں ایک تقریب ہوئی جس کے منتظم اعلیٰ سیدعدنان کاکا خیل تھے۔ تقریب کے صدر جسٹس ریٹائرڈ مفتی تقی عثمانی اور مہمان خصوصی وزیرداخلہ چودھری نثار علی خاں تھے جبکہ شرکائے تقریب میں جسٹس خلیل الرحمن، مفتی منیب الرحمن ، ریٹائرڈلیفٹیننٹ جنرل حمیدگل ،حافظ عاکف سعید اور راقم کے علاوہ بہت سے علماء، سینئر صحافی اور اینکر پرسن شامل تھے۔ تقریب کے منتظمین کے مطابق اس تھنک ٹینک کے قیام کا مقصد پاکستان کو لاحق مسائل کا تجزیہ کرنا اور ان کے لیے حل تجویز کرنا تھا۔
شرکائے اجلاس نے اپنے اپنے انداز میں اہم مسائل کی نشاندہی کی۔ ایک نمایاں عالم دین کی رائے کے مطابق پاکستان کے مسائل کی بڑی وجہ دستوری الجھائوہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے ذرائع ابلاغ کے ایک حصے کا کردار غیر ذمہ دارانہ ہے جس کی وجہ سے معاشرے میں بدامنی کو فروغ حاصل ہوا ہے۔ ذرائع ابلاغ پرکی جانے والی تنقید کا جواب دیتے ہوئے ایک سینئر صحافی نے کہا کہ 1971ء میں پاکستان میں صرف تین آزاد اخبارات تھے اور ذرائع ابلاغ کا کردار آج کے مقابلے میں نہ ہونے کے برابر تھا لیکن اس کے باوجود پاکستان دو لخت ہوگیا۔ ان کا کہنا تھاکہ پاکستان کے اکثر مسائل کی نوعیت سیاسی ہے اور جب تک ان مسائل کو سیاسی انداز میں حل نہیں کیا جائے گا معاملات کی اصلاح نہیں ہو سکتی ۔
پاکستان کے خلاف عالمی سطح پر ہونے والے پراپیگنڈے کا بھی تجزیہ کیاگیا۔ میں نے بھی اس موقع پراپنی رائے کا اظہارکرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے خلاف ہونے والے عالمی پراپیگنڈے میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا الزام شامل ہے اوراس سلسلے میں بالخصوص اقلیتوںکو زیر بحث لایا جاتا ہے جبکہ حقیقت میں پاکستان میں اقلیتوں کے معاملات مجموعی طور پر تسلی بخش ہیں اور معاشرے میں بالعموم ان کے خلاف معاندانہ جذبات نہیں پائے جاتے۔ اس وقت بھی پاکستان کے بڑے شہروں میں مسیحی برادری کے گرجا گھر نمایاں مقامات پر موجود ہیں اورکوئی بھی ذی شعوران کے معاملات میں مداخلت نہیں کرتا ۔اس کے ساتھ میں نے اس نکتے کو بھی اجاگرکرنے کی کوشش کی کہ بین الاقوامی طاقتوںکو پاکستان میں توہین رسالت سے متعلق قانون کو تبدیل کروانے میں بہت زیادہ دلچسپی ہے جبکہ یہ قانون معاشرے میں لاقانونیت کے فروغ کے راستے میں بہت بڑی رکاوٹ ہے۔ اگر تما م عصری معاشرے ہتک عزت اور توہین عدالت کے قوانین کو معاشروں میں انصاف کے لیے ضروری خیال کرتے ہیں تو توہین رسالت سے متعلق 
قوانین پرکیوں تنقید کی جاتی ہے؟ اس نکتے کو خاصی پزیرائی حاصل ہوئی اور بعد میں آنے والے تمام مقررین اس نکتے کی تائیدکرتے رہے اوراس کو معاشرے میں قیام امن کے لیے ضروری قرار دیتے رہے۔ میںنے دستور کے حوالے سے پائی جانے والی بے چینی کا ذکرکیا اور اس نکتے کو واضح کیاکہ آئین پاکستان اور قرارداد مقاصد قرآن وسنت کی بالادستی کی ضمانت دیتے ہیں لیکن اصل مسئلہ یہ ہے کہ عملی طور پر ملک میں قرآن وسنت نافذ نہیں جس کی چند مثالیں شراب کی بڑے ہوٹلوں میں خریدو فروخت ، سودی بینکاری اور جسم فروشی کے اڈوں کا ملک میں موجود ہونا ہے۔ اس بے عملی کی وجہ سے ملک کی اساس کے حوالے سے سیکولر اور مذہبی عناصر کے مابین بحث کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ اگر ملک میں حقیقی معنوں میں شریعت نافذ کردی جائے تو اس بحث کا خاتمہ ہو سکتا ہے۔ا س تقریب میں طالبان کے ساتھ مذاکرات کا مسئلہ بھی زیر بحث رہا اور مقررین کی اکثریت نے قیام امن کے لیے مذاکرات کی تائید کی۔ وزیر داخلہ کا خطاب بھی حکومت اور طالبان کے درمیان ہونے والے مذاکرات کے حوالے سے تھا۔ یہ خطاب حالات کا حقیقت پسندانہ تجزیہ تھا، وہ اس موقع پر اقتدار اور طاقت کی زبان بولنے کے بجائے حقائق اور دلائل کی بنیاد پرگفتگو کرتے نظر آئے۔ ان کا کہنا تھا کہ لوگ عام طور پر تنقید تو کرتے ہیں لیکن حالات کا دیانتدارانہ تجزیہ نہیںکرتے۔ ان کا کہنا تھاکہ فاٹا اور قبائلی علاقوں میں پائی جانے والی کشمکش کا تعلق جنرل پرویز مشرف کی غلط خارجہ پالیسی کے ساتھ ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب تک پاکستان پر امریکہ نے فوج کشی نہیں کی اور قبائلی علاقوں میں ڈرون حملے نہیں ہوئے اس وقت تک ملک میںکوئی بم دھماکہ یا خودکش حملہ نہیں ہوا۔ انہوں نے کہ گزشتہ ایک عشرے کے دوران مسلسل طاقت کا استعمال جاری رہا مگر اس کے نتیجے میں پاکستان میں امن قائم نہ ہوسکا۔ انہوں نے کہا کہ معاشرے میں امن کے قیام کے لیے صلح اور مذاکرات کی بہت زیادہ اہمیت ہے۔ انہوں نے اس سلسلے میں سورہ حجرات کا بھی حوالہ دیا جس میں مسلمانوں کے دو متحارب گروہوں کے درمیان صلح کروانے کی تلقین کی گئی ہے اور بغاوت کی شکل میں طاقت کے استعمال کے بعد دوبارہ صلح جوئی کی رغبت دلائی گئی ہے ۔
چودھری نثار نے پاکستان کی خارجہ پالیسی کو بین الاقوامی دباؤ کے زیراثر قراردیا۔ انہوںنے یہ بھی کہا کہ ہمیں ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھنا چاہیے۔ ماضی میں طاقت کے غلط استعمال کی وجہ سے پاکستان مشرقی بازو سے محروم ہوگیا تھا۔ آج اس طرح کی غلطیوں کو دوبارہ دہرانے کی گنجائش نہیں ۔ چودھری نثارکا خطاب عدل پر مبنی تھا،انہوں نے جس رویے کا اظہارکیا اس سے اندازہ ہو رہا تھا کہ ہمارے بہت سے سیاستدانوں میں اپنی کوتاہیوں کا تجزیہ اور اعتراف کرنے کی صلاحیت پیدا ہو چکی ہے اوراگر یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہا تو پاکستان کے سیاسی معاملات میں بہتری آئے گی۔
وزیر داخلہ نے معاشرتی بگاڑکی نشاندہی کرتے ہوئے کہا کہ معاشرے میں لوگوں کی اکثریت دوسرے لوگوں کی عزت اقتداراور سرمائے کی وجہ سے کرتی ہے اور لوگ یہ بھی نہیں دیکھتے کہ کسی نے اقتدار چوردروازے سے حاصل کیا ہے یا اصولی سیاست کے ذریعے ۔اسی طرح لوگ اس بات پر بھی غور وفکر نہیں کرتے کہ دولت جائز طریقے سے کمائی گئی ہے یا ناجائزطریقے سے۔گویا چودھری صاحب نے اعتراف کیا کہ پاکستان کا سیاسی اورمعاشرتی ڈھانچہ مفادات اور بے اصولیوں پرکھڑا ہے۔ اگر ہمارے سیاستدان اور عوام چودھری نثارکے بیان سے سبق حاصل کرلیں تو بڑی حد تک معاشرتی بگاڑ پرقابوپایا جاسکتا ہے۔ 

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved