تحریر : بلال الرشید تاریخ اشاعت     06-04-2014

انا الحق، انا الحق، انا الحق

جب میں نے تحقیق کی تو حیران رہ گیا۔ سچ ہی تو کہا تھا میرے استاد نے ۔خدابھی اسی ٹیکنالوجی کی اعلیٰ ترین شکل استعمال کرتاہے ، جس کی کمتر صورت ہم انسانوں کو نصیب ہے ۔ 
گاڑی سے اتر کر میں نے گھر کا مرکزی دروازہ کھولا تو بیک وقت چار آنکھوں نے اوپر سے نیچے تک مجھے ٹٹولا۔ پھر اپنے ننھے سے بلونگڑے کو حیران پریشان چھوڑ کر پیلے رنگ کی ایک بلّی بوگن بیلیا کی شاخوں میں چھپ گئی ۔ اس کے بچّے کو تنگ کیا جاتا اور وہ چیخ پکار کرتا تو اپنی جان خطرے میں ڈالتے ہوئے، وہ لوٹ آتی۔ سخت سردی میں اب یہ دو بن بلائے مہمان صحن ہی میں قیام پذیر ہو گئے ، جہاں چھت کو بوسہ دیتی گھنی بیل بہترین مورچہ تھی۔وہ انہی مشکل ترین حالات میں بقا کی جنگ لڑ رہے تھے ، جن سے اوّلین عہد کا انسان نبرد آزما رہا۔ اب تو خیر ہم ہوا میں اڑ تے اور دریائوں کا رخ موڑڈالتے ہیں ۔ اس لیے کہ ہمارے دماغ کے سامنے والے حصے پر سلیٹی رنگ کا ایک چوتھائی انچ موٹا چھلکا تہہ در تہہ چڑھا ہوا ہے ۔ اسے سیری برل کورٹیکس کہتے ہیں ۔یہ دوسرے جانوروں میں بھی ہے لیکن بہت کم مقدار اورگھٹیا معیار کا۔ لکھنے پڑھنے سے لے کر، سوچنے اور تجزیے سے لے کر منصوبہ بندی تک،تقریباً سبھی کچھ یہیں ہو رہا ہے ۔ یہ چھلکا ہی انسان ہے ۔ یہ نہ ہوتا تو شاید اس وقت میں اپنی علمیت جھاڑنے کی بجائے کچا گوشت نوچ نوچ کر کھا رہا ہوتا۔
اب آجائیے ٹیکنالوجی پر۔ جب میں دیوار کو چھوتا ہوں تو جلدکے خلیات نینو سنسر (Nano Sensor)کی طرح کام کرتے ہیں ۔ وہ فوراً دیوار کی سخت سطح کے بارے میں مکمل معلومات اکٹھی کرتے ہیں ۔ یہ سب کچھ انہیں دماغ تک بھیجنا ہے اور اس کے لیے انہیں ان پتلی پتلی تاروں (Nerves)سے کام لینا ہے ، جو جسم کے ہر حصے میں بکھری ہوئی ہیں ۔یہ تاریں ریڑھ کی ہڈی سے جا ملتی ہیں اور وہ دماغ سے منسلک ہے۔ ٹیکنالوجی نہیں تو یہ اور کیا ہے ؟ 
آج کل گاڑیوں کے اگلے اور پچھلے حصے پر نصب سنسر دوسری گاڑی کے زیادہ قریب آنے اور ٹکرائو کا خدشہ پیدا ہوتے ہی فورا ً آواز نکالنے لگتے ہیں ۔ہمارا جسم بھی اسی طرح جلد، آنکھ اور کان میں موجود بے شمار سنسروں سے ڈیٹا اکٹھا کرتاہے ۔ آنکھ کے خلیات روشنی موصول کر کے ،مناظر کوبرقی لہروںمیں بدلتے ہیں ۔ یہاں بھی پیغام ایسی ہی ایک تار یا دھاگے کے ذریعے دماغ تک پہنچتا ہے ۔ یہ بھی ٹیکنالوجی ہے ۔ 
ایک نہیں ، باریک تاروںکے کئی جال دماغ سے ریڑھ کی ہڈی اور وہاں سے پورے جسم میں پھیلے ہوئے ہیں ۔ کچھ مختلف اعضا کے ذریعے حقائق دماغ تک پہنچاتے ہیں اور کچھ کے ذریعے دماغ جسم کو حرکت میں لاتاہے ۔ یہ بڑی حساس وائرنگ (Wiring)ہے ۔ پیغامات باقاعدہ برقی یا کیمیائی لہروں کی صورت میں سفر کرتے ہیں ۔ دماغ فیصلہ کرنے کے بعد جن خلیات کے ذریعے جسم کو مناسب حرکت کا حکم دیتاہے ، انہیں موٹر نیوران کہتے ہیں۔ موجودہ عہد کا عظیم سائنسدان سٹیفن ہاکنگ انہی کی بیماری کا شکار ہے ۔ اب وہ عمر کے آخری حصے میں ہے اور اپنے جسم سے منسلک کمپیوٹر کے ذریعے ایک لفظ بولنے کے لیے اسے ایک پورامنٹ درکار ہے ۔یہاں میں وجودِ خدا کے انکار میں سٹیفن ہاکنگ کے ایک مشہور قول کا تذکرہ کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ وہ کہتاہے کہ بگ بینگ (وہ عظیم دھماکہ ، جس سے کائنات نے جنم لیا ) سے قبل وقت (Time)موجود ہی نہ تھا؛لہٰذا خدا کے پاس وہ وقت کہاں سے آتا ، جس میں وہ کائنات تشکیل دیتا۔ سائنس کا نہیں ، یہ تو فلسفے کا سوال ہے !
جہاں تک دماغ کا تعلق ہے ،ظاہر ہے کہ ایک کالم میں تو اس طلسمِ ہوشربا کو سمیٹا نہیں جا سکتا۔ یہاں آپ کو سنسر (Sensor)کی بجائے چھوٹے چھوٹے نینوپروسیسر (Nano Processor)ملیں گے ۔ جسم کے مختلف حصوں سے آنے والی اطلاعات کا تیز ترین تجزیہ ہوگا۔ پھر نہ صرف مناسب احکامات جاری کیے جائیں گے بلکہ ان پر عمل درآمد بھی اسی کو کرانا ہے ۔ سٹیفن ہاکنگ کا ذہن تجزیہ اور فیصلہ سازی‘ سبھی کچھ درست کررہا ہے لیکن عمل درآمد کے سلسلے میں مفلوج ہے ۔دماغ باہر کے معاملات سے بڑھ کر اندرونی جسمانی نظام چلانے میں لگا رہتاہے اور ہمیں خبر تک نہیں ہوتی۔اس کا نچلا حصہ برقی لہروں کی مدد سے دل کو دھڑکنے کا حکم پہنچا رہا ہے ۔ پھیپھڑوں کو سکیڑنا اور پھیلانا بھی اسی کی ذمہ داری ہے ۔ وہ معدے کو ان حرکات کا پیغام بروقت پہنچاتا ہے ، جن کے ذریعے خوراک ہضم ہوتی ہے ۔ ٹیکنالوجی !
قارئین، کائنات کو سمجھنا ہو یا خود کو ، ہمیں خوردبینی سطح (Microscopic Level)پر اترنا پڑتا ہے۔ اسی سے یہ سمجھ آتی ہے کہ عظیم الشان ستارے کس عمل کے ذریعے حرارت اور روشنی پیدا کرتے ہیں۔ بیکٹیریا اور وائرس کے جسم پر حملے اور جواباً انسانی قدرتی مدافعتی نظام کو سمجھ کر ہی ملیریا اور طاعون جیسی بیماریوں سے چھٹکارا ممکن ہوا، جنہوں نے کبھی کروڑوں کو موت کی نیند سلا دیا تھا۔ نینو ٹیکنالوجی کو درست طور پر انسان کامستقبل کہا جاتاہے کہ یہ خوردبینی سطح پر تخلیق اور تبدیلی کا باعث بنے گی۔ مثال کے طور پر اگر آپ کے بیمار دل یا ناکارہ جگر میں نئے سرے سے صحت مند خلیات جنم لینے لگیں تو یہ ایک نئی زندگی پا لینے کے برابر ہوگا۔یہ سمجھنا ضروری ہے کہ طب ہی نہیں ، زندگی کے ہر شعبے میں اس ٹیکنالوجی سے ایک انقلاب رونما ہوگا۔ 
انسان اب خوردبینی سطح پر پیداوار کے قریب تر ہے ۔ یہ ایسی خوفناک ٹیکنالوجی ہے جو انسان کو ایک بار پھر انا الحق کا نعرہ لگانے پر مجبور کردے گی ۔ میرے استاد نے درست کہا تھا کہ دجّال اسی کی مدد سے بظاہر خدائی طاقتوں کا مظاہرہ کرے گا۔ایک بار بتایا کہ اب روبوٹ کے لیے باقاعدہ جلد تیار کی جا رہی ہے ۔ عام لوگوں کو یہ اندازہ نہیں کہ پروفیسر احمد رفیق اختر نامی جس 73 سالہ شخص کو وہ صرف ایک روحانی رہنما اور سکالر سمجھتے ہیں ، وہ ٹیکنالوجی پر کیسا قابل یقین عبور رکھتاہے ۔ 
سائنسی ترقی کا یہ دور سہولتوں کے ساتھ ساتھ اپنے دامن میں شدید خطرات بھی سمیٹے ہوئے ہے۔اگلی دو تین دہائیوں میں دنیا بدلنے والی ہے اور مجھے یہ خوف کھائے جاتاہے کہ فی الحال ہم اس کے لیے تیار نہیں ہیں۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved