تحریر : سعدیہ قریشی تاریخ اشاعت     07-04-2014

مدرسوں میں ہنر بھی سکھائیں

قومی اور حکومتی حلقوں میں ایک بار پھر مدرسہ نظام کی اصلاحات بارے گفتگو ہو رہی ہے۔ قومی اسمبلی میں بھی اس کی گونج سنائی دی کہ مدرسہ نظام میں ضروری تبدیلیاں اور بہتری کے اقدامات ضرور ہونے چاہئیں اور انہیں قانون کا حصہ بننا چاہیے۔ مولانا فضل الرحمن حکومت کا حصہ ہو کر بھی اس رائے سے اختلاف رکھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ مدرسہ نظام میں ریفارمز مغربی ایجنڈا ہے، مولانا ہر اختلافی نقطے کو مغربی ایجنڈا کہہ دیتے ہیں اور پھر اینٹی امریکہ جذبات کو ہوا دے کر ہمدردی اور حمایت حاصل کرتے ہیں۔ یہ مسئلہ صرف مولانا فضل الرحمن ہی کا نہیں بلکہ تمام سکول آف تھاٹ کے علماء کا ہے، جو مدرسہ سسٹم سے وابستہ ہیں۔ تبدیلی اور اصلاحات کی گنجائش ہر جگہ رہتی ہے۔ وہ ایک مدرسہ کا نصاب بھی ہو سکتا ہے اور کسی جدید یونیورسٹی کا نظام اور نصاب بھی۔ اس لیے سب سے پہلے تو اس عدم تحفظ سے نجات حاصل کرنے کی ضرورت ہے کہ مدرسہ نظام میں اگر اصلاحات کی جاتی ہیں تو وہ خلاف اسلام ہوں گی۔ میری ناقص رائے میں اس سسٹم میں اصلاح ہونی چاہیے جس میں انسانی ذہنوں کو برین واشنگ کے عمل سے گزار کر مخصوص مقاصد کے لیے استعمال کیا جاتا ہے اور استعمال ہونے والے کو خبر بھی نہیں ہوتی کہ وہ کن طاقت وروں کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں اور انہیں کون استعمال کر رہا ہے۔ گزرے برسوں میں، عالمی طاقتوں کی گریٹ گیم میں بھی انہیں استعمال کیا گیا اور اس انداز میں کہ خبر بھی نہ ہوئی۔ اسی کا خمیازہ ہے جو آج معاشرے میں برداشت اور رواداری کے عناصر ناپید نظر آتے ہیں۔ امریکہ اور روس کی باہمی لڑائی تھی۔ طاقت کی کشمکش تھی۔ امریکہ روس کو افغان سرزمین پر رسوا کرنا چاہتا تھا۔ اس آگ کو بھڑکانے کے لیے پاکستانی مدرسوں کے معصوم نوجوانوں کو ایندھن بنایا گیا اوراسلامی فیکٹر کو تراشنے کے لیے سی آئی اے نے اپنا کردار ادا کیا۔ امریکہ بہادر نے روس کو افغانیوں کے ہاتھوں شکست دلوانے کے لیے اس جہاد کی فنڈنگ کی۔ 
مدرسہ سسٹم کو اس مخصوص سوچ سے نکالنے کی جو کوشش بعد میں آنے والی حکومتوں کو کرنی چاہیے تھی، وہ نہیں کی گئی ۔ مدرسہ سسٹم ایک ایسا زبردست نظام ہے جس میں لاکھوں غریب بچوں کی کفالت ہوتی ہے اور علم کی روشنی سے ان کے ذہن منور کیے جاتے ہیں۔ غریب گھرانوں میں جہاں والدین بچوں کے کھانے پینے اور تعلیم کے اخراجات برداشت نہیں کر سکتے، وہاں بچوں کو شعور کی عمر سے پہلے ہی ان مدارس میں بھیج دیا جاتا ہے، جہاں تین وقت کا کھانا اور رہائش بھی ملتی ہے اور دین کی تعلیم بھی دی جاتی ہے اور اس کے عوض ان سے کوئی فیس کوئی معاوضہ بھی نہیں لیا جاتا۔ اگر ملک کے طول و عرض میں چھوٹے بڑے سیاسی اور غیر سیاسی قسم کے ہزاروں مدرسے نہ ہوتے تو سوچیے کہ ان میں پناہ لینے والے لاکھوں غریب بچے کہاں جاتے۔ یہ یقیناً چیریٹی کا ایک وسیع نظام ہے کہ مدرسے لاکھوں غریب گھرانوں کے بچوں کی تعلیم، غذا اور رہائش کا ذمہ لے کر ان کا بوجھ کم کرتے ہیں۔ 
اگر مدرسہ سسٹم پر سے ہر قسم کے ایجنڈے کی گرد جھاڑ کر دیکھیں تو یہ ایک شاندار ابتدائی نظام تھا جسے کوتاہ نظر حکومتوں اور ویژن سے عاری لیڈروں اور مذہب پر سیاست کرنے والے مذہبی رہنمائوں نے مسخ کر کے رکھ دیا اور اب صورت حال کچھ یوں ہے کہ ؎
ایک وہ ہیں جنہیں تصویر بنا آتی ہے
ایک ہم ہیں کہ لیا اپنی ہی صورت کو بگاڑ
سوال یہ ہے کہ مدارس کے انفراسٹرکچر کو کیسے بہترین صورت میں ڈھالا جا سکتا تھا؟ اگر ہیومن ریسورس کی قدر کرنے والی ایک بھی حکومت میرے ملک کو میسر آتی تو وہ اپنی ترجیحات کی فہرست میں اس ایجنڈے کو شامل کرتی کہ ملک کے قصبوں، دیہات، گوٹھوں سے لے کر بڑے بڑے شہروں میں موجود مدرسوں میں پڑھنے والے لاکھوں غریب بچوں کو کیسے ملک کا ایک قابل اور ذمہ دار شہری بنانا ہے۔ تین وقت کی روٹی اور رہائش تو پہلے ہی سے موجود تھی، کرناصرف یہ تھا کہ جو نصاب یہ غریب بچے پڑھ رہے ہیں، اسی کے ساتھ انہیں ہنر سکھانے کا بندوبست کیا جاتا۔ یعنی مدارس کو ووکیشنل انسٹی ٹیوٹ کی شکل میں ڈھال کر، حکومت اس سسٹم سے حیرت انگیز نتائج حاصل کر سکتی تھی۔ غربت کے اندھیروں میں غرق لاکھوں گھرانوں کی قسمت بدلی جا سکتی تھی۔ مدرسوں سے پڑھنے والے نوجوان ہنر نہ سیکھنے کی وجہ سے بے روزگار رہ جاتے ہیں، بہت کم ایسی جگہیں ہیں جہاں ایسے نوجوانوں کو نوکری مل سکے۔
ایسے حالات میں یہ نوجوان آسانی سے ان طاقتوں کے ہاتھوں میں استعمال ہو سکتے ہیں جو ان کو اپنے مفاد کی آگ میں جھونکنا چاہتی ہیں۔ پاکستان میں تقریباً ہر بڑے مدرسہ سسٹم کے پیچھے ایسے علمائے کرام موجود ہیں جو سیاست کی بساط پر اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ وہ الیکشن لڑتے ہیں، اسمبلیوں اور سینٹ کا حصہ بنتے ہیں، اپنی کم تعداد کے باوجود حکومتوں کے ساتھ بارگین کر کے، وزارتیں حاصل کرتے ہیں،نوکریّوں کے کوٹے لیتے ہیں اور مالی مفادات حاصل کرتے ہیں۔ ایسے مذہبی رہنما اپنے زیر نگین مدرسوں میں اپنے سیاسی اور مذہبی نظریات کو پروان چڑھاتے ہیں۔ یوں یہ مدارس، ایک ایسی تربیت گاہ ہوتے ہیں جہاں ان مذہبی رہنمائوں کے حامی اور حمایتی تیار ہوتے ہیں جو مستقبل میں ان کے سیاسی جلسوںکی رونق بڑھاتے ہیں، اپنے مستقبل سے بے نیاز ہو کر ایسے نوجوان، اپنے گارڈ فادرز کے مفادات کے لیے اپنی زندگیاں گزارتے ہیں۔ ان کے گھروں میں کبھی غربت کے اندھیرے کم نہیں ہوتے، ان کی زندگیاں کبھی نہیں بدلتیں، ہاں وہ جن رہنمائوں کے جلسوں میں نعرے لگاتے ہیں، وہ الیکشن بھی جیتتے ہیں اور حکومتوں کا حصہ بھی بنتے ہیں، بیرون ملک کے دورے بھی کرتے ہیں اور اندرون ملک سیاسی سرگرمیوں میں بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں، لیکن جب کبھی بات آ جائے مدارس کی اصلاحات کی تو اسے امریکی ایجنڈا اور مغربی سازش کا نام دے کر لاحول پڑھتے ہیں اور اپنے ان حمایتیوں سے، جنہیں انہوں نے مدرسوں میں تین وقت کی روٹی کھلا کر پروان چڑھایا ہوتا ہے، داد وصول کرتے ہیں کہ کس طرح وہ مغربی اور الحادی سوچ کے سامنے دین کی حفاظت کا فریضہ سر انجام دے رہے ہیں۔ (جاری)

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved