تحریر : حبیب اکرم تاریخ اشاعت     07-04-2014

سید منور حسن

سید منور حسن ان شخصیات میں سے ایک ہیں جن کے معمولات پر نظر رکھنا میری ابتدائی صحافتی ذمہ داریوں میں شامل تھا۔ یہ صاحب کہاں جاتے ہیں،کیا کرتے ہیں اور کیا کہتے ہیں ؟ میری کوشش ہوتی تھی کہ مجھے یہ سب کچھ معلوم رہے؛ تاہم ایک رپورٹرکے طور پر مجھے بہت جلد معلوم ہوگیاکہ مجھ جیسے لوگ سید صاحب کے پسندیدہ صحافیوں کی فہرست میں نہیں آسکتے، سو بہت جلد میں نے اپنے ایڈیٹر سے درخواست کی کہ جماعت اسلامی مع سید منور حسن کو میری صحافتی ذمہ داریوں سے خارج کردیا جائے۔ اس درخواست کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ میری صحافت کے آغاز کے دنوں میں جماعت اسلامی1996ء کے انتخابات کے بائیکاٹ کے بعدسیاسی عمل سے بارہ پتھر باہرکھڑی تھی اورکوئی خبریہاں سے نکلتی تھی نہ مستقبل قریب میں ایسا کوئی امکان نظر آتا تھا۔ قاضی حسین احمد مرحوم کبھی کبھی کوئی سیاسی بیان دیتے بھی تو اخبارات کے پچھلے یا اندرونی صفحات میں کہیں چھپ جاتا اور بس۔ رہے منور حسن توکراچی میں ان کے بیانات دوطرح کے ہواکرتے تھے، عام طور پرکسی درس قرآن کی مجلس سے ان کے خطاب کا کوئی ٹکڑا چھپ جاتا تھا یا کبھی کبھار متحدہ قومی موومنٹ کی چٹکی لیتا ہواکوئی فقرہ ایک یا دوکالمی سرخی کے ساتھ اخبار میں نظر آجاتا تھا۔ 
2004ء کی بات ہے کہ میرے ادارے نے مجھے کام سونپا کہ پاکستان میں شدت پسندانہ طالبانی نظریات اورمعاشرے میں ان کی حقیقی پذیرائی کے بارے میں ایک رپورٹ تیار کروں۔ اس کام کے سلسلے میں ایک دوست کے ذریعے سید منور حسن سے رابطہ ہوا اور میں اپنے کیمرے لے کر لاہور میں جماعت اسلامی کے مرکز منصورہ پہنچ گیاجہاں مہمان خانے کے ایک کمرے میں ہماری ریکارڈنگ کا بندوبست کیا گیا تھا۔ تھوڑی دیر میں سید صاحب آئے اور مجھ پر ایک اچٹتی ہوئی نگاہ ڈال کر کرسی پر بیٹھے اور بغیر کسی توقف کے فرمایا 'جی پوچھیے‘۔ بات شروع ہوئی توطالبان کے دفاع میںکہنے لگے کہ اس وقت دنیائے اسلام میں ایک اضطراب ہے جس کی وجہ سے مسلمان نوجوان جلداز جلد اسلامی شریعت کا نفاذ چاہتا ہے ۔ میں نے سوال کی صورت میں عرض کیا کہ اس کے لیے توایک تحریک چلانا ہوگی جوکسی ایسے شخص کی قیادت میں ہی چل سکے گی جس کافہمِ اسلام سب کے لیے قابل قبول ہواور عوام اس کی پیروی بھی کریں۔ جواب میں انہوں نے فرمایا کہ 'آپ ایک ایسے رہنما(Demagogue (کی بات کررہے ہیں جواس وقت تو قوم میں موجود نہیں اور ویسے بھی اس طرح کے افراد بنائے نہیں جاسکتے بلکہ تاریخ کے مناسب موڑ پر خود ہی سامنے آجاتے ہیں‘۔ میںنے کہا تو پھر جماعت اسلامی کو یہ کوشش کرنی چاہیے کہ وہ کوئی وسیع تراتفاق رائے پیدا کرلے تاکہ اسلامی شریعت کا نفاذ جمہوری طریقے سے ممکن ہوسکے۔ اس پر انہوں نے تیز لہجے میں کہا کہ 'جماعت اسلامی کا طریقہ کار ہی اسلام کے نفاذ کے لیے موزوں ترین ہے اس لیے اس طریقۂ کارکو سیاسی گفتگو کا حصہ نہیں بنایاجاسکتا‘۔ میں ان کا یہ جواب سن کر خاموش ہوگیا ۔ میرے لیے حیرت کی بات تھی کہ پاکستان کو طالبان بندوق کی نوک پر اپنی مرضی کے مطابق چلانا چاہتے ہیں اور سید منور حسن ہیں کہ اپنی جماعت کے طریق کار پر بات کرنے کے لیے بھی تیار نہیں۔ان دنوں ترکی میں رجب طیب اردوان کی حکومت آچکی تھی، میں ان سے پوچھنا چاہتا تھا کہ اگر ترکی میں اسلام پسند حکمت عملی تبدیل کرسکتے ہیں تو آپ کیوں نہیں؟ اس انٹر ویو کے دوران فضا میں کچھ ایسی تلخی گھُل گئی تھی کہ میں یہ سوال نہ پوچھ سکا۔ بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ کوئی خیال آپ کے ذہن میں یو ں چپک جاتا ہے کہ نکالے نہیں نکلتا، سو یہ بھی کچھ ایسا ہی معاملہ تھا۔ آخرکار ایک موقع آگیا کہ میں اپنی یہ بے چینی دورکرسکوں، لیکن یہ موقع آیا نو سال بعد۔
ہوا یوں کہ پچھلے رمضان المبارک میں چند صحافیوں کے ساتھ مجھے ایک بار پھر سید منورحسن کے ساتھ افطاری کا موقع ملا۔ اس ملاقات میں بھی سید صاحب کے طرزعمل سے مجھے محسوس ہوا کہ اگر میں یہاں نہ آتا تو شاید امیر جماعت اسلامی زیادہ خوش ہوتے۔ دوران گفتگو اگر میں نے کوئی سوال بھی کیا تو انہوں نے فقروں میں بات اڑا دی۔کھانے کی میز پر بیٹھے تو میں نے پھر پوچھا کہ جناب ترکی میں رجب طیب اردوان کی کامیابی سے کیا جماعت اسلامی نے یہ نہیں سیکھا کہ اب حکمت عملی تبدیل کرلینی چاہیے؟ سید صاحب نے دو جملوں میں بات نمٹا دی کہ پاکستان کے حالات میں جماعت اسلامی کا طریق کار ہی موزوں ہے، اگر یہاں بھی ترکی جیسے حالات پیدا ہوں تو پھر دیکھا جاسکتا ہے۔ میں یہ بات سن کر کئی لمحے سید منور حسن کو دیکھتا رہا۔ نو سال کے وقفے سے پوچھے جانے والے اس سوال کے جواب نے یہ واضح کردیا تھا کہ سید منور حسن کو حالات، واقعات ، فتح، شکست یا تنقید ، کچھ بھی اپنے مؤقف سے نہیں ہٹا سکتا۔ جس رائے کو انہوں نے درست سمجھا وہ اس پر ڈٹ گئے، پھر انہوں نے ملامت کرنے والوں کی ملامت کی پروا کی نہ کسی محبت کرنے والے کو یہ جرأت ہوئی کہ ان کی خدمت میں کچھ عرض کرسکے۔ انہوں نے سیاست میں وہی سادگی لانے کی کوشش کی جو خود ان کی زندگی میں ہے، ان کی اس کوشش کے نتائج کیا نکلے یا نکلیں گے، اس کے بارے میں انہوں نے کبھی نہیں سوچا۔ ان کے بہت سے اقدامات غلط تھے، ان کی 'استقامت ‘ نے کئی بار نقصان بھی کیا لیکن یہ طے ہے کہ سید منور حسن اپنی مثال آپ تھے۔ 
رشید احمد صدیقی نے لکھا تھا کہ سپاہی کی دلیری کا ثبوت مفتوحہ زمین اور مالِ غنیمت ہی نہیں بلکہ یہ بھی ہے کہ وہ وردی پرکتنی دھول، جسم پرکتنے زخم اوردل پر اپنے ساتھیوں کے بچھڑنے کے کتنے گھاؤ لے کر گھر لوٹا ہے۔کوشش پیہم یا جہدِ لاحاصل کی اس تعریف پر رشید احمد صدیقی کے نزدیک ایک ہی شخص پورا اترا جسے دنیا محمد علی جوہر کے نام سے جانتی ہے۔ انہوں نے ہمیشہ طوفانی لہروں پر سواری کی اور کئی بار تو یوں کی کہ موج نے سوارکے لیے پرسکون حالات میں بھی اپنی افتادِ طبع سے تلاطم اٹھا دیا۔ جیے تو یوں کہ غلامی کی زنجیریں توڑنے کے لیے اپنا آپ لہو لہوکرلیا اور مرے تو یوں کہ جس دھرتی کو آزاد جان کر اپنی قبرکے لیے منتخب کیا، وہی سامراج کے شکنجے میں چلی گئی۔ وہ جی کر حریت پسندوں کا رہنما رہا اور مرکر بھی حریت پسندوں کا ساتھی رہا، یہ الگ بات کہ جی کر آزادی ملی نہ مرکراستعمار سے جان چھوٹی۔ اوائل عمری سے لے کر موت تک کی مسلسل کاوش کرنے والے محمد علی جوہر کو زیاں کار کہیں گے یا کامیاب؟ یہ سوال ایک مولانا محمد علی جوہر کے تاریخ میں مقام کے فیصلے تک ہی محدود نہیں بلکہ انسانی سماج کے کامیابی کے مروجہ تصورات کو بھی مشکوک کر دیتا ہے۔ تاریخ میں اس طرح کے سوالات جگہ جگہ بکھرے پڑے ہیں، بہت کچھ جاننے کے باوجود ہم یہ نہیں جانتے کہ ہارے ہوئے لشکرکے بہادر سپاہی کوکیا کہتے ہیں؟ یہ الجھن قائم ہے کہ جماعت اسلامی کی پون صدی پر پھیلی ہوئی لاحاصلی کوکیانام دیا جائے؟ اور اب یہ معمہ کہ جماعت کے سابق ہوجانے والے امیر، سید منور حسن پرکیا حکم لگے ؟ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved