چند ہی روز پہلے لکھا تھا ''افغان عوام معجزے دکھا سکتے ہیں‘‘۔ وہ اتنا بڑا معجزہ کر دکھائیں گے؟ یہ تو کسی نے بھی نہیں سوچا ہو گا۔ دنیا کے تمام صحافی‘ جو افغانستان کے حالات کا مشاہدہ کر کے آئے تھے‘ تمام مبصرین جو اس ملک کی تاریخ اور نئے حالات سے آگاہی رکھتے ہیں‘ ایجنسیوں کے ماہرین اور سیاسی نجومی‘ سب کی متفقہ رائے تھی کہ افغانستان کے انتخابات میں بہت خونریزی ہو گی۔ ووٹر بہت کم تعداد میں گھروں سے باہر نکلیں گے۔ پولنگ اسٹیشنوں تک تو ان سے بھی کم پہنچ پائیں گے۔ ہر طرف بم چل رہے ہوں گے۔ پولنگ اسٹیشنوں کے پرخچے اڑیں گے۔ طالبان‘ ووٹ ڈالنے والوں کو بموں اور گولیوں سے بھون کر رکھ دیں گے۔ طاقت کا ایسا مظاہرہ کریں گے کہ امریکی‘ ان کے حامی افغان اور جمہوریت کا نام لینے والے مقامی لوگ‘ ان کی طاقت کے سامنے ٹھہر نہیں پائیں گے اور پولنگ کے دن فیصلہ ہو جائے گا کہ طالبان کی طاقت کس قدر نا قابل مزاحمت ہے اور آخری امریکی سپاہی کے رخصت ہوتے ہی افغانستان پر طالبان کا کنٹرول قائم ہو جائے گا۔ مگر یہ کیا ہو گیا؟ یہاں کے الیکشن تو بھارت کے معیار کو چھو رہے تھے۔ ستر فیصد‘ جی ہاں ستر فیصد سے زیادہ شہریوں نے ووٹ ڈالے۔ شدید ترین حفاظتی تدابیر قدم قدم پر ناکوں اور آمدورفت کے رستوں میں جا بجا رکاوٹیں ہونے کے باوجود ستر‘ فیصد ووٹ ڈبوں میں ڈالے گئے۔
ووٹروں کی کثرت کی وجہ سے تمام ملک میں پولنگ کا وقت ایک گھنٹہ بڑھایا گیا۔ اس کے باوجود جب پولنگ کا سلسلہ بند کیا گیا‘ لوگ بڑی تعداد میں قطاریں لگائے کھڑے تھے‘ انہیں واپس جانا پڑا۔ اگر دہشت اور رکاوٹیں نہ ہوتیں اور تمام ووٹروں کو بیلٹ پیپر استعمال کرنے کا موقع مل جاتا تو ٹرن آئوٹ 75 اور 80 فیصد کے درمیان ہو سکتا تھا‘ جو بڑے بڑے جمہوری ملکوں سے بھی زیادہ ہوتا۔ یہ انقلاب آفرین مظاہرہ ایک عرصے تک موضوع بحث و تحقیق رہے گا۔ میں تو وجہ جاننے کے لئے بے تاب ہوں کہ جن عوام کی تائید و حمایت کے ساتھ‘ طالبان نے عالمی افواج سے ٹکر لی اور بالآخر انہیں پسپائی پر مجبور کر دیا‘ انہی عوام نے الیکشن کا بائیکاٹ کرنے کے طالبانی احکامات کو جانوں پر کھیل کر مسترد کر دیا۔ راتوں رات یہ کیا ہو گیا؟ غور کیا
جائے تو کچھ بھی نہیں ہوا۔ افغان عوام بیرونی قبضے یا بالادستی کو ہرگز قبول نہیں کرتے۔ وہ آزادی کے عادی اور اس کے دلدادہ ہیں۔ خوئے غلامی کی ان کے ہاں کوئی جگہ نہیں۔ علامہ اقبال بلاوجہ افغانوں کے معترف نہیں تھے۔ بلاشبہ وہ حیرت انگیز خوبیوں کے مالک ہیں۔ ساری دنیا نے انہیں علم سے محروم اور غریبی اور پسماندگی کے اندھیروں میں دھکیلے رکھا۔ ان کے معاشرے میں دقیانوسی ملائوںکا دبدبہ رہا۔ قدامت پسندی اور جہالت انہیں ورثے میں ملتی رہی مگر جن چند افغانوں کو پڑھنے لکھنے اور سوچنے سمجھنے کے مواقع ملے‘ انہوں نے بہترین اور قابل رشک انسانی ذہانت اور خوبیوں کے مظاہرے کئے۔ افغانستان میں اقتدار کے خونی کھیل سے تنگ آ کر‘ ترک وطن کرنے والے افغانوں کو اگر امریکہ اور برطانیہ میں دیکھا جائے تو ان کی صلاحیتوں کا اندازہ ہوتا ہے‘ جو معیشت دان بنا‘ وہ عالمی بینک کے اعلیٰ منصب تک پہنچا۔ جو تجارت میں گیا‘ اس نے ترقی یافتہ ملکوں کے تاجروں کے مقابلے میں قدم جمائے۔ افغان خواتین اعلیٰ صلاحیتوں کی مالک ہیں اور ترقی و خوشحالی کے لئے جدوجہد میں‘ وہ مردوں سے زیادہ جوش و خروش کے ساتھ کام کرنا چاہتی ہیں۔ خواتین کے اس جذبے کی طاقت پولنگ کے دن سامنے آئی۔ نوے فیصد سے زائد برقع پوش خواتین‘ سینکڑو ں کی تعداد میں قطاریں لگائے کھڑی تھیں۔ شہروں اور قصبوں میں جوش و خروش کے ساتھ ووٹ ڈال رہیں تھیں۔ دو خواتین ملک کی نائب صدارت کی امیدوار بنیں۔ ایک اکیس سالہ نوجوان ماں نے رپورٹروں کو دیکھ کر بتایا کہ وہ تعلیم یافتہ خاتون ہے اور ملک کی آزادی اور ترقی کے لئے کام کرنا چاہتی ہے۔ ایک اور خاتون نے کہا ''میں خواتین کے حقوق کے لئے جدوجہد کرنا چاہتی ہوں۔ جو کام مرد کر سکتے ہیں‘ عورتیں بھی کر سکتی ہیں۔ ہم تعلیم حاصل کرنا چاہتی ہیں اور بڑھ چڑھ کر کام کرنے کی خواہش مند ہیں‘‘۔ میں نے اوپر لکھا ہے کہ بیرونی افواج کے خلاف جنگ میں‘ عوام نے طالبان کا ساتھ دیا لیکن طالبان کی مخالفت کے باوجود ووٹ ڈالنے کے لئے بڑھ چڑھ کر آگے آئے۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ جہاں تک طالبان کے ساتھ عوام کے تعاون کا معاملہ ہے‘ یہ قومی آزادی کا سوال ہے۔ اس معاملے میں انہوں نے زیادتیوں کا شکار ہونے کے باوجود‘ بیرونی طاقتوں کے خلاف جدوجہد کے معاملے میں طالبان سے تعاون کیا لیکن جمہوریت کی مخالفت کر کے‘ طالبان عوام کی ترقی‘ تعلیم اور خوشحالی کی مخالفت کر رہے تھے۔ عوام نے اس پالیسی کو جانوں پر کھیل کر حقارت کے ساتھ ٹھکرا دیا۔ آزادی کی جنگ میں عوام طالبان کے ساتھ رہے لیکن ترقی و خوشحالی کی جدوجہد میں وہ طالبان سے آگے نکل گئے۔
ساری دنیا کی جمہوریتوں کو یہ خوف تھا کہ اگر افغانستان پر طالبان کا قبضہ ہو گیا تو وہ دہشت گردی کے عالمی مرکز میں بدل جائے گا اور دنیا کا کوئی ملک بھی محفوظ نہیں رہ سکے گا خصوصاً ایرن‘ پاکستان‘ چین‘ روس اور وسطی ایشیا کے ملکوں کو بے حد فکر تھی۔ افغان عوام نے ساری دنیا میں امیدوں کے چراغ روشن کر دئیے ہیں۔ دنیا کا فرض ہے کہ وہ افغان عوام کے جذبے اور جمہوریت کے لئے ان کی امنگوں کی تحسین میں زبانی جمع خرچ تک محدود نہ رہے۔ افغانستان 35 برسوں سے ناحق خون میں نہا رہا ہے‘ وہاں تعلیم و ترقی کی صورت حال پہلے بھی قابل رشک نہیں تھی۔ جنگ نے تو وہ چار تنکے بھی اڑا دئیے ہیں‘ جن پر افغان معاشرے کا تکیہ تھا۔
دنیا کا فرض بنتا ہے کہ افغانستان کی بحالی اور تعمیر نو کے لئے مارشل پلان کی طرز پر فنڈ قائم کرے۔ جمہوری حکومت اقتدار میں آنے کے بعد‘ یقینی طور پر ستر فیصد سے زیادہ عوام کی حمایت کی طاقت لے کر آئے گی۔ فوجوں کی گنتی میں کچھ نہیں رکھا۔ سکیورٹی فورسز کی تعداد چار لاکھ ہو یا بیس لاکھ‘ عوام کی خواہشات کے خلا ف‘ محض ڈنڈے سے کنٹرول قائم نہیں کیا جا سکتا۔ حکومتیں اسی وقت موثر ہوتی ہیں جب عوام ان کی عزت
کرتے ہوں اور ان کا ساتھ دے رہے ہوں۔ افغان عوام کو جمہوری زندگی تک پہنچنے کے لئے‘ آگ اور خون کے دریائوں کو پار کرنا پڑا ہے‘ اب بھی دہشت گردی‘ تنگ نظری اور جہالت کی دلدل کا کیچڑ‘ ان کے چاروں طرف پھیلا ہے۔ انہیں یہ رکاوٹ بھی عبور کرنا ہے۔ ان کے پاس عزم و ہمت اور حوصلے کی کمی نہیں لیکن وسائل نہ ہونے کے برابر ہیں۔ دہشت گردوں کے حوصلے تو انتخابی عمل میں عوام کی بھرپور شرکت دیکھ کر ٹوٹنے لگے ہوں گے مگر یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ بجھنے سے پہلے چراغوں کی لو بھڑکا کرتی ہے۔ طالبان میں سے جو لوگ سمجھدار ہوں گے‘ اپنے عوام کے ساتھ مل کر اپنی اور اہل وطن کی غربت اور جہالت دور کرنے کے جہاد میں شامل ہو جائیں گے اور جن کے دلوں پر خدا نے قفل لگا رکھے ہیں‘ وہ ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے عوام کو مزید خوف زدہ کرنے کے لئے آخری زور ضرور لگائیں گے۔ عوام نے اس صورت حال کا مقابلہ کر کے ہی انتخابات کے میدان میں قدم رکھا ہے۔ وہ آگے بڑھنے کا عزم رکھتے ہیں۔ انہیں وسائل کی کمی کا شکار ہو کر پسپا نہ ہونا پڑے۔ یہ دنیا بھر کے عوام کی ذمہ داری ہے کہ وہ افغان عوام کی فتح کو جاری رکھنے کے لئے انہیں ہر طرح کے وسائل فراخدلی سے مہیا کریں۔ اسلحہ کی ضرورت ہو تو اسلحہ دیں۔ اناج چاہئے تو اناج دیں۔ افغانستان کو خدا نے معدنیاتی خزانوں سے مالا مال کر رکھا ہے۔ جمہوری حکومت محض امن و امان مہیا کر دے تو دنیا بھر کے سرمایہ دار وہاں طرح طرح کے منصوبے شروع کرنے آجائیں گے۔ جتنے منصوبے شروع کئے جائیں گے‘ اتنے ہی روزگار کے وسائل پیدا ہوں گے۔ نتیجے میں افغان معیشت مضبوط ہو گی اور معیشت ترقی کی طرف گامزن ہو جائے تو تعلیم پھیلنے لگتی ہے اور اس طرح معاشرہ امن اور خوشحالی کی جانب سفر شروع کر دیتا ہے۔ میں خواب دیکھنے لگا۔ خواب میں اپنے عوام کے لئے بھی دیکھتا ہوں لیکن جتنا پُرامید میں افغان عوام کے لئے ہوں‘ اتنا اپنے لئے نہیں۔ وجہ یہ ہے کہ افغان عوام اپنے خون میں نہا کر غلامی کی زنجیریں توڑ رہے ہیں اور ہمارے عوام پر حکمرانی کرنے والوں نے غلامی کی ٹوٹی ہوئی زنجیروں کو بھی اپنے جسم سے الگ نہیں کیا۔