بھارت میں پیر7اپریل سے انتخابی عمل کے سلسلے میں مرحلہ وار ووٹنگ شروع ہو چکی، جو ایک ماہ تک جاری رہے گی۔سیاسی جماعتیں عوام کو لبھانے کے لیے طرح طرح کے حربے آزما رہی ہیں۔حکمران کانگرس نے آئیڈیالوجی کے بجائے حکومت کی کامیابیوں، گورننس اور اقتصادی وعدوں کی بنیاد پرا نتخابی حکمت عملی ترتیب دی تھی؛ تاکہ ملک کی ابھرتی ہوئی مڈل کلاس اور نوجوان ووٹروں کو راغب کیا جاسکے۔مگر لگتا ہے کہ کانگرس کی سٹریٹیجی بری طرح ناکام ہورہی ہے۔ شہری مڈل کلاس کو متوجہ کرنا تو دور کی بات، پارٹی اپنا روایتی ووٹ بنک بھی کھوتی جارہی ہے۔ شاید اسی لئے پارٹی کے پالیسی سازوں نے ایک بار پھر 2014ء کے انتخابات کو سیکولرزم بنام فرقہ پرستی کی جنگ قرار دے کر سیکولرزم کو بچانے کی دہائی دے کر ووٹ کی اپیل کی ہے۔واضح رہے کہ پچھلے سال جے پور میں پارٹی لیڈروں کے برین سٹارمنگ سیشن میں یہ طے کیا گیا تھا کہ نئے ووٹروں کو لبھانے کیلئے پارٹی، حکومتی اور اقتصادی اصلاحات نیز بد عنوانی سے لڑنے کے لیے میکانزم تیار کرنے پر توجہ مرکوز کرے گی۔ پارٹی کے لیڈران کا کہنا تھا ، کہ مڈل کلاس اور نوجوان ووٹر کیلئے آئیڈیالوجی کوئی معنی نہیں رکھتی۔یہ اس سٹریٹیجی سے بالکل مختلف تھی، جب 2004ء میں پارٹی صدر سونیا گاندھی نے سیکولرزم کے نام پر ہم خیال جماعتوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرکے اس وقت کی بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی قیادت والے اتحاد کو حکومت سے باہر کا راستہ دکھادیا۔پارٹی کے ایک اہم لیڈر اور اطلاعات و نشریات کے مرکزی وزیر منیش تیواڑی نے حالیہ انتخابات کو بھارتی تاریخ کا سنگ میل قرار دیا ہے ۔ اپنی رہائش گاہ پر ممتاز صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ان انتخابات میں پہلی بار بھارتی کارپوریٹ گھرانے کھل کر بی جے پی کے امیدوار نریندر مودی کی حمایت میں سامنے آگئے ہیں اور انہیں کامیاب بنانے کیلئے ہر حربہ اپنا رہے ہیں ، تاکہ سیاست میں وہ براہ راست رسائی حاصل کرسکیں۔ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ بڑے صنعتی ادارے جلد ہی اپنے اس فیصلے پر پچھتائیں گے۔
سیکو لرزم کا پرچم دوبارہ ا ٹھا نے کے باوجود کانگرس نے اپنے منشور میں مسلمانوں کو گوکہ سکیورٹی فراہم کرنے اور ان کے جان و مال کے تحفظ کی یقین دہانی کرائی ہے، مگر ان کی ترقی کیلئے کوئی ٹھوس وعدے نہیں کئے ۔ اس لئے کانگرس کے سیکولرزم کا دعویٰ زبانی جمع خرچ اور انتخابی مجبوری کے لیے ایسا آخری ہتھیار بتایا جاتا ہے، جس میں زنگ لگ چکا ہے۔منشور میں پارٹی نے ان وعدوں کا اعادہ کیا ہے جو وہ پچھلے دو انتخابات سے کرتی آرہی ہے یعنی انسدادفرقہ وارانہ تشدد بل Prevention of Communal and Targeted Violence (Access to Justice and Reparations) Bill, 2013. کو ترجیحی بنیاد پر پاس کرنے کی کوشش کی جائے گی ۔ مولانا آزاد ایجوکیشنل فنڈ کی طرز پر اقلیتی طبقات کے با ہنر نوجوانوں اور صنعت کاروں (Entrepreneurs)اورصنعتی ترقی کے لیے علیحدہ فنڈ قائم کرے گی۔ بظاہر نئی تجویز ہے مگر اقلیتی مالیاتی کارپوریشن کی کارکردگی کی روشنی میں حوصلہ افزا معلوم نہیں ہوتی ۔ تعلیمی اداروں اور سرکاری ملازمتوں میں اقلیتوں کے پسماندہ طبقات کے لیے کوٹہ مخصوص کیا جائے گا اس ضمن میں سچر کمیٹی کی سفارشات پر عمل کیا جائے گا ۔سچر کمیٹی کی ہر سفارش کا دوبارہ جائزہ لیا جائے گا اور اسے عملی جامہ پہنانے کی کو شش کی جائے گی۔ کانگرس حکومت کا دعویٰ ہے کہ اس نے کمیٹی کی 76میں سے 72سفارشات پر عمل کیا۔ اس کے علاوہ اقلیتوں کے لیے سرکاری مراعات بالخصوص قرضوں اور ٹیکس چھوٹ تک رسائی کو یقینی بنایا جائے گا۔
اب پارٹی کے تازہ منشور کا 2004ء اور2009ء کے انتخابی منشوروں سے موازانہ کیا جائے تو صاف نظر آتا ہے کہ پارٹی قیادت اب بھی اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کو ' زر خرید‘ غلام سمجھتی ہے۔ موجودہ منشور میں جسٹس رنگ ناتھ مشرا کمیشن کا کوئی تذکرہ نہیں ہے جبکہ پچھلے منشور میں اس کا ذکر تھا۔ جسے یو پی اے نے اپنے دوسرے دور حکو مت میں پورا نہیں کیا۔ ریزرویشن دینے کا وعدہ گزشتہ دس سالوں سے چلا آرہا ہے ۔ گجرات کے نسل کش فسادات اور ملک میں بڑھتی ہوئی فرقہ پرستی کے پس منظر میں2004ء میں اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کی حمایت سے کانگریس اپنے محاذ یو پی اے کے ساتھ بر سر اقتدار آئی تھی تو اس وقت اس نے اپنے منشور میں فرقہ پرستی کی بیخ کنی کے ساتھ ساتھ فسادات کے تدارک کے لیے خصوصی قانون سازی کا وعدہ کیا تھا مگر وہ گزشتہ دس سال میں یہ وعدہ پورا نہیں کرسکی، نہ ہی اس نے فرقہ پرستی کے خاتمہ کے لئے کوئی ٹھوس قدم اٹھایا، نہ ہی نصابی کتب سے مسموم مواد ہٹانے کی طرف توجہ دی، نہ ممتاز ماہرین اور اہل دانش کی کمیٹیاں تشکیل دیں، جن کا اس نے شملہ میں اپنے اجلاس میں قرارداد پاس کرکے وعدہ کیا تھا۔
تازہ منشورا قلیتوں کو تحفظ فراہم کرنے کی بات کرتا ہے مگردہشت گردی کے حوالے سے اقلیتی فرقہ کو جس بڑے پیمانے پر نشانہ بنایا جارہا ہے اس بارے میں ایک لفظ بھی اس میں نہیں ہے۔ اس وقت سلامتی کے حوالے سے یہ معاملہ اقلیتی فرقہ کے لیے کافی سنگین بنا ہوا ہے یہاں تک کہ عین انتخابی سرگرمیوں کے درمیان بھی مسلم نوجوانوں کو گرفتار کیا جارہا ہے ۔ مزید ستم یہ کہ ایک پرانے جھوٹے کیس میں حید رآباد کے ایک معتبر عالم دین کو دہلی کے ایئر پورٹ سے اچانک گرفتار کرکے اقلیتی فرقہ کو ایک سخت پیغام دیا گیا ۔ یہ مطالبہ مستقل ہورہا تھا کہ دہشت گردی کے جھوٹے مقدمات میں بے قصور مسلم نوجوانوں کو پھنسانے کا سلسلہ ختم کیا جائے۔ لیکن اس بابت بھی کانگرس کا منشور خاموش ہے۔ تو سوال یہ ہے کانگرس مرکز میں اپنا اقتدار برقرار رکھنے کی صورت میں اقلیتوں کو کس قسم کا تحفظ فراہم کرے گی ؟ جان و مال کے تحفظ و سلامتی کے بغیر کوئی بھی قوم اور ملک ترقی نہیں کرسکتا۔اقلیتیں بالخصوص مسلمان مسلسل عدم تحفظ کے احساس میں مبتلا ہیں۔ کیونکہ پولیس اور انتظامیہ، نیز نظام عدل میںفرقہ پرستی، اپنی جڑیں جماچکی ہے۔
پارٹی کے نائب صدر راہول گاندھی نے اسمبلی انتخابات میں ذلت آمیز شکست سے سبق لیتے ہوئے عام آدمی پارٹی کی نقل میں منشور کی تیاری میں معاشرے کے مختلف طبقات سے براہ راست رابطہ قائم کیا تھا ۔ اس سلسلہ میں جنوری میں اقلیتوں کے نمائندوں کا بھی ایک اجلاس دارالحکومت نئی دہلی میںبلایا گیا ۔ جس میں ملک بھر سے مسلمانوں کے مختلف شعبہ حیات سے تعلق رکھنے والے دو سو نمائندوں کو مدعو کیا گیا تھا ۔ اس موقع پرمسلم نمائندوں نے لگی لپٹی رکھے بغیر بیک آواز کہا کہ یو پی اے حکومت کو دس سال حکمرانی کا موقع ملا مگر اس نے کسی اقلیت اور بالخصوص مسلمانوں کی بہبود کے لیے کوئی ٹھوس کام نہیں کیا ۔ فرقہ وارانہ تشدد کا بل پاس کیا نہ سچر کمیٹی اور جسٹس رنگ ناتھ مشرا کمیشن کی سفارشات پر عمل کیا ۔ مسلم ریزرویشن اور مسلم ارتکاز والے اسمبلی اور پارلیمانی حلقوں کو ایس سی اور ایس ٹی ریزرویشن سے آزاد کر نے نیز دہشت گردی کے الزام میں مسلم نوجوانوں کو پھنسانے کا سلسلہ بند نہیں کیا۔ اسی طرح فرقہ پرستی کی بیخ کنی کے لیے کوئی قدم نہیں اٹھایا۔ گجرات کے قتل عام کے ذمہ داروںکو سزا دلانے کا وعدہ پورا نہیں کیا۔ خفیہ ایجنسیوں کو بے لگام چھوڑ دیا، جو آئے دن کوئی نہ کوئی شوشہ چھوڑ کر فرقہ وارانہ ماحول کو مکدر کرتی ہیں۔ اس موقع پر راہول گاندھی نے یقین دلایا تھا کہ پارٹی کے انتخابی منشور میں ان مطالبات کو شامل کیا جائے گا اور وہ(منشور) اقلیتوں کی امنگوں کا ترجمان ہوگا۔ مگر پارٹی اپنے وعدہ پر قائم نہیں رہ سکی ۔