کسی قصبے میں ایک شخص کا انتقال ہو ا تو تدفین اور دوسری رسومات ادا کرنے کے بعد اس کی لکھی گئی وصیت کے مطابق جائداد اس کے وارثان، جن میں تین بیٹے شامل تھے، میں تقسیم کی جانی تھی۔ زمینی جائداد تو بخوبی تقسیم کر دی گئی لیکن مرنے والے نے وصیت کا ایک حصہ کچھ اس طرح لکھا تھاکہ کسی کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ کس طرح وصیت کے عین مطابق تقسیم کی جائے ۔ مرنے والا سترہ گھوڑے چھوڑ گیا تھا اور وصیت کے مطا بق انہیں اس طرح تقسیم کیا جانا تھا کہ سب سے بڑے بیٹے کو کل گھوڑوں کی تعداد کا نصف،منجھلے بیٹے کو1/3اور سب سے چھوٹے بیٹے کو1/9 واں حصہ ملے۔ یہ کسی طور ممکن نہیں ہو رہاتھا، کیونکہ 17 گھوڑوں کا نصف ساڑھے آٹھ بنتا ہے۔ اسی طرح 1/3 اور 17 گھوڑوں کا نواں حصہ بھی ممکن نہ تھا۔ گائوں اور ارد گرد کے لوگ تھک ہار کر بیٹھ گئے۔ کسی کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ کیا کیا جائے۔ اب یہ خدشہ بڑھتا جا رہا تھا کہ تینوں بیٹے اپنی اپنی سمجھ کے مطا بق زبردستی تقسیم کر نا شروع ہو جائیں گے اور ان کے درمیاں لڑائی جھگڑا اُٹھ کھڑا ہو گا۔ تینوں کے ملازم اور خادم بھی میدان میں آ چکے تھے۔اچانک بادشاہ کے ایک مشیر کا اس گائوں سے گذر ہوا تو گائوں کے بڑوں اور ان تینوں نوجوانوں نے آگے بڑھ کر درخواست کی کہ اس وصیت کا کوئی حل بتائیں، ہماری سمجھ میں تو کچھ نہیں آ رہا۔بادشاہ وقت کے مشیر نے گائوں کے لوگوں کی درخواست پر مسلح سپاہیوں کو رکنے کا اشارہ کرتے ہوئے شاہی گھوڑے پر بیٹھے بیٹھے وصیت کو دو دفعہ بغور پڑھا اورکچھ دیر سوچ بچار کی، پھر وہ گھوڑے سے نیچے اُترا اور اپنے گھوڑے کوان سترہ گھوڑوں میں شامل کر دیا جس سے گھوڑوں کی تعداد سترہ سے بڑھ کر اٹھارہ ہو گئی۔ اس کے بعد شاہی مشیر نے گائوں کے لوگوں کی موجود گی میں ان تینوں نوجوانوں کے باپ کی وصیت کو با آواز بلند پڑھا اور پھر وصیت کے مطابق نصف یعنی9 گھوڑے بڑے بیٹے کے حوالے کر دیئے۔ اس کے بعد وصیت کا دوسرا حصہ پڑھا اور اٹھارہ گھوڑوں کا1/3 یعنی6 گھوڑے منجھلے بیٹے کو دے دیے۔ پھر وصیت کا تیسرا حصہ بلند آواز سے پڑھنے کے بعد اٹھارہ گھوڑوں کا1/9واں حصہ یعنی دو گھوڑے سب سے چھوٹے بیٹے کے سپرد کر دیے۔ اس طرح شاہی مشیر نے وصیت کے عین مطابق9+6=2=17 گھوڑے تینوں بیٹوں میں تقسیم کر دیے،اور وہ ایک گھوڑا جو اس نے سترہ گھوڑوں میں شامل کیا تھا، اس کی باگ پکڑی اوراپنے سپاہیوں کے ساتھ چل دیا۔
حکومتی کمیٹی اور طالبان کمیٹی کے مابین یہ مذاکرات اس وقت تک کامیاب نہیں ہو ں گے، جب تک طالبان کی طرف سے 18 واں گھوڑا ساتھ شامل نہیں کیا جاتا۔ اگر دیکھا جائے تو طالبان کی طرف سے پاکستان کی سالمیت پر حملہ کیا گیا ہے اور ان حملوں میں وسیع پیمانے پر جانی، مالی اور فوجی نقصان ہو چکا ہے۔ پچاس ہزار سے زائد شہریوں اور پانچ ہزار کے قریب فوجی افسروں اور جوانوں کی شہادت کے علاوہ اربوں ڈالر کا مالی نقصان، جس میں بین الاقوامی سرمایہ کاری اور ملکی صنعتی ترقی کا پہیہ جام ہونا بھی شامل ہے، کوئی معمولی نقصان نہیں ہے۔ پاکستان کی عسکری قیا دت کا اپنے افسروں اور جوانوں کابہیمانہ قتل کرنے والوں کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھنا بھی کوئی معمولی بات نہیں، اس کے لیے عسکری قیادت نے نہ جانے کتنے تلخ اور کڑوے گھونٹ پیے ہوں گے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ طالبان بھی اپنا گھوڑا سترہ گھوڑوں میں شامل کرتے ہیں یا نہیں اور یہی مذاکرات کی کامیابی کی اصل کنجی ہے۔
اگر پاکستانیوں سے پوچھا جائے کہ وہ تحریک طالبان اور اس کے زیر اثر دوسرے گروپوں کی طرف سے برپا کیے جانے والے دہشت گردی کے طوفان، جس نے عوام کی سماجی، اقتصادی اور ذہنی حالت کو برباد کر کے رکھ دیا ہے،کے بارے کیا رائے رکھتے ہیں؟ تو ایک سروے کے مطا بق79 فیصد سے زائد لوگوں کا کہنا ہے کہ ہماری فوج اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو ان حملہ آوروں کو کچل دینا چاہیے تاکہ عوام سکھ کا سانس لے سکیں، لیکن عسکری قیا دت عوام کے دبائو کے با وجود امن کا راستہ منتخب کرتے ہوئے مذاکراتی عمل کا بھر پور ساتھ دے رہی ہے۔
اسلام آباد کچہری میں دہشت گردوں کے ایک گروپ کی جانب سے ظلم اور بر بریت کا جو کھیل کھیلا گیا ہے اور ایک جج سمیت بارہ وکلاء اور شہریوں کو جس بے رحمی سے قتل کیا گیا ہے، وہ انتہائی شرمناک فعل ہے۔ یہ دہشت گرد ڈاکٹر عافیہ کا الزام تو پاکستان پر لگاتے ہیں لیکن انہیں قوم کی بیٹی فضہ کو تاک کر نشانہ بناتے ہوئے اس کی حرمت کا خیال نہیں آیا۔ کوئی ادارہ اور کوئی
گھر ان دہشت گردوں سے محفوظ نہیں۔ لوگ ذہنی مریض بن کر رہ گئے ہیںاور سکیورٹی اداروں کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھنا شروع ہو گئے ہیں۔ دنیا بھر میں کہیں بھی یہ ممکن نہیں کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے اپنے شہریوں کی مدد اور طاقت کے بغیر کسی بغاوت کو کچل سکیں۔سری لنکا کی مثال سب کے سامنے ہے کہ اس کے عوام دس سال تک تامل ٹائیگرز کی بر بریت کا مقابلہ کرتے رہے اور بالآخر انہیں کچلنے میں کامیاب ہوئے۔ اب پاکستانی عوام بھی کو سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر اپنی مائوں، بہنوں اور بیٹیوں کی چادر اور چار دیواری کی حفاظت کے لیے فوج کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر کھڑا ہونا ہو گا۔
آج پاکستان میں عدلیہ اس قدر آزاد ہے کہ سابق آرمی چیف سمیت کئی فوجی افسران کو روزانہ عدالتوں میں کھڑا ہونا پڑ رہا ہے لیکن ایک بات پر سول سوسائٹی اور وکلاء کی مختلف تنظیمیں حیران ہو رہی ہیں کہ انہی عدالتوں سے اب تک ہزاروں کی تعداد میں دہشت گردی کے الزامات میں گرفتار کیے گئے افراد کو یہ کہہ کر رہا کر دیا گیا یا ضمانتوں پر چھوڑ دیا گیا کہ ان کے خلاف استغاثہ کی طرف سے پیش کی جانے والی شہا دتیں نا کافی ہیں۔ملک عزیز کو مزید تباہی سے بچانے کے لیے اب پاکستان کے سب اداروں کو ایک ساتھ مل کر دہشت گردی کے اس عفریت سے نمٹنا ہو گا۔