تحریر : نذیر ناجی تاریخ اشاعت     09-04-2014

مہین سا فرق

لیڈر کی طاقت اس کی شہرت اور کردار میں ہوتی ہے۔ شہرت کا مطلب اچھی شہرت ہے اور کردار کا مطلب یہ ہے کہ ا ختیارات کے استعمال میں اس کی کارکردگی شک و شبہ سے بالاتر ہو۔ ان دو شعبوں میں اگر کسی لیڈر کو عوام کا اعتماد حاصل ہو جائے توبھی‘ محض انتخابی طاقت کے زور سے وہ اداروں پر برتری حاصل نہیں کر سکتا۔دیانتداری بھی کسی کو یہ حق نہیں دیتی کہ وہ دیگر ریاستی اداروں کی رسوائی اور تحقیر کو گوارہ کرے۔ بر سر ا قتدار لیڈڑتمام ریاستی انتظامیہ کا سربراہ ہوتا ہے‘ ان اداروں کی عزت و وقار کا نگہبان بھی ہوتا ہے۔آپ دنیا بھر کے منتخب اداروں میں ہونے والے مباحث کا جائزہ لے کر دیکھ لیجئے‘ آپ کو سکیورٹی فورسز اور حساس اداروں کے بارے میں کبھی توہین آمیز تبصرے سنائی یا دکھائی نہیں دیں گے۔ سکیورٹی فورسز میں کوئی کمی یا خرابی نظر آئے تو اس کی تشہیر نہیں کی جاتی بلکہ خاموشی سے تطہیر کر دی جاتی ہے۔ادارے کے احترام کا یہ مطلب نہیں کہ کوئی ادارہ اپنے عزت و اختیار کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ‘دوسرے اداروں کو زیر کرکے اقتدار پر قبضہ کر لے۔ ہم نے دونوں حالتیں دیکھی ہیں۔ اقتدار پر طالع آزما جنرلوں کے قبضے بھی اور فوج کی پیشہ وارانہ مجبوریوں کا فائدہ اٹھا کر‘ اس کے پیشہ وارانہ وقار کو ہدف بنانے والے بھی۔ ہماری بد قسمتی یہ ہے کہ نہ ہمیں حقیقی جمہوریت نصیب ہوئی اور نہ حقیقی آمریت۔ جمہوریت آئی تو کرپشن کے بازار گرم ہوئے اور آمریت آئی تو شخصی خواہشوں کو پورا اور شہری آزادیوں کو سلب کیا گیا۔ فیلڈ مارشل ایوب خان نے‘ جمہوریت کی بساط لپیٹ کر تعمیر و ترقی کے جمہوری طور طریقے ترک کر دئیے اور ترقی کے جو راستے اختیار کئے‘ وہ عوام کے لئے نہیں‘ خواص کے لئے تھے۔ اسی کے نتیجے میں بائیس خاندانوں کی اصطلاح وجود میں آئی اور حکمران جنرلوں اور عوام کے درمیان ‘ محاذ آرائی کارشتہ قائم ہوا۔پہلے مارشل لا کے بعد‘ حکمران جنرلوں اور حکمران سیاست دانوں کے مابین ‘اعتماد کا رشتہ قائم نہ ہو سکا۔ دور حکومت کسی کا بھی ہو‘ یہ کشمکش کبھی آکے منظر عام پر ‘ کبھی ہٹ کے منظر عام سے‘ جاری رہی۔ حد یہ ہے کہ مشرقی پاکستان کی اندوہ ناک شکست کے بعد بھی‘ یہ کشمکش ختم نہ ہوئی ۔ ایک منتخب لیڈر کی حیثیت سے بھٹو صاحب نے اقتدار سنبھالا تو دوسرے ہی مہینے سازشوں کے سلسلے شروع ہو گئے۔ پہلے چیف آف آرمی سٹاف کو حراست میں لے کر نکالا گیا اور اس کے بعد کم از کم تین سازشیں پکڑی گئیں‘ جن میں سے ایک کے ذمہ داروں کوگرفتار کر کے ان پر مقدمے چلائے اور سزائیں دی گئیں۔
ضیا الحق کے بعد بے نظیر شہیدا ور نوازشریف کی جو دودو حکومتیں آئیں‘ ان پر اسی کشمکش کے سائے منڈلاتے رہے۔ یہی کشمکش ان کی حکومتوں کی برطرفیوں کا ذریعہ بنی اورآخر کار جنرل(ر) پرویز مشرف نے سارے تکلفات کو الگ رکھ کے‘ اقتدار پر قبضہ کر لیا۔اقتدار کے کھیل میں کامیاب وہی رہتا ہے‘ جو اپنی طاقت اور حیثیت کے مطابق اختیارات کا استعمال کرے۔ اختیارات آئین میں نہیں‘ عمل میں ہوتے ہیں۔ اگر حکمران کا کردار شک و شبہ سے بالاتر ہو تو اختیارات اس کی طاقت بن جاتے ہیں اوراگر اختیارات کا غلط استعمال شروع ہو جائے تو کمزوری بن جاتے ہیں۔ بد قسمتی سے پاکستان میں حکومت‘ سیاست دانوں کی رہی ہو یا طالع آزما جنرلوں کی‘ ان میں سے کوئی بھی عوام کے اعتماد اور بھروسے کی طاقت سے فیض یا ب نہیں ہو سکا۔آئین توڑنے والا تو غاصب ہوتا ہی ہے۔ آئین کے تحت انتخابات کے ذریعے منتخب ہونے والے بھی فرشتے نہیں رہے۔ ہر الیکشن میں دھاندلی ہوئی۔ تمام نتائج میں پنکچر لگے۔
پاکستان میں کم و بیش‘ سب حکمرانوں نے اپنے مخالفین کا احتساب کیا اور یہ بھول گئے کہ اسے انتقام کہا جاتا ہے۔ مخالفین کو مختلف الزامات کے تحت پکڑنا اور اپنوں کے تمام جرائم کو نظر انداز کرنا‘ کسی بھی حکومت کی نیک نامی کا سبب نہیں بنتا اور ایسا کرنے والی حکومتیں ہر وقت خطرے میں رہتی ہیں۔ حکومت منتخب ہو تو فوج کو قبضہ کرنے میں آسانی رہتی ہے اور غیر منتخب ہو تو عوامی طاقت سڑکوں پر آکر اقتدار پر قابض آمروں کا کرسی پر رہنا مشکل کر دیتی ہے۔
نوازشریف کو عوام اور اللہ تعالیٰ نے‘ تیسری مرتبہ وزیراعظم بننے کا شرف عطا فرمایا۔ موجودہ دور اقتدار کے ابتدائی ایام میں یوں لگا کہ وہ ماضی کی
غلطیاں بھول کر نیا ورق کھولنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے اسمبلیوں میں اپنی عددی طاقت استعمال کر کے‘ دوسروں سے حق حکمرانی چھیننے کی کوشش نہیں کی۔ بلوچستان میں وہ صوبائی حکومت بنا سکتے تھے لیکن چھوٹی جماعتوں کو حکومت سازی کا موقع دے کر اپنے نمائندے عام بنچوں پر بٹھا دئیے۔ یہی کچھ پختونخوا میں ہوا۔ وہاں تحریک انصاف کے ممبر زیادہ تعداد میں تھے‘ انہیں دوسری جماعتوں کی مدد سے حکومت بنانے کا حق تھا۔ نوازشریف نے مزاحمت نہیں کی۔ دونوں صوبوں میں وہ چاہتے تو اپنی حکومتیں بنا سکتے تھے ۔ ان فیصلوں پر انہیں زبردست خراج تحسین پیش کیا گیا لیکن جیسے ہی ان کی حکومت کو استحکام حاصل ہونے لگا‘ نجانے کس وجہ سے جنرل(ر) پرویز مشرف کا خیال آگیا اور انہیں عبرت کا نشان بنانے کی کارروائی شروع کر دی گئی حالانکہ جو سزا نوازشریف دینا چاہتے ہیں ‘وہ تو عوام نے خود دے دی تھی۔مشرف خوش فہمیوں کی فضائوں میں اڑتے ہوئے یہ سوچ کر پاکستان واپس آئے کہ عوام بھاری تعداد میں ان کا استقبال کریں گے۔ دوران پرواز پتہ نہیں کیسی تقریر سوچی ہو گی؟ کیسے کیسے زور دار جملے سوچے ہوں گے؟ اور کس طرح وہ عوام کے نعروں کا جواب دیں گے؟ کیسے ہاتھ ہلائیں گے؟ کیسے مسکرائیں گے؟ اور مقبولیت کی لہروں پر سوار ہو کر کس طرح پورے ملک کا دورہ کریں گے؟ جیسے ہی وہ کراچی کے ہوائی اڈے پر لائونج سے باہر آئے‘ عوام کے بجائے ان کے سامنے سیکورٹی فورسز کے لوگ کھڑے تھے ۔ نعروں کو زور دار بنانے کے لئے‘ مطلوبہ نفری بھی ہاتھ نہ لگی۔ یہ منظر دیکھ کر جنرل صاحب کے چہرے کا رنگ دیدنی تھا۔ ایسے نظر آرہا تھا ‘ جسے فق ہونا کہتے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ اس منظر کی ویڈیو دیکھ کر‘ نوازشریف خدا اور اپنے عوام کا شکریہ ادا کرتے ۔ جنرل (ر) پرویز مشرف کو عوام کی صوابدید پر چھوڑ دیتے۔آزادی سے الیکشن میں حصہ لینے کا موقع دیتے اور دو چار ممبروں کے ساتھ انہیں
پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں میں بیٹھنے دیتے۔ ان کی کہانی سیاست میں آنے والے ‘دیگر ریٹائرڈ جنرلوں کی طرح فراموشیوں کے دھندلکے میں گم ہو جاتی۔ افسوس کہ میاں صاحب نے قدرت کے انصاف پر قناعت نہیں کی۔ خود سزا دینے پر تل گئے۔ وہ پرویز مشرف‘ جسے اللہ اور عوام نے باسی سبزی بنا کر رکھ دیا تھا‘ میاں صاحب نے اس پر مقدموں کا پانی چھڑک کے تازہ کر دیا۔بزرگ کہتے ہیں کہ اچھا کام بھی اناڑی پن سے کیا جائے تو نتیجہ برا نکلتا ہے‘ یہی میاں صاحب کے ساتھ ہوا۔مشرف کو ہدف بنا کر‘ مقدموں کے ساتھ ساتھ ان کو رسوا اور بدنام کرنے کی جو مہم چلائی گئی‘ اس کے چھینٹے تو پرویز مشرف پر گرے لیکن بوچھاڑ سیدھی فوج کے ادارے پر شروع ہو گئی۔چند وزرا تو ایسے اشتعال میں آئے کہ فوج کی صفوں میں بے چینی پھیل گئی۔ جب کہیں آگ سلگتی ہے تو دھواں دکھائی دینے لگتا ہے۔ یہ دھواں بہت دنوں سے دکھائی دے رہا تھا۔ وزیراعظم کے ساتھ جنرل راحیل شریف کی ملاقاتیں معمول سے زیادہ ہو گئیں ۔ تصاویر میں جنرل صاحب کے چہرے پر ایک مطمئن شخصیت کے تاثرات غائب تھے۔ ریٹائرڈ جنرلوں کے بیانات میں اضطراب دکھائی دے رہا تھا۔ پوٹھوہار میں ریٹائرڈ فوجیوں نے حیرت سے پوچھنا شروع کر دیا کہ ''حکومت ہمارے خلاف کیو ں ہو گئی ہے؟‘‘۔ جب سادہ لوح اور سیاست سے لاتعلق سپاہی ایسی باتیں کرنے لگیں تو رینکس کے اندر کی صورت حال کیسی ہو گی۔ جنرل صاحب کے الفاظ تھے کہ ''ایس ایس جی کو انتہائی حساس‘ پیچیدہ اوردشوار صور ت حال میں کام کرنا پڑتا ہے۔‘‘ایس ایس جی جنرل (ر)پرویز مشرف کا یونٹ ہے ‘ وہ اس تعلق پر ہمیشہ فخر کرتے ہیں۔چیف آف آرمی سٹاف نے ایس ایس جی کے ہیڈ کوارٹر میں افسروں اور جوانوں سے خطاب کرتے ہوئے ‘ بعض عناصر کی طرف سے غیر ضروری تنقید کے حوالے سے فوج کے افسروں اور جوانوں کے تحفظات کے بارے میں کہا کہ ''فوج اپنے وقار کا ہر حال میں تحفظ کرے گی‘‘۔ مزید وضاحت کی ضرورت نہیں رہتی۔ جنرل(ر) جہانگیر کرامت اگر استعفیٰ نہ دیتے تو انہیں بھی اپنی فورسز سے خطاب کرتے ہوئے یہی کچھ کہنا پڑتا۔انہوں نے نہیں کہا۔جنرل راحیل شریف نے کہہ دیا۔''کہہ دیا‘‘ اور'' کر دیا‘‘ میں مہین سا فرق ہوتا ہے۔ اس کی نوبت نہ ہی آئے تو اچھا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved