تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     09-04-2014

افغان انتخاب

تاریخ کا سبق یہ ہے کہ مذہب واقعی ہو تو مذہبی طبقے کا الگ سے وجود ہوتا ہی نہیں۔ مذہبی طبقات مسلّط ہوں تو مذہب کا وجود باقی نہیں رہتا‘ فقط اس کے مظاہر۔ افغانستان ہی نہیں‘ ایران کو بھی دیکھ لیجیے ؎ 
تصوف‘ تمدن‘ شریعت‘ کلام 
بتانِ عجم کے پجاری تمام 
افغانستان کا خیال آئے تو اقبالؔ یاد آتے ہیں‘ اور کب نہیں آتے! 
آسیا یک پیکرِ آب و گِل است 
ملّتِ افغاں در ایں پیکر دل است 
در فسادِ او فسادِ آسیا 
در کشادِ او کشادِ آسیا 
ایشیا‘ آب و گل کا ایک پیکر ہے‘ افغانستان اس کا دل ہے‘ اس میں فساد ہوگا تو پورے ایشیا میں فساد اور اس میں کشادگی ہوگی تو سارے ایشیا میں کشادگی۔ اقبالؔ کا افغانستان اب باقی نہیں‘ مگر باقی ہے۔ قوموں کے مزاج صدیوں میں بنتے ہیں اور آسانی سے بدلتے نہیں۔ ان کی کچھ قومی خصوصیات باقی رہ جاتی ہیں۔ اسی لیے بار بار یہ عرض کرتا ہوں کہ تمام سماجی اور سیاسی ادارے قوموں کی تہذیب‘ تمدن اور تاریخ کو ملحوظ رکھ کر ہی تشکیل دیئے جا سکتے ہیں۔ ایک عظیم حقیقت مگر یہ بھی ہے کہ جب کوئی قوم وقت سے پیچھے رہ جائے یا باہم متصادم ہو کر برباد ہونے لگے تو غیر ملکی مداخلت کی راہ ہموار ہوتی ہے۔ یہ افراد اور اقوام ہی نہیں جو فیصلے صادر کرتی ہیں بلکہ قدرت کا ان دیکھا ہاتھ۔ آدمی کی نظر محدود ہے اور تعصبات سے وہ کم ہی رہائی پاتا ہے۔ فرد ہو یا قوم‘ جب وہ الجھ جاتا ہے‘ تو گاہے خارج سے دخل دیا جاتا ہے۔ ایک حدیث قدسی یہ کہتی ہے کہ آدمی من مانی پہ جب اترتا ہے تو بعض اوقات اپنی راہ میں اسے آزاد چھوڑ دیا جاتا ہے۔ اس راہ پہ چلتے چلتے آخر کار وہ نڈھال ہو جاتا ہے۔ حدیث کے آخری جملوں کا مفہوم یہ ہے: اے آدم زاد‘ آخر کار ہوگا وہی‘ جو میں چاہتا ہوں۔ 
افغانستان دنیا کے قدیم ترین قبائلی معاشروں میں سے ایک ہے۔ اس قدر ہولناک قدامت پسندی کہ جب بھی اسے بدلنے کی کوشش کی گئی‘ ڈٹ کر اس نے مزاحمت کی۔ افغان اس پر بہت زیادہ فخر کیا کرتے ہیں کہ وہ کبھی غلام نہیں رہے۔ اوّل تو یہ بات پوری طرح درست نہیں‘ ثانیاً جہاں اس کے مثبت پہلو ہیں کہ حریت پسندی برقرار رہی‘ وہاں منفی بھی۔ دنیا سے وہ کٹے رہے۔ زندگی بدلتی ہے اور اس کے ساتھ ہم آہنگ ہونا پڑتا ہے۔ اگر کوئی معاشرہ ایسا نہ کرے گا تو پسماندہ اور فرسودہ رہ جائے گا۔ متبادل کے طور پر ہر عہد کی ایک غالب زبان ہوتی ہے۔ کبھی رومن تھی‘ کبھی یونانی‘ کبھی عربی‘ پھر فارسی اور اب دو صدیوں سے انگریزی۔ دوسری زبانیں اور دوسری ثقافتیں‘ اس کے پہلو بہ پہلو پنپتی رہتی ہیں مگر اس سے بے نیاز نہیں ہو سکتیں۔ 
1857ء کے ہنگام سرسید احمد خان نے ''دربار اکبری‘‘ کا ترجمہ کیا اور اسد اللہ خان غالب سے اس کا دیباچہ لکھنے کی فرمائش کی۔ اس وقت وہ سامنے نہیں‘ وگرنہ اس کا حوالہ دیتا۔ خلاصہ اس کا یہ تھا کہ بھائی دنیا بدل چکی۔ ریل کی پٹڑیاں بچھ رہی ہیں اور ان پر بھاپ سے چلنے والے انجن رواں ہیں۔ ادھر تم ہو کہ اکبری عہد کی تصویر کشی میں لگے ہو۔ مسلم برصغیر کی تاریخ کا زیادہ انہماک سے مطالعہ کرنے والوں کا خیال ہے کہ یہ غالب تھے‘ جن سے متاثر ہو کر‘ سرسید احمد خان نے مغربی تہذیب 
کا مطالعہ اور مشاہدہ کرنے کا ارادہ کیا۔ 
سرسید احمد خان کے بارے میں دو انتہائی آرا ہیں۔ کچھ لوگ انہیں قابل تقلید مثال سمجھتے اور ان کی تقلید پہ مائل ہوتے ہیں۔ دوسرے انہیں آخری درجے کا گمراہ سمجھتے ہیں‘ جنہوں نے قرآن کریم کی تفسیر تک میں انگریزوں کی خوشنودی کا خیال رکھا۔ سامنے کی بات یہ ہے کہ سرسید کوئی بڑے دانشور اور مفکر نہ تھے۔ وہ اقبالؔ نہ تھے کہ علمی رہنمائی کے منصب پر فائز ہوتے؛ باایں ہمہ وہ ایک نہایت ہی مخلص مسلمان تھے۔ علی گڑھ یونیورسٹی اور پھر اس کی تقلید میں ایسے ہی دوسرے جدید ادارے وجود میں نہ آتے تو پاکستان بھی ایک اور طرح کا افغانستان ہوتا۔ وہ چیز جو افغانستان کو پسماندہ رکھنے کا سبب ہے‘ یعنی اس کی المناک قدامت پسندی‘ پاکستان کے نیم قبائلی معاشرے کا مرض بھی وہی ہے۔ ضدی پن جو جدید کو قبول کرنے نہیں دیتا اور قدامت سے جڑا رہتا ہے۔ یہ اقبالؔ نے کہا تھا ؎ 
آئینِ نو سے ڈرنا‘ طرزِ کہن پہ اڑنا 
منزل یہی کٹھن ہے‘ قوموں کی زندگی میں 
قدامت اور جدت پسندی کا کوئی خاص تعلق دین داری سے نہیں۔ جینز کی پتلون پہننے یا سوٹ اور نکٹائی میں ملبوس ایک شخص‘ اعلیٰ درجے کا مسلمان ہو سکتا ہے۔ ممکن ہے کہ شٹل کاک برقعہ اوڑھنے والی کسی خاتون یا جبہ و عمامہ میں ملبوس مولوی صاحب سے کہیں زیادہ متقی۔ ہمارے ارد گرد‘ ہر بستی‘ ہر محلے میں ایسی مثالیں دکھائی دیتی ہیں۔ اسلام آباد کی ایک محترم خاتون کو میں قریب سے جانتا ہوں۔ جنرل محمد ضیاء الحق کے دور میں انہوں نے دوپٹہ اوڑھنے سے انکار کردیا تھا مگر تہجد پابندی سے پڑھا کرتیں۔ ٹیلی ویژن کی خواتین میزبانوں میں سے کئی ایک نماز پڑھتی ہیں۔ ان میں سے ایک نے‘ جسے بہت ماڈرن سمجھا جاتا ہے‘ پچھلے دنوں مجھ سے کہا: کیا میں حجاب اختیار کر لوں۔ عرض کیا: کئی حجاب والیوں سے تم اچھی ہو۔ نماز پڑھا کرو کہ تمہارا جی اس کے لیے بے تاب ہوتا ہے۔ ہر چیز مرحلہ وار ہونی چاہیے۔ 
امریکہ میں وارث دین محمد کے پیروکار کالے مسلمان مسجد کو ٹمپل کہا کرتے اور کھڑے ہو کر پیشاب کیا کرتے۔ پھر وہ دن بھی آیا کہ اس نے ان سے یہ کہا: نماز پڑھتے ہوئے سر ڈھانپنا اچھا ہے۔ اسلام کا حقیقی فہم رکھنے والے صوفی کیوں کر حیران کن کامیابیاں حاصل کر سکے۔ دن رات اسلام کا علم اٹھائے گلی گلی چیخ پکار کرتے‘ گروہ در گروہ منظم مولوی صاحبان کیوں ناکام رہے؟ اس لیے کہ اول الذکر نے حسن نیت کو ترجیح دی اور زمینی حقائق سے جڑے رہے۔ سیدنا علی بن عثمان ہجویریؒ کا چراغ ایک ہزار سال کے بعد بھی روشن ہے۔ آج بھی ہر روز ایک لاکھ سے زیادہ ان کے دسترخوان پہ کھانا کھاتے ہیں۔ مذہبی تحریکیں پون صدی میں بھی کوئی کارنامہ انجام نہیں دے سکیں۔ 
اس کے باوجود کہ ساٹھ فیصد سے زیادہ افغان شہریوں نے ووٹ ڈالا‘ یہ نتیجہ اخذ کرنا قبل از وقت ہوگا کہ ان کا معاشرہ بدل چکا۔ یہ تو مگر آشکار ہے کہ طالبان کی قوت میں کمی آئی ہے۔ ان کی عسکریت اور ان کے طرزِ جہاد کو افغان عوام کی اکثریت نے مسترد کردیا ہے۔ وہ مسلمان ہیں اور مسلمان ہی رہیں گے۔ یہ ترکی کے تجربے سے واضح ہے‘ جہاں طیب اردوان کی پارٹی نے بلدیاتی الیکشن جیت لیے ہیں۔ اس سے بھی زیادہ یہ وسطی ایشیا کی ایک سو سالہ تاریخ سے واضح ہے‘ جہاں ستر سال تک چُلّو بھر بھر کر خون پینے والے سفاک کمیونسٹ اقتدار میں رہے۔ اب بھی سوویت یونین کی عسکری قوت کے سائے تلے‘ ان کے حامی مسلط ہیں‘ جس طرح بھوٹان اور سکم کی بھارت نواز حکومتیں۔ 
اگرچہ امریکہ غلط ہے اور ظاہر ہے کہ بے پناہ عسکری قوت کے بل پرمسلّط؛ اگرچہ غیر ملکی تسلط کی کسی صورت حمایت نہیں کی جا سکتی۔ آزادی انسان کا سب سے بڑا حق ہے اور جیسا کہ ا قبالؔ نے کہا تھا: مسلمان کبھی غلام نہیں رہ سکتا۔ اس کے باوجود‘ اس کے باوجود افغان انتخابات میں طالبان کی شکست ایک خوش کن خبر ہے؛ اگرچہ نتائج سامنے آنے اور تمام پہلو روشن ہونے کے بعد ہی حتمی رائے دی جا سکتی ہے۔ یہ بھی واضح ہے کہ افغان الیکشن کے نتیجے میں پاکستانی طالبان کمزور ہوں گے۔ خوں ریزی چنانچہ کم ہو جائے گی۔ اقبالؔ نے یہ کہا تھا ؎ 
آزادیٔ جمہور کا آتا ہے زمانہ 
جو نقشِ کہن تم کو نظر آئے مٹا دو 
غیر ملکی تسلط پہ لعنت مگر مذہبی طبقے کی حکمرانی؟ تاریخ کا سبق یہ ہے کہ مذہب واقعی ہو تو مذہبی طبقے کا الگ سے وجود ہوتا ہی نہیں۔ مذہبی طبقات مسلّط ہوں تو مذہب کا وجود باقی نہیں رہتا‘ فقط اس کے مظاہر۔ افغانستان ہی نہیں‘ ایران کو بھی دیکھ لیجیے ؎ 
تصوف‘ تمدن‘ شریعت‘ کلام 
بتانِ عجم کے پجاری تمام 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved