امریکہ آنے کا فیصلہ مشکل تھا ۔
شاید میں ابھی بھی بیوی کا علاج پاکستان میں جاری رکھتا لیکن ایک سال بعد بھی حالت وہیں تھی جہاں سے علاج شروع ہوا تھا۔ مزید انتظار کر لیتا لیکن ایک دن ہسپتال گئے تو پتہ چلا ڈاکٹر صاحب بغیر کسی کو بتائے چالیس دن کے لیے تبلیغ پر چلے گئے ہیں۔ معلوم ہوا‘ اب نئے ڈاکٹر علاج شروع کریں گے۔ نئے ڈاکٹر کا کہنا تھا دوبارہ فلاں شعبے میں جائیں ۔ انہیں بتایا کہ ایک سال پہلے انہوں نے ہی ادھر بھیجا تھا ، اب ایک سال بعد دوبارہ وہیں؟
صدمے کی حالت میں ہم دونوں میاں بیوی اٹھے اور گھر آگئے۔ سوچا کہ بھلا مریضوں کاعلاج کرنے سے بڑی اور کیا تبلیغ ہوگی ۔ سوچا کبھی مولانا طارق جمیل سے ملاقات ہوئی تو ضرور پوچھوں گا ۔
پچھلے ایک سال سے ہفتے میں مسلسل دو راتیں بیوی کے ساتھ ہسپتال میں گزارتااور صبح اپنا ٹی وی پروگرام کر کے پھر لوٹ جاتا ۔ سوچا یہ کب تک چلتا رہے گا؟
ایک پرانے دوست ایڈیٹر صحافی نے‘ جنہوں نے مجھے اسلام آباد میں رپورٹر بنایا تھا‘ مشکل آسان کر دی ۔ اپنے بیٹے ڈاکٹر عاصم صہبائی کو امریکہ فون کیا۔ عاصم کا کہنا تھا وہ اس بیماری کا علاج خود کرتا ہے لہٰذا وقت ضائع نہ کریں اور فوراً امریکہ آجائیں ۔ پاکستانی ڈاکٹرز کہنے لگے باہر جانے کا کیا فائدہ ۔ جو علاج ہم کررہے ہیں، وہی وہاں ہوگا ۔ میں نے کہا ڈاکٹر صاحب اپنے تمام مریضوں کو چھوڑ کر تبلیغ پر نہ جاتے تو شاید ہم خود کو بند گلی میں نہ پاتے۔
کبھی سوچا کہ بچوں سے دور کیسے رہیں گے۔ بہت کوشش کی ڈاکٹر عاصم مان جائیں او رمیں اپنی بیوی کا علاج امریکہ کی بجائے برطانیہ سے کرالوں کیونکہ مجھے وہاں بہت آسانی ہوجائے گی۔ وہاں اجنبی ہونے کا احساس نہیں ہوتا ۔ شعیب، عالیہ ، صفدر بھائی ، ندیم سعید، شکیلہ باجی،مظہر بھائی اور بہت سارے دوست ۔
ویزہ کے لیے اپلائی کرنے لگا تو سب نے کہا کہ میڈیکل کا ویزہ مت مانگنا ۔ نہیں ملے گا۔
تو پھر؟ جواب ملا‘ ٹور کا مانگ لو مل جائے گا۔ میں نے کہا‘ پہلے ہی ہمارے بارے میں دنیا بھر میں مشہور ہے کہ ہم جھوٹ بولتے ہیں۔ ہوسکتا ہے میں بھی جھوٹ بولتا لیکن میرے بیٹے نے بتایا کہ ہمارے سکول کے استاد نے سکھایا ہے کہ اسلام کہتا ہے کہ جھوٹ بولنا اتنی بری بات ہے کہ بولنے والا بھی نہیں مانتا کہ وہ جھوٹ بول رہا ہے۔ا گر جھوٹ بولنا بہت اچھی بات ہوتی تو بولنے والا فخر سے کہتا کہ وہ جھوٹ بول رہا ہے۔ میں کانپ کر رہ گیا ۔اس فقرے کی گہرائی میں جا کر غور کریں تو پتہ چلے گا کہ سکول کے استاد نے کتنی گہری بات بچوںکو سمجھائی ہے۔
میں نے کہا دیکھا جائے گا ، ویزہ نہیںملے گا تو نہ سہی ۔ جن کے پاس میں نے ٹھہرنا ہے میں نہیں چاہتا کسی صبح ان کے گھر پر دستک ہو اور ان کی پوچھ گچھ شروع ہوجائے کہ ان کے مہمان تو جھوٹ بول کر ویزہ لے آئے ہیں۔ کیا میزبانوں کو یہ سزا ملنی چاہیے؟ ویسے بھی امریکیوں سے کیا جھوٹ بولنا جنہوں نے ایک سال میں پاکستان سے تیرہ ارب معلومات چوری کی ہیں اور دنیا کے تقریباً ہر بڑے لیڈر کا فون ٹیپ کیا ہے ‘ ہم ان سے کیسے چھپ سکتے ہیں۔
بیوی کہنے لگی‘ یہیں علاج کراتے رہتے ہیں، کیوں اتنے پیسے خرچ کرتے ہو ۔ بچوں کے کام آجائیں گے۔ میں نے کہا ‘بچوں کو پیسوں سے زیادہ ماں کی ضرورت ہے ۔ میں نے ماں باپ دونوں کو کھو کر دیکھا ہے۔ میں باپ کے قریب تھا لیکن آج بھی مجھے آپشن دیا جاتا کہ ماں اور باپ سے ایک رکھ لو تو میں بغیر سوچے ماں کا کہتا کہ ماں بچ جائے تو گھر بچ جاتا ہے۔ ماں نہ رہے تو کتنا ہی اچھا باپ کیوں نہ ہو، گھر بکھر جاتا ہے۔ اگر بچے لائق ہوئے تو خود رزقِ حلال کما لیں گے، وگرنہ اربوں روپے بھی ان کے لیے تھوڑے ہیں۔ میں ساری عمر ایک بوجھ تلے نہیں جی سکتا۔
بچوں کو چھوڑنا سب سے مشکل مرحلہ تھا ۔ میں نے آسانی سے طے کر لیا اور رات گئے ائیرپورٹ جانے کے وقت چپکے سے گاڑی میں بیٹھ گیا ۔
چھوٹا بیٹا ماں سے چمٹ گیا ۔
امریکہ میں بھائیوں جیسے دوست اعجاز بھائی رہتے ہیں ۔ انہوں نے روزانہ فون کر کے کہا آجائیں ۔ اعجاز بھائی کی حوصلہ افزائی نے ہمت بڑھائی۔
جس دوست سے بھی بات کی‘ سب کا کہنا تھا کہ امریکہ جانا ہے تو پھر اکبر چوہدری سے بہتر اور کوئی نہیں ہے۔ شاہین صہبائی، عامر متین اور انور عزیز چوہدری تک سب نے ایک ہی نام لیا کہ اگر امریکہ میں جائیں اور اکبر چوہدری سے نہ ملیں تو پھر جانے کا کیا فائدہ ۔ ان سب نے اکبر چوہدری کو فون بھی کر دیا۔چوہدری صاحب نے ائیرپورٹ سے لیا اور اپنے گھر لے گئے حالانکہ طے ہوا تھا کہ ائیرپورٹ سے سیدھا Delaware جائوں گا جو واشنگٹن سے اڑھائی گھنٹے کی مسافت پر ہے۔ اکبر چوہدری نے کہا‘ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ آپ میرے گھر نہ رکیں۔ آرام کریں اور پھر چلے جایئے گا۔ اگلے دن وہ مجھے اور میری بیوی کو خود ریاست ڈیلور چھوڑ گئے۔
اکبر صاحب 1981ء میں اوکاڑہ سے امریکہ آئے۔ محنت کی اور آج امریکہ کے ممتاز پاکستانیوں میں شمار ہوتے ہیں ۔ بل کلنٹن اور ہیلری کلنٹن تک سے ذاتی دوستی رہی۔ پاکستانی سفارت کار بھی ان سے مسلسل رابطے رکھتے ہیں ۔ عمران خان بھی اکبر چوہدری کے قریبی دوستوں میں شمار ہوتے ہیں ۔ میرا خیال تھا چوہدری اکبر اپنے نام کی طرح پھنے خاں ہوں گے۔ تاہم ایک سیدھا سادا ہنستا مسکراتا چوہدری میرے سامنے ائیرپورٹ پر کھڑا تھا ۔ ان کی سادگی نے مجھے متاثر کیا۔ ان کی بیگم نرگس بھابی بتانے لگیں کہ عمران خان سے زیادہ سادہ مزاج شخص انہوں نے نہیں دیکھا ۔ عمران خان، چوہدری اکبر کے گھر ٹھہرتے۔ وہ صرف دو شرٹس ساتھ لاتے اور ہر روز کہتے بہن ایک شرٹ پہن لیتا ہوں، دوسری دھو کر استری کر دو ۔ صبح ناشتے میں دہی اور شہد ۔وہ اس حوالے سے کوئی نخرہ نہیں کرتے۔
میں نے پوچھا کہ چوہدری صاحب!عمران خان سے کیسے ملاقات ہوئی۔ کہنے لگے‘ عمران سے اس وقت رابطہ ہوا تھا جب انہوں نے1992ء میں کینسر ہسپتال بنانے کا فیصلہ کیا۔ اکبر چوہدری کی اپنی والدہ کینسر سے فوت ہوئی تھیں لہٰذا مشترکہ دکھ انہیں ایک دوسرے کے قریب لے آیا ۔ عمران خان کو امریکہ بلایا۔ کئی فنکشن کرائے تاکہ چندہ اکٹھا ہو۔ اکبر چوہدری کو کسی سے کوئی غرض یا لالچ نہیں ہے۔ اللہ نے اکبر چوہدری کو بہت دیا ہے۔ گیارہ ستمبر کے حملوں کے بعد کوئی پاکستانی چندے کے چیک ہسپتال بھیجنے کو تیار نہیں تھا کہ کہیں منی لانڈرنگ میں پکڑے نہ جائیں۔ اکبر چوہدری نے ہمت نہیں ہاری کیونکہ انہیں علم تھا کہ ہسپتال کو فنڈز کی ضرورت تھی۔ انہوں نے ایک طریقہ سوچا۔ امریکی صدارت کے سابق امیدوار الگور سے دو ہزار ڈالرز کا
ایک چیک لیا، اس طرح تین دیگر امریکی سینیٹرز سے بھی شوکت خانم ہسپتال کے لیے چندے کے چیک لیے۔ ان کی فوٹو کاپیاں کرا کے پاکستانیوں میں بانٹیں تاکہ ان کا حوصلہ بڑھایا جائے کہ اگر کل کلاں کسی نے پوچھ لیا تو وہ یہ چیک دکھا سکتے ہیں کہ امریکی سینیٹرز نے بھی شوکت خانم کو چندہ دیا تھا۔
ابھی بھی اکبر چوہدری نے ساڑھے پانچ لاکھ ڈالرز کا چندہ اکٹھاکر کے ہسپتال کو بھیجا ہے۔ تاہم میں نے اکبر چوہدری کو عمران خان سے مایوس دیکھا ۔ کہنے لگے کہ خود عمران اچھا آدمی ہے۔ ایماندار ہے۔ سادہ مزاج ہے۔ تاہم اب امریکہ میں پاکستانیوں میں یہ بات عام ہونے لگی ہے کہ ان کے گرد ایسے لوگ ہیں جو عام پاکستانی سیاستدانوں کی طرح ہیں۔ وہ سب سے مایوس ہوچکے ہیں اور ان سے کسی کو کوئی توقع نہیں رہی ۔
گاڑی چلاتے ہوئے اکبر نے مجھ سے پوچھا اب کیا کریں ؟ عمران سے امید تھی لیکن لگتا ہے بات نہیں بنی ۔ اب مجھے امریکہ میں مقیم پاکستانی روزانہ فون کر کے پوچھتے ہیں کہ چوہدری صاحب اب بتائیں کیا کرنا ہے۔
جب واشنگٹن سے ڈیلور کے لیے روانہ ہوئے تو بارش شروع ہوگئی تھی ۔ چوہدری اکبر مجھ سے بار بار پوچھتے رہے ‘ اب کس کو اپنا لیڈر مانیں اور ملک کو کیسے مشکلات سے نکالیں ۔ کیا کریں۔
اوکاڑہ سے 35 برس قبل اپنا گائوں ،گھر اور سب کچھ چھوڑنے والا سادہ مزاج والاانسان ابھی تک امریکی نہیں بن سکا تھا ۔ اپنی دھرتی ماں کی محبت میں گرفتار یہ شخص پاکستان کے لیے پریشان اور کسی نئے لیڈر کی تلاش میں تھا جب کہ میں بارش میں بھیگتی گاڑی کے شیشوں کے درمیان میں سے دور دور تک پھیلے امریکی فارم ہائوسز اور سڑک کنارے درختوں کی طویل قطاروں کی خوبصورتی کے درمیان اپنی دھرتی ماں سے ہزاروں میل دور اجنبی سرزمین پر اجنبی لوگوں کے درمیان اپنے آپ کو تلاش کرنے کی کوششوں میں لگا ہوا تھا۔