علم کی کرنیں کونے کونے میں بکھیرنے کے لیے ٹھوس لائحہ عمل اپنایا ہے... شہباز شریف
خادم اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ ''علم کی کرنیں کونے کونے میں بکھیرنے کے لیے ٹھوس لائحہ عمل اپنایا ہے‘‘ کیونکہ سرکاری سکولوں میں جو جانور بندھے ہوتے ہیں اور جو روشنی وہ بکھیر رہے ہیں ہمارے نزدیک علم کی کرنیں ہیں اور وہاں جو اساتذہ سکولوں سے غیر حاضر رہتے ہیں وہ اپنے طور پر علیحدہ یہ کرنیں بکھیرنے میں مصروف رہتے ہیں جبکہ لاتعداد گھوسٹ سکول بھی اپنے اپنے طور پر اس کارِ خیر میں مصروف ہیں اور سونے پر سہاگہ یہ ہے کہ جو پیسہ سکولوں اور ہسپتالوں کی حالتِ زار بہتر بنانے پر خرچ ہونا چاہیے وہ میٹرو بس وغیرہ کے منصوبوں پر اس لیے صرف کیا جا رہا ہے کہ علم کی روشنی کو تیزی سے ملک کے کونے کونے میں سفر بھی کرنا چاہیے۔ علاوہ ازیں جابجا میلے لگانے اور مختلف ریکارڈز پیدا کرنے اور توڑنے کا عظیم مقصد بھی یہی ہے‘ کیونکہ علم کی کرنیں اس صورت میں بھی پھیلا کرتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ''ترقی پسند معاشرے کی تشکیل کے لیے ایک دوسرے کی رائے کا احترام ضروری ہے‘‘ اور اسی سلسلے میں طالبان کی ہر رائے کا احترام بھی کیا جا رہا ہے اور امید ہے کہ مستقبل قریب یا بعید میں وہ بھی ہماری رائے کا احترام کرنے لگیں گے۔ آپ اگلے روز لاہور میں ایک وفاقی وزیر سے ملاقات کر رہے تھے۔
حکومت غیر عسکری قیدی چھوڑنے
پر متفق ہے... رستم مہمند
طالبان سے مذاکرات کے لیے حکومتی کمیٹی کے رکن رستم شاہ مہمند نے کہا ہے کہ ''حکومت غیر عسکری قیدی چھوڑنے پر متفق ہے‘‘ اور رفتہ رفتہ عسکری قیدی چھوڑنے پر بھی متفق ہو جائے گی کیونکہ حکومت اتفاق پر یقین رکھتی ہے‘ جبکہ ہم دعا کرتے ہیں کہ طالبان بھی ہمارے قیدیوں کو رہا کرنے پر متفق ہو جائیں جو غیر عسکری ہیں اور بندوق تو کیا‘ غلیل چلانا بھی نہیں جانتے۔ علاوہ ازیں اب سنتے ہیں کہ انہوں نے جنگ بندی کی میعاد بھی نہ بڑھانے کا فیصلہ کیا ہے اور یہ فیصلہ انہوں نے بھی متفق ہو کر کیا ہے جس پر اطمینان کا اظہار کرنا چاہیے کہ حکومت کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے‘ وہ بھی کم از کم ایک مسئلے پر تو متفق ہو گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ''طالبان قیادت سے پولیو ٹیموں پر حملے نہ کرنے کی یقین دہانی لیں گے‘‘ کیونکہ فی الحال ان سے یہی یقین دہانی حاصل کرنے کی کچھ امید ہے‘ ورنہ ایسا لگتا ہے کہ وہ اپنی کارروائیاں بہت جلد شروع کردیں گے اور اس کارنامے کا دوبارہ آغاز بھی وہ متفق ہو کر ہی کریں گے جبکہ اتفاق میں ویسے بھی بڑی برکت ہے۔ آپ اگلے روز پشاور میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
آرمی چیف کا بیان حکومت کے لیے
نہیں ہے... عابد شیر علی
وزیر مملکت برائے پانی و بجلی چودھری عابد شیر علی نے کہا ہے کہ ''آرمی چیف کا بیان حکومت کے لیے نہیں ہے‘‘ بلکہ قوی امکان یہ ہے کہ وہ کسی خلائی مخلوق کے لیے ہے کیونکہ حکومتی وزراء تو ہر وقت اس ادارے کی تعریف میں رطب اللساں رہتے ہیں جن میں وزیر دفاع اور وزیر ریلوے بطور خاص شامل ہیں اور فوج کو چاہیے کہ اس غیر مرئی مخلوق کے خلاف فوراً آپریشن شروع کر کے اسے چھٹی کا دودھ یاد دلا دے جو غالباً حافظے کی کمزوری کے باعث اسے بھولا ہوا ہے کیونکہ طالبان کے خلاف آپریشن کی ہدایت دینے سے حکومت بوجوہ قاصر ہے ۔انہوں نے کہا کہ ''حکومت فورسز کو مضبوط بنائے گی‘‘ بشرطیکہ اس مضبوطی کی زد میں کہیں حسبِ معمول ہم ہی نہ آ جائیں۔ اللہ معاف کرے! آپ اگلے روز اسلام آباد میں ایک وفد سے ملاقات کے بعد صحافیوں سے بات چیت کر رہے تھے۔
احمد عطاء اللہ
اور اب احمد عطاء اللہ کے تازہ مجموعۂ کلام ''ہمیشہ‘‘ میں سے کچھ اشعار جو العصر پبلی کیشنز لاہور نے چھاپا ہے:
اس خاک کے ذرے مری پلکوں پہ جڑے تھے
وہ خاک جو میں نے ابھی چھانی بھی نہیں تھی
وہ پہلی محبت تھی عطاَ پہلی محبت
اور راس ہمیں دوسری آنی بھی نہیں تھی
اپنی اپنی پڑی ہے سب کو یہاں
اور ہمیں آپ کی پڑی ہوئی ہے
کچھ تو یہ صبح لائی ہے ا مید
اور کچھ رات کی پڑی ہوئی ہے
عطاؔ بے صبر لوگوں کے کبھی برتن نہیں بھرتے
گزارا کرنے والوں کا گزارا ہونے لگتا ہے
شہر سے ہم چل پڑے پہچان کرنے کے لیے
گائوں میں اک شکل تھی حیران کرنے کے لیے
مل گئی تنخواہ تو اب دور تک کوئی غریب
ڈھونڈتا پھرتا ہوں میں احسان کرنے کے لیے
گائوں کے کچّے سکولوں کی پڑھی لڑکی‘ سُن
شہر والوں کو ترا خواب نہیں آ سکتا
وہم تھا دو دلوں کے بیچ عطاؔ
ہم سمجھتے رہے کہ تین ہیں ہم
شہر پہنچا تو یہی سوچ کے آنکھیں پونچھیں
میرا ہوتا تو مرے ساتھ بھی آیا ہوتا
کاٹے نہیں کٹتی ہے یہ جنت کی اداسی
مر جائیں گے دنیا میں اتارا نہ گیا تو
تجھ کو قتل کریں گے اور پھر یاد میں تیری
تیرے نام کا سکہ جاری کر دیں گے
بس جائیں گے ہم خود تو کسی اور کنارے
اور دھیان کسی اور کنارے میں رہے گا
میں اس لیے بھی اُگاتا ہوں سایہ دار درخت
زمین! تجھ پہ سدا آسماں نہیں ہوگا
یہ آسمان کئی ہیں خلا کی وسعت میں
زمین! تجھ سا کوئی خاکداں نہیں ہوگا
ہاتھ باندھے جو قطاروں میں کھڑے ہیں اشجار
ان کو بھی عرضِ تمنا کی سہولت دی جائے
جادو ٹونے سے لوٹ آتے تھے
لوگ اچھے تھے اُس زمانے میں
بوڑھے ماں اور باپ کے واسطے دے دے کر
خود کو روک رہا ہوں پاگل ہونے سے
ہمیشہ بازگشت آتی رہے گی
مجھے اتنا پکارا جا چکا ہے
آج کا مقطع
بھولا ہوا ہے شہر کا نقشہ ہی ظفرؔ کو
حالانکہ یہاں وہ کئی بار آیا ہوا ہے