تحریر : علامہ ابتسام الہٰی ظہیر تاریخ اشاعت     09-04-2014

جہیز‘معاشرتی لعنت

7اپریل کو روزنامہ دنیا سمیت پاکستان کے تمام بڑے اخبارات میں ایک رپورٹ شائع ہوئی جس کے مطابق پاکستان میں جہیز کی لعنت کی وجہ سے ہر سال تین سو خواتین تذ لیل برداشت کرتی ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق طلاق کے چالیس فیصد مقدمات میں جہیز کا عمل دخل ہوتا ہے جب کہ سسرال کی طرف سے تشدد کا نشانہ بننے والی نوے فیصد خواتین اس لیے ظلم سہتی ہیں کہ ان کے والدین سسرالیوں کی خواہشات پوری کرنے کی سکت نہیں رکھتے ۔اس رپورٹ کے آخر میں یہ بتایا گیا کہ تذلیل اور تشدد سہنے کے علاوہ ہر سال چھ ہزار کے لگ بھگ خواتین جہیز کی وجہ سے شادی سے محروم رہ جاتی ہیں ۔
والدین اپنی بیٹی کو اپنی مرضی سے گھر سے رخصت کرتے وقت تحفے تحائف اور ضروریات کی کچھ چیزیں ہدیہ کرسکتے ہیں لیکن داماد اور اس کے گھر والوں کے لیے جہیز کی ایک لمبی فہرست کو لڑکی کے گھروالوں کے حوالے کرنے کی قرآن وسنت میں اور اخلاقی لحاظ سے کوئی گنجائش نہیں ہے ۔اللہ تعالیٰ نے سورہ نساء کی آیت نمبر 29میں ارشاد فرمایا ہے ''اے ایمان والو!آپس میں ایک دوسرے کا مال باطل طریقے سے نہ کھاؤمگر یہ کہ تمہاری آپس میں رضامندی سے تجارت ہو ‘‘۔قرآن مجید کی آیت مبارکہ مسلمانوں کو دعوت فکر دے رہی ہے کہ تجارت کے علاوہ دیگر ذرائع سے کسی کا مال بٹورنا درست نہیں ہے ۔
بیٹے اور بیٹیاں اللہ تعالیٰ کی عطا ہیں اور بیٹیوں کی پیدائش پر غم زدہ ہونا جاہلیت کی نشانی ہے لیکن جب ہم معاشرے کے رسم و رواج پر غور کرتے ہیں تو اس حقیقت کو سمجھنا کچھ مشکل نہیں رہتا کہ سفید پوش اور غریب لوگ بیٹیوں کی پیدائش پر کیوں غم زدہ ہوتے ہیں۔ بیٹیوں کی تعلیم و تربیت کا اہتمام کرنے کے باوجود بھی جب معاشر ہ شادی کے وقت ان کے گھر والوں سے تاوان کا مطالبہ کرتا ہے تو متوسط اور غریب گھرانے کے لوگ قرضہ اُٹھانے پر مجبور ہوجاتے ہیں ۔
لڑکے والے لڑکے کی تعلیم اور آمدن کو بھرپور طریقے سے فروخت کرتے ہیں۔ لڑکا جتنازیادہ تعلیم یافتہ ہو جہیزبھی اتنا ہی زیادہ مانگا جاتا ہے ۔گو کہ اچھی ملازمت اور مناسب کاروبار کے حامل لڑکے کو اپنے گھر بار کے انتظام اورانصرام کے لیے لڑکی والوں کے تعاون کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی لیکن پھر بھی گھریلو سازوسامان کے علاوہ لڑکی والوں سے سامانِ تعیشات کا بھی بھر پور طریقے سے مطالبہ کیا جاتا ہے۔ یہ مطالبہ شادی کے دن کے بعد ختم نہیں ہوجاتابلکہ خوشی کے ہر موقع پر مختلف قسم کے حیلے بہانوں کے ذریعے سے یہ مطالبات جاری رہتے ہیں ۔دینی تعلیمات سے دوری کی وجہ سے اس قسم کے مطالبات کوکسی بھی طریقے سے غلط نہیں سمجھا جاتا اور کوئی اصلاح کرنے والا اچھی نصیحت کرے تو اس کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے ۔ 
اگر دیانت داری سے جہیزکی رسم کا تجزیہ کیا جائے تو یہ گدا گری کی ایک جدید شکل ہے جس میں لڑکی والوں سے موقع بموقع بلاضرورت کچھ نہ کچھ مانگا جاتا ہے ۔خیرات حاصل ہونے کی صورت میں وقتی طورپر خاموشی اختیار کر لی جاتی ہے اور نہ ملنے کی صورت میں مختلف طریقوں سے لڑکی کو ذہنی اذیت دی جاتی ہے۔ لڑکی کی کفالت کرنا مرد کی ذمہ داری ہے اور سورۃ نساء کی آیت نمبر 19میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں ''ان کے ساتھ اچھے طریقے سے زندگی گزارو‘‘۔جو شخص معروف طریقے سے اپنی ذمہ داریوں کو پورا نہیں کرسکتا اسے نکاح کرنے کا کوئی حق حاصل نہیں ہے ۔نبی کریم ﷺ نے بلاجواز مانگنے کی شدید مذمت کی ہے۔ آپ ﷺ کی متعدد احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ایسا عمل درحقیقت شرف انسانیت کے خلاف ہے اور ہر غیرت مند مسلمان کو اس قسم کے رویے سے اجتناب کرنا چاہیے ۔اس حوالے سے نبی کریم ﷺ کی چند احادیث درج ذیل ہیں :
1۔بخاری و مسلم شریف میں حدیث ہے جس کے راوی عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا :'' آدمی سوال کرتا رہے گا یہاں تک کہ قیامت کے دن اس حال میں آئے گا کہ اس کے چہرے پر گوشت کا کوئی ٹکرا نہ ہوگا ‘‘۔ 2۔سنن ابو داؤد‘ سنن ترمذی ، سنن نسائی ،ابن حبان ،مسند احمد اور طبرانی میں الفاظ کے اختلاف سے روایت نقل کی گئی ہے کہ رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں :سوال ایک قسم کی خراش ہے کہ آدمی سوال کرتے ہوئے اپنے منہ کو نوچتا ہے جو چاہے اپنے منہ پر خراش کو باقی رکھے جو چاہے چھوڑ دے ‘‘۔ہاں آدمی اگر صاحب سلطنت سے اپنا حق مانگے یا ایسے امر میں سوال کرے کہ اس کے بغیر چارہ نہ ہو۔3۔امام بیہقی نے اس روایت کو نقل کیا ہے کہ رسول اللہﷺ فرماتے ہیں '' جس پر فاقہ نہ گزرے اورنہ اتنے بال بچے ہوں جن کی طاقت نہیں اور وہ سوال کا دروازہ کھولے تو اللہ تعالیٰ اس پر فاقے کا دروازہ کھولے گا ایسی جگہ سے جو اس کے خیال میں بھی نہیں ہوگی‘‘۔4۔صحیح بخاری‘ صحیح مسلم ،موطا امام مالک ،سنن نسائی ،سنن ابو داؤد میں روایت ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ منبر پر تشریف فرما تھے اور صدقہ اور سوال سے بچنے کا ذکر فرما رہے تھے۔ آپ ﷺ نے فرمایا :''اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہے۔ اوپر والا ہاتھ خرچ کرنے والا ہے اور نیچے والا ہاتھ مانگنے والا ہے ‘‘۔5۔ امام احمدبزاز اور امام طبرانی نے حضرت عمران بن حصین رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت نقل کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں ''آسودہ حال کا سوال کرنا قیامت کے دن اس کے چہرے میں عیب ہوگا ‘‘۔6۔ سنن ابن ماجہ میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا :''جو مال بڑھانے کے لیے سوال کرتا ہے وہ انگارے کا سوال کرتا ہے۔ چاہے زیادہ مانگے یا کم ‘‘۔7۔ صحیح مسلم ،سنن ابو داؤد اورنسائی میں حدیث ہے کہ حضرت قبیصہ بن مخارق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ آپ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ مجھ پر تاوان لازم آیاتو میں نے رسول کریم ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہو کر سوال کیا۔ فرمایا ٹھہرو ہمارے پاس صدقے کا مال آئے گا اور تمہارے لیے حکم فرمائیں گے ۔پھر فرمایا ''اے قبیصہ! سوال جائز نہیں مگر تین باتوں میں‘ اگر کسی نے ضمانت کی ہو تو اس کے لیے سوال جائز ہے یہاں تک وہ مقداربھر پائے،پھر باز رہے یا کسی پر آفت آئی اور اس کے مال کو تبا ہ کردیا گیا ہو تو اس کے لیے جائز ہے یہاں تک کہ بسر اوقات کے لیے پا ئے یا کسی کو فاقہ پہنچا اور تین عقلمند لوگ گواہی دیں کہ اس کو فاقہ پہنچا ہے تو اس کے لیے جائز ہے یہاں تک کہ بسر اوقات کے لیے حاصل ہوجائے اور ان باتوں کے سوا اے قبیصہ !سوال کرنا حرام ہے اور سوال کرنے والا حرام کھاتا ہے ‘‘۔8۔امام احمد ،ابویعلیٰ،بزاز اور امام طبرانی نے اس حدیث کو نقل کیا ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ ''صدقے سے مال کم نہیں ہوتا اور حق معاف کرنے سے قیامت کے دن اللہ تعالیٰ بندے کی عزت اور بڑھائے گااور کوئی سوال کا دروازہ نہیں کھولتا مگر اللہ تعالیٰ اس پر محتاجی کا دروازہ کھولے گا ‘‘۔ مذکورہ بالا تما م احادیث میںسوال کرنے کی مذمت اور انسان کو خود داری اور باوقار طریقے سے زندگی گزارنے کی تلقین کی گئی ہے۔ مانگنے سے انسان کی عزت میں کمی واقع ہوتی ہے جبکہ قناعت سے انسان کی قدر و منزلت میں اضافہ ہوتا ہے ۔
ہمارے معاشرے میں جہیز کی لعنت کی بہت بڑی وجہ داماد اور بہو کاغلط انتخاب بھی ہے۔ عام طور پر رشتے حسن ،مال اور حسب ونسب کی بنیاد پر کیے جاتے ہیں جبکہ شرافت اور دین داری کو اہمیت نہیں دی جاتی ۔اگر کردار اور تقویٰ کو دیگر اوصاف پر ترجیح دی جائے تو معاشرے سے اس قسم کی غلط رسومات کا باآسانی خاتمہ ہوسکتا ہے اس لیے کہ ایک دین دارداماد اس حقیقت کو اچھی طرح سمجھتا ہے کہ رزق اور مال کی تقسیم اللہ رب العزت کے ہاتھ میں ہے اور کسی بھی انسان کے شان شایان نہیں کہ اپنے خالق و مالک کو چھوڑ کر مخلوق کے سامنے اپنی ضرویات اور آسائشات کے حصول کے لیے ہاتھ پھیلائے۔اگر رشتوں کے انتخاب کے دوران لالچ کی بجائے قناعت ،دنیا کی بجائے دین اور ہنر کی بجائے کردار کو ترجیح دی جائے تو جہیز جیسے معاشرتی ناسور پر باآسانی قابو پایا جاسکتا ہے ۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved