مرزا غالب آج کے دور میں ہوتے تو یقیناً اِک گونہ بے خودی دینے والی مے ناب کا بجٹ بھی نوحہ گروں کی جھولی میں ڈال دیتے کہ جو کچھ حکومتِ وقت کا رویہ ہے اور جیسے پاکستان کے حالات ہیں ایسے میں ایک نوحہ گر سے کام نہیں چل سکتا، جگر پیٹنے اور سر پر خاک ڈالنے کے لیے کئی نوحہ گر بھی کم پڑ جائیں۔ ملک کے ایک کونے سے روز اطلاع آتی ہے کہ سینکڑوں افرادکی قحط سے ہلاکت کے بعد بھی بچوں کے بھوک سے مرنے کا سلسلہ جاری ہے۔ بلوچستان پہلے سُلگ رہا تھا پھر جلنا شروع ہوا اور اب الائو کا منظر پیش کر رہا ہے۔ کراچی میں آئی جی جا رہا ہو یا آ رہا ہو دس سے پندرہ میتوں کی سلامی تو لازمی ہے۔ دھماکے ہیں کہ رکنے کا نام ہی نہیں لے رہے۔
خیال تھا کہ بڑے گروپ سے مذاکرات کے دوران ہی سہی دھماکوں میں کچھ کمی آئے گی مگر ملک کے طول و عرض میں ہر دوسرے چوتھے روز ہونے والے دھماکے‘ جن کی مذمت خود طالبان بھی کرتے پائے جاتے ہیں، یہ صاف بتا رہے ہیں کہ طالبان سے مذاکرات کامیاب ہو گئے تب بھی دھماکے رکنے والے نہیں۔ ایسے میں نہائے گی کیا سکھائے گی کیا کے مصداق اسحاق ڈار صاحب نے معیشت میں سدھار کے نام پہ جو تھوڑی بہت 'جگلری‘ دکھائی، چاہیے تو یہ تھا کہ جتنی دیر عوام اس سراب کے سحر میں رہتے، حکومت سنجیدہ اور ٹھوس اقدامات کر کے پاکستان، اس کی سماجیات اور معاشیات کو ٹریک پہ ڈالنے کی کوشش کرتی۔ پر کیا کریں، جو لوگ جیتے ہی اپنے لیے ہوں، جن کے پیش نظر صرف اور صرف اولاد اور خاندان کی ترقی اور 'سروائیول‘ ہی زندگی کا نصب العین ہو، ان کی اپنی کھالوں کا تو پتہ نہیں البتہ ان کی انائوں کی کھالیں بہت باریک ہوا کرتی ہیں۔ پل میں استحقاق مجروح ہوتا ہے اور ایسا مجروح ہوتا ہے کہ دہائیاں گزر جانے پہ بھی توہین کا احساس جان نہیں چھوڑتا۔ اگر نظام کی صحیح معنوں میں اصلاح مقصود ہو تو یقیناً دوسرے اداروں کے ساتھ ساتھ اپنی منجی کے نیچے بھی ڈانگ پھیری جائے۔ میں تو اب بھی کہتا ہوں کہ اگر اتنا شور مچ ہی گیا ہے تو کیوں نا مختلف دبائو تلے آ کے ہی سہی، ہر اس شخص کو عبرت کا نشان بنا دیا جائے جس نے بارہ اکتوبر کے بعد آمر اور آمرانہ حکومت کا ساتھ دیا، اسے جائز قرار دیا اور بغیر مانگے آمر کو کئی سال حکومت کی اجازت دی۔ غضب خدا کا! ایسا تو عدالتی تاریخ میں شاید اس جج نے بھی نہ کیا ہو جس کی کن پٹی پر پستول رکھ کے کسی آمر نے اپنے جائز ہونے کے پروانے پر دستخط مانگے ہوں۔ آئین اور آرٹیکل چھ پر یقیناً عمل ہونا چاہیے مگر ہونا پوری دیانتداری اور پوری روح کے ساتھ چاہیے ورنہ امیر مقام سے زاہد حامد تک اور ماروی میمن سے لے کر دیگر کئی وزراء تک کی پارلیمان اور وزیر اعظم کے اردگرد موجودگی جمہوریت، خواجہ سعد رفیق اور پرویز رشید جیسوں کا منہ چڑاتی رہے گی۔ اور اگر ایسا نہیں کر سکتے اور صاحب خوب جانتے ہیں کہ وہ ایسا نہیں کر سکتے کہ جہاں عرب ممالک سے لے کے یورپ اور برطانیہ تک اکائونٹس، رقوم اور کارخانوں کی قطاریں اور انبار لگے ہوں وہاں نیویں نیویں ہو کے بس مال بنانا ہی ٹھیک ہوا کرتا ہے، بڑھکیں مارنے کا انجام کبھی کبھی بھاری نقصان کی صورت میں ادا کرنا پڑ جاتا ہے اور تاجروں سے نقصان کہاں برداشت ہوتا ہے صاحب۔ تاجر صرف 'گلّے‘ میں نفع دیکھنے کا عادی اور خواہش مند ہوتا ہے۔ اگر لیڈر بننے کی کوشش کرے بھی تو بھی ایک آدھ بڑھک لگا کر 'گلّے‘ کو خطرے میں پا کر فوراً 'گلّے‘ پہ جا بیٹھتا ہے۔
دل دریا سمندروں ڈونگھے... لہٰذا پوائنٹ ون پرسنٹ یہ تصور کر لیا جائے کہ سب کچھ جمہوریت اور ملک کی خاطر ہی ہے تو سو بسم اللہ ! بارِ دگر عرض ہے کہ ہر اس شخص کو کٹہرے میں لائیں جو آئین شکن ہے تھا یا جس نے آمر کا ساتھ دیا۔ یقین جانیں اگر ایسا کر لیا جائے تو کسی ادارے کی طرف سے کوئی تنبیہ کبھی موصول نہیں ہو گی مگر کڑوا کڑوا ہپ ہپ میٹھا میٹھا تھو تھو کا رویہ کہیں چھپکلی کی طرح حلق میں نہ اٹک جائے کہ نہ اُگلا جائے نہ نگلا جائے۔
ملک میں ہر طرف آگ لگی ہے، ایسے میں تاجر نما سیاستدان بڑھکوں کا تیل چھڑک کر آگ کو بڑھاوا دینا چاہتے ہیں تو مرزا کیوں نہ یاد آئیں ؎
حیراں ہوں دل کو روئوں کہ پیٹوں جگر کو میں
مقدور ہو تو ساتھ رکھوں نوحہ گر کو میں