تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     10-04-2014

عقل جہاں رکتی ہے

عارف نے یہ کہا تھا : عقل جہاں رکتی ہے ، وہیں بت خانہ تعمیر ہوتاہے ۔ 
جی چاہتاہے کہ کور کمانڈر ز کانفرنس کے بارے میں آئی ایس پی آر کے پریس ریلیز کو مان لیا جائے... معمول کا ایک اجلاس ۔ کیسے مگر مان لیا جائے؟ وزیرِ دفاع جب یہ جتلا رہے ہوں کہ بالاتر ادارہ پارلیمان ہے اور سپہ سالار یہ کہہ چکے ہوں کہ ہر قیمت پر فوج اپنے وقار کا تحفظ کرے گی تو یہ معمول کا اجلاس کیسے رہے گا؟ظاہر ہے کہ برملا اظہار سے پہلے گزارش کی ہوگی ۔ اسد اللہ خاں غالبؔ کی التجا بھی نظر انداز ہوئی ہوگی تو گداز شعر میں ڈھلا ہوگا ؎ 
جمع کرتے ہو کیوں رقیبوں کو 
اک تماشا ہوا گلہ نہ ہوا
آدمی ضبط کرتا ہے مگر تابہ کے ؟ اوّل اشارہ ، پھر واضح اشارہ ، پھر فریاد ؎ 
پھول کی پتی سے کٹ سکتاہے ہیرے کا جگر
مردِ ناداں پر کلامِ نرم و نازک بے اثر
دوسری تصویر اس شہ دماغ نے بنائی تھی ، جس کے کلام کو برصغیر کی دوسری الہامی کتاب کہاگیا ؎ 
دل میں پھر گریے نے اک شور اٹھایا غالبؔ 
آہ جو قطرہ نہ نکلا تھا، سُو طوفاں نکلا
خواجہ سعد رفیق تو پھر بھی نظرِ ثانی پہ آمادہ رہتے ہیں‘ اپنے دوست جاوید ہاشمی کی طرح جو گاہے بالکل ہی معاف کر دیتے ہیں مگر خواجہ آصف ؟ مچھلی پتھر چاٹ کر لوٹتی ہے ؎ 
مری تعمیر میں مضمر ہے اک صورت خرابی کی
ہیولا برقِ خرمن کا ہے خونِ گرم دہقاں کا 
پچیس برس ہوتے ہیں ، سیّد صابر شاہ لاہور کے انکم ٹیکس کمشنر تھے ۔ حسِ مزاح ایسی کہ دلدار پرویز بھٹی ایسے شخص کو رلا دیا تھا۔ ایک بار کہا : بھائی کمتر حیوان نہیں ، میں شیر ہوں ۔ دنیا بھر میں بیوی کے سوا کسی سے ڈرتا نہیں ۔ دن بھر دفتر میں دھاڑتا ہوں‘ شام اپنی پسند سے گزارتا ہوں ۔گھرمیں داخل ہوتے ہی چپ سادھ لیتا ہوں ، شیر کی طرح ۔ اس کی خصوصیت یہی ہے وگرنہ ایسے جانور بھی ہیں کہ خوف زدہ ہونے کے باوجود خاموش نہیں ہو پاتے ۔ 
چیخنے چلّانے والوں نے تھوڑی سے پسپائی اختیار کر لی ہے ، کچھ اور کر لیں گے ۔ سب ہوش مند جانتے ہیں کہ اصل مسئلہ مگر یہ نہیں۔ 
کل بلوچستان کے علیحدگی پسندوں نے گاڑی کے بے گناہ مسافروں کو زندہ جلا دیا‘ سمجھوتہ ایکسپریس میں آگ لگانے والے ہندو خونخواروں کی طرح ۔ آج اسلام آباد کی سبزی منڈی میں قیامتِ صغریٰ کا منظر دیکھا ۔ ایک عشرہ ہوتاہے ، شعیب بن عزیز نے چیخ کر کہا تھا ؎ 
روکے کوئی دستِ اجل کو 
ہمارے لوگ مرتے جا رہے ہیں 
کون روکے گا ؟ دہشت گردی کا ذمہ دار کوئی بھی ہو۔ چلیے تنہا پرویز مشرف ہی سہی‘ روکنے کی فکر مگر کس کو ہے ؟ خدانخواستہ گھر کو آگ لگ جائے تو فریاد سے نہیں بجھتی ۔ حواس برقرار رکھنا ہوتے ہیں، بجلی کا بڑا سوئچ بند کیا جاتاہے ،پانی ڈالنا ہوتاہے ۔ فقط فوج کا نہیں اوّلا ً یہ پولیس کا کام ہے‘ سول انٹیلی جنس اداروں کا‘ حکومت کا اور وفاق سے پہلے صوبائی حکومت کا ۔ متحدہ مجلسِ عمل کی ذمہ داری تھی کہ مولوی فضل اللہ کو ابتدا ہی میں روک دے ۔ الٹا وہ اس کی حوصلہ افزائی کرتے رہے ۔ ان کا ہم مسلک تھا، خود وہ دہشت گرد نہ تھے مگر عملاً انہیں اس پر اعتراض بھی کوئی نہ تھا۔ فوج طلب کرنے سے انہوں نے گریز کیا ، حتیٰ کہ زخم بگڑ کر ناسور بن گیا۔ تین ماہ ہوتے ہیں ، ٹیلی ویژن کے ایک پروگرام میں وقفے کے دوران جمعیت علمائے اسلام کے ایک سینیٹر نے کہا : طالبان کا کوئی وجود ہی نہیں‘ یہ آئی ایس آئی اور سی آئی اے کا اشتراک ہے ۔ وہی قتل کرتے ہیں اور وہی واویلا۔ آف دی ریکارڈ تھا؛چنانچہ نام نہیں لکھ رہا۔ گواہ موجود ہے اور ان ارکانِ پارلیمنٹ سے زیادہ صادق و امین جن کی غیرت خواجہ آصف نے جگانے کی کوشش کی۔ 
یہ بات ان لوگوں کی سمجھ میں کیوں نہیں آتی کہ ایک شائستہ جمہوری نظام میں سپریم کوئی نہیں ہوتا بلکہ صرف آئین۔ ایک مشین کے بہت سے کل پرزے‘ ان میں سے کسی ایک کے بغیر بھی کام نہیں چل سکتا۔ رہی موجودہ پارلیمان تو یہ بالکل ہی کچھ نہیں ۔ فوجی حکومت تو فوجی حکومت ہی ہوتی ہے ، قائد اعظم کے بعد پاکستان میں کبھی کوئی جمہوری حکومت بھی جمہوری نہیں رہی بلکہ اقتدار ِ محدودیہ (Oligrachy)... ایک چھوٹے سے گروہ کی حکومت۔ مرکز اور پنجاب میںیہ شریف خاندان کا اقتدار ہے۔ محترمہ مریم نواز کو سیاست میں متحرک کرنے کے لیے 100ارب روپے مختص ہوئے ۔ جناب حمزہ شہباز شریف ڈپٹی وزیراعلیٰ پنجاب ہیں ۔ میاں محمد شہباز شریف کے بھیجے ہوئے افسراسلام آباد میں قطار اندر قطار آئے ۔ وزرا کے انتخاب کا معیار کیا ہے؟ سب جانتے ہیں۔ جسے پیا چاہے وُہی سہاگن۔ سندھ میں زرداری خاندان کو اقتدار حاصل ہے ۔ ایک حکومت باپ کی، دوسری بیٹے کی۔ تفصیل کی کیا ضرورت ، تیسری اور چوتھی بھی ۔ پختونخوا میں پرویز خٹک کا اپنا علیحدہ گروپ ہے ۔ 14ہم خیال ان کے مقابل ۔جہانگیر ترین ان کے سوا۔ بلوچستان میں البتہ ایک جمہوری تجربہ جاری ہے اور نواز شریف اس پر داد کے مستحق ہیں ۔ کوئٹہ میں دیکھا کہ وزیراعلیٰ ، چیف سیکرٹری، انسپکٹر جنرل پولیس اورآئی جی ایف سی ایک ٹیم کی طرح کام کرتے ہیں ۔ کور کمانڈر خوش دلی سے ان کی پشت پناہی کرتے ہیں ۔ نتیجہ یہ کہ اغوا برائے تاوان میں 80فیصد اور جرائم میں مجموعی طور پر 30فیصد سے زیادہ کمی آئی ہے ۔ سولہ سو کلومیٹر کی پاک ایران ، پاک افغان سرحد کے باوجود، جس کی نگہبانی فی الحال تقریبا ناممکن ہے۔ اس کے باوجود کہ ملک بھر کے جرائم پیشہ اور دنیا بھر کی خفیہ ایجنسیاں متحرک ہیں‘ خاص طور پر بھارت، انکل سام اورپاکستان کی سرپرستی پر تلی ایم آئی سکس کے علاوہ بعض عرب ممالک کے کارندے بھی ۔ دوست اور رشتے دار اگر حاسد ہوں تو شاید بدترین ہوتے ہیں ۔ 
بلوچستان کے دھماکے کی ذمہ داری قبول کر لی گئی ۔طالبان نے اسلام آباد کے مقتولین سے اظہارِ ہمدردی کیا ۔ پھر یہ کون ہے؟ طالبان اگر نہیں تو ظاہر ہے کہ انکل سام، ''راـ‘‘ یا افغانستان کی خدمتِ اطلاعاتِ دولتی۔ لوگ تو لیکن ہمارے ہیں ۔ انصار الہند ؟ نام ہی کافی ہے ۔ اس اخباری اطلاع کی تردید ابھی تک نہیں آئی کہ حضرت مولانا قاسم نانوتوی کے پڑپوتے عمر قاسمی اس کے سربراہ ہیں اور بھارت میں مقیم ۔ مان لیا کہ جھوٹ ہے مگر تردید کی زحمت ہی کر لیجیے ۔ ایک عشرہ ہوتاہے‘ جامعہ اشرفیہ لاہور میں ایک مکتبِ فکر کے علما کا اجتماع ہوا۔خود کش حملوں کی مذمت سے انہوں نے انکار کر دیا‘ انگریزی اخبار کی شہ سرخی تھی ۔ وضاحت تک کی ضرورت نہ سمجھی گئی ۔ ایک ٹی وی پروگرام میں گزارش کی تو خیرالمدارس کے سربراہ نے ارشاد کیا: تم جھوٹ بولتے ہو۔ جواب میں کچھ زیادہ عرض نہ کیا ؎ 
افسوس بے شمار سخن ہائے گفتنی 
خوفِ فسادِ خلق سے نا گفتہ رہ گئے 
سامنے کی حقیقت یہ ہے کہ کاروبارِ حکومت ڈھنگ سے چل نہیں سکتا، پولیس اگر پولیس نہ ہو ،سول سروس اگر سول سروس نہ بنے‘ سیاسی جماعت اگر سیاسی جماعت کی طرح کام نہ کرے‘ میڈیا سمیت سب کے سب ادارے اگر اپنی حدود کے پابند نہ ہوں ۔ پنجابی محاورہ یہ ہے : سونے والے کو جگایا جا سکتاہے مگر جاگتے کو نہیں ؎ 
بیاں میں نکتۂ توحید آ تو سکتا ہے 
ترے دماغ میں بت خانہ ہو تو کیا کہیے 
اور عارف نے یہ کہا تھا : عقل جہاں رکتی ہے ، وہیں بت خانہ تعمیر ہوتاہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved