تحریر : انجم نیاز تاریخ اشاعت     10-04-2014

دس فیصد مزید خوشی

کیا آپ دس فیصدمزید خوش ہونا چاہتے ہیں؟یقینا آپ کا جواب ہاں میں ہی ہو گا.... اور پھر زندگی خوشی اور اس کے مختلف مواقع دریافت کرنے کا ہی تونام ہے ۔ تاہم سب سے پہلے ہمیں یہ معلوم کرنا ہو گا کہ خوشی ہے کیا ؟ خوشی دراصل ایک مجرد حقیقت ہے، اس لیے مختلف افراد کے نزدیک اس کے مختلف معانی ہیں۔ ایک بنیادی سوال ہمارے ذہن پر کئی عشروںسے سوار ہے کہ کیا دولت خوشی دے سکتی ہے ؟ اس کا سادہ سا جواب نفی میں ہے کیونکہ دولت کی طاقت اس کی قوت ِ خرید میں ہوتی ہے جبکہ خوشی ''برائے فروخت ‘‘ نہیں ہوتی۔
ایک صاحب ہیں جنہوںنے خوشی کے لیے جدوجہد کی اور اپنی زندگی میں دس فیصد مزید خوشی لانے میں کامیاب ہو گئے۔ اُنہوں نے اس کا راز اپنی کتاب ''10% Happier‘‘میں افشاء کرتے ہوئے بتایا ہے کہ اُنھوں نے کس طرح اپنے ذہن اور اس کی خواہشات کو کنٹرول کرنا سیکھا۔ اس کتاب کے مصنف ڈین ہیرس ایک ٹی وی چینل میں بطور صحافی کام کرتے ہیں۔ اُنھوںنے اپنے پیشہ ورانہ فرائض کی انجام دہی کے دوران بہت سی جنگوں کو کور کیا اور جنگوں میں جنم لینے والے انسانی المیوں کو بہت قریب سے دیکھا۔ ان کا کہنا ہے کہ خوش ہونے کے لیے ضروری ہے کہ ہم سب سے پہلے اپنے داخلی جذبات کے اظہار پر قابو پائیں ورنہ صبح آنکھیں کھولتے ہی ہماری سوچیں ذہن کو منتشر خیالی میں مبتلا کرتے ہوئے ہماری توجہ کا ارتکاز توڑ ڈالیں گی کیونکہ ''یہ ہماری خواہشات، جذبات اور تصورات کے ملغوبے کی وہ دلدل ہے جہاں ہماری توانائیاں جکڑی جاتی ہیں۔‘‘ اس کے علاوہ ہمارا داخلی بیانیہ ماضی کے واقعات اور مستقبل کے امکانات سے خود بخود مکالمے کرتا رہتا ہے اور ایسا کرتے ہوئے ہم حال کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔ دراصل یہ ہمارا داخلی بیانیہ ہے جو ہمارے لیے اذیت کا باعث بنتا ہے۔ یہ ہمیںبعض اوقات اچھے خیالات ،حتیٰ کہ خوشی بھی فراہم کرسکتا ہے لیکن اس میں مثبت سوچ بہت کم ہوتی ہے۔
دراصل ہماری سوچ بچار کی صلاحیت ایک ہتھیار کی طرح ہوتی ہے اور اگر ہم اسے درست طریقے سے استعمال کرسکیں تو ہم اپنی زندگی میں تبدیلی برپا کرسکتے ہیں، تاہم اس مقصد کے لیے آپ کو ان گرو حضرات کے پیچھے چلنے کی ضرورت نہیں۔ بہت سے گرو دنیا بھر میں اپنے پیروکاروں کا مراقبہ کراکے لاکھوں ڈالر بٹور لیتے ہیں۔ دراصل ان افراد نے آپ کو یہی کچھ بتانا ہوتا ہے کہ آپ کی داخلی آواز آپ کو ناخوش کرسکتی ہے، اس لیے آپ اسے کنٹرول کریں۔ ستّر کی دہائی تک مراقبہ ایک ''کاٹج انڈسٹری ‘‘ تھی، لیکن اب یہ ایک فروغ پاتی ہوئی نفع بخش ''صنعت ‘‘ بن چکی ہے ۔ قہریہ کہ پڑھے لکھے افراد، شوبز سٹار، سیاست دان، بڑے بڑے اداروں کے سی ای او، سپورٹس آئی کون اور عام افراد ان گرو صاحبان سے خوشی کاراز پانے کی کوشش میں دکھائی دیتے ہیں۔ بہت سے پاکستانی بھی یوگا کلاسز کے ذریعے ''نروان‘‘ حاصل کرنے کا جتن کرتے ہیں۔ 
حقیقت یہ ہے کہ مراقبہ خوشی دیتا ہے کیونکہ اس کے ذریعے آپ اپنے خیالات کو مرتکز کرنا سیکھ جاتے ہیں۔ جب آپ کو اپنی سوچ کو کنٹرول کرناآ جائے تو یو ں سمجھ لیں کہ ایک جن آپ کے قبضے میں آگیا ہے۔ آپ کا ذہن لامتناہی توانائی رکھتا ہے لیکن ارتکاز نہ ہونے کی وجہ سے یہ ضائع ہو جاتی ہے۔ اس کا زیاں ہمیں اداس کردیتا ہے۔ مراقبے کی دنیا میں ڈوب کر ذہن کے عجائبات کو جانچنے کے لیے ہمیں کسی گرو کی ضرورت نہیں۔ دراصل یہ کوئی روحانی یا مذہبی مشق نہیں، بلکہ خالصتاً سائنسی اصولوں کے مطابق کی جانے والی ذہنی ورزش ہے۔ اس کے ذریعے آپ اپنی اندرونی آواز کو اپنے بس میں کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔۔۔ یادرہے کہ اس پر مکمل قابو پانا ممکن نہیں لیکن اس کی کوشش بھی آپ کی سوچ کو مرتکز ہونے میں مدد دیتی ہے۔ ڈین ہیرس کا کہناہے۔۔۔''درحقیقت یہ ایک معجزانہ علاج ہے۔ یہ مت سمجھیں کہ ایسا کرنے سے آپ جسمانی طور پر دراز قامت یا وجیہہ ہوجائیں گے اور یا آپ کے ہاتھ کوئی الہ دین کا چراغ آجائے گا کہ آپ کے تمام مسائل حل ہوجائیں گے ، ایسا کچھ نہیںہوگا لیکن یہ مشق آپ کو خوش رہنا سکھا دے گی۔‘‘
بھارت کے نامی گرامی بزنس مین رتن ٹاٹا، جو اب 76 سال کے ہیں، نے اپنی کمپنی کو بھارت کا اہم ترین کاروباری گروپ بنا دیا ۔ اُن کا کہنا ہے کہ زندگی دولت مند، مقبول، مکمل اور اناپرست ہونے کانام نہیں بلکہ یہ عاجزی اور انکساری کے ساتھ جینے اور دوسروںکے ساتھ تعاون کرنے کا نام ہے۔ اگر ہم ہرروز اپنا جائزہ لیا کریں کہ آج ہم سے کتنے لوگوںنے استفادہ کیا تو کچھ عرصے بعد ہمیں اپنی زندگی بامقصد اور خوشگوار دکھائی دینا شروع ہوجائے گی۔دوسروںکے کام آنے کا مقصد محض اُن میں پیسہ تقسیم کرنا نہیں، جیسا کہ ہم میں سے اکثر متمول افراد یہ سمجھتے ہیں اور ضرورت مندوںکو کچھ رقم دے کر سمجھتے ہیں کہ اُنھوںنے زندگی کا حق ادا کردیا۔ مسٹر ٹاٹا کسی دانشور کا حوالہ دیتے ہوئے کہتے ہیں۔۔۔''اگر آپ تیز چلنا چاہتے ہیں تو اکیلے چلیں، لیکن اگر آپ دور تک جانا چاہتے ہیں تو اکٹھے چلیں۔‘‘پھر وہ کہتے ہیں کہ زندگی نے اُنہیں سکھایا ہے کہ ہم خواہش تو اعلیٰ ترین سوٹ پہننے کی کرتے ہیں، لیکن ہمیں سکون پاجامہ پہن کر ملتا ہے۔ ہم تاج یا میریٹ ہوٹل میںڈنر کی خواہش کرتے ہیں لیکن مزہ ہمیں سڑک کے کنارے بنے کھوکھے میں چائے پینے کا آتا ہے۔ ہم جدید کاروں کی خواہش کرتے ہیں لیکن ایک ویران راستے پر رفیع یا مکیش کا گیت گنگناتے ہوئے چلنا کتنا اچھا لگتا ہے۔ مسٹر ٹاٹا کے بارے میں کہا جاسکتا ہے کہ جب ان کے خوش ہونے کے دن تھے، وہ اپنے کاروبار کو ترقی دینے میں مصروف رہے، لیکن اب جب زندگی کا سورج ڈھل رہا ہے(سورج ڈھلنے سے پہلے ارغوانی ضرور ہوتا ہے اور اس میں ایک پتے کی بات ہے جو میں کسی اور کالم میں شیئرکروں گی)تو ان کو احساس ہو رہا ہے کہ زندگی کی خوبصورتی کسی اور چیز میں مضمر ہے۔ 
دوسری طرف ڈین ہیرس ابھی تک جوان ہے اور اپنی زندگی میں آگے بڑھ رہا ہے لہٰذا ان کے لیے خوشی مطلب کا کچھ اور ہے۔ وہ کہتے ہیں۔۔۔''مراقبہ کیفین کی طرح ہے جو آپ کو غموںسے دور کرسکتا ہے‘‘۔ پاکستان میں ہمارے ہاں جعلی پیروں اور عالموں( زیادہ تر جنات نکالنے والے) کی کمی نہیں لیکن ہم ابھی مراقبے اور یوگا کو مکروہات کے مترادف سمجھتے ہیں۔ دراصل ہم میںسے کچھ ہر قسم کی روحانیات کے یا تو مکمل قائل ہوتے ہیں یا نامکمل۔ یورپ میں ذہنی طاقت کو قابو میں کرنا ایک سائنسی علم کا درجہ پاچکا ہے اور وہ ''نامعلوم ‘‘ کی دنیا پر بھی تحقیق شروع کرچکے ہیں، لیکن ہم ہر چیز کو مذہب کے ساتھ جوڑ کر اس پر تحقیق کا دروازہ بند کردیتے ہیں۔ 
عبادت سے بھی خوشی ملتی ہے، لیکن اس لیے ضروری ہے کہ عبادت کے ساتھ عاجزی کا پہلو بھی ہو۔ ایک اور بات، کیا ہم واقعی خوشی کے متمنی ہیں ؟ میرا خیال ہے کہ نہیں۔ ہم آسائش تلاش کرتے ہیں جبکہ خوشی ہماری ''گڈ بک ‘‘ میں موجود ہی نہیں۔ ہم سوچتے ہیں لیکن ہم سوچ کو کنٹرول نہیں کرسکتے۔ آئیے آج سے زندگی کے ایک مشکل سفرکا آغاز کریں.... اس کی منزل خوشی ہے ۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved