آج دنیا میں ایسے ممالک کم ہی ہوں گے جن کے حکمران اعتماد سے حاکمیت کرنے کے قابل ہوں۔ 2008ء کے عالمی مالیاتی کریش کے بعد کے صرف دو برسوں میں یورپ میں گیارہ حکومتیں گری تھیں۔ سیاسی عدم استحکام اور ٹوٹ پھوٹ کا یہ عمل تاحال جاری ہے۔ پاکستان جیسے تیسری دنیا کے ممالک میں حکومت کرنے کے لیے آخری درجے کی ڈھٹائی، بے حسی اور مکاری درکار ہوتی ہے۔ یہاں سیاست کا کوئی نظریاتی معیار ہے نہ ہی ضمیر نام کی کسی چیز سے مقامی سیاستدان آشنا ہیں۔کارپوریٹ کلچر عوام کو معاشی طور پرکچلنے اور نفسیاتی طور پر مفلوج کرنے کا ہتھیار بن چکا ہے جس کے ذریعے لوگوں کی توجہ حقیقی مسائل سے ہٹا کرحکمرانوں کے باہمی تنازعات پر مبذول رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ میڈیا کو اسی سماجی کردار کی وجہ سے نوازا جاتا ہے۔
پاکستان میں گزشتہ کئی برسوں سے ریاست کے مختلف اداروں کے درمیان چپقلش جاری ہے۔اب 'فوجی‘ ، 'سیاسی‘ اور 'عدالتی‘اداروں کے درمیان تنازعات کوغیرضروری طورپر اچھالا جارہا ہے ۔ فوجی قیادت کے حالیہ بیان کو ایسے پیش کیا جارہا ہے گویا مارشل لا لگنے والا ہے۔ضیا آمریت کی کوکھ سے جنم لینے والے سیاستدان جمہوریت کے علمبردار بنے بیٹھے ہیں۔ حکمرانوں کے مختلف دھڑوں کی لڑائیاں کتنی ہی شدید کیوں نہ ہوں، محنت کش عوام کو خون چوسنے کے معاملے میں یہ ہمیشہ متحد رہتے ہیں۔ سماج میں جب بھی کوئی انقلابی ابھارآتا ہے، یہ تمام استحصالی طبقے یکجا ہوجاتے ہیں۔ آج کل چونکہ کوئی ملک گیر عوامی مزاحمت موجود نہیں ہے لہٰذا حکمران طبقے کے مختلف حصے بے فکر ہوکر لوٹ مارکے معاملات پر آپس میں گتھم گتھا ہیں۔
حکمرانوں کے یہ باہمی تنازعات بے سبب نہیں،کوئی بھی معاشرہ اپنے معاشی اور سماجی زوال کااظہار سیاست میں کرتا ہے۔ عوام اگر سیاست کے میدان سے باہر ہوں تو بھی سماج کے خمیر میں پائے جانے والے تضادات شدت اختیارکرجانے کی صورت میں ریاست اور سیاست کو مسلسل عدم استحکام میں مبتلا کر دیتے ہیں۔ آج پاکستان کا سماج ایسی ہی صورت حال سے دوچار ہے۔ ملکی خزانہ لٹ چکا ہے، قرضے کے انباروں نے ریاست کو معذورکر دیا ہے اور مجموعی طور پر معیشت زوال پذ یر ہے ، لیکن زیادہ شدید بحران میں حکمرانوں کی ہوس کم ہونے کے بجائے بڑھ جاتی ہے۔ جب لوٹنے کے مواقع کم پڑ جائیں تو ناگزیر طور پر لٹیرے ایک دوسرے کے مال پر نظر رکھنا شروع کر دیتے ہیں۔
جمہوریت آمریت کی بحث بالکل بے معنی ہے۔ عسکری افسر شاہی اور سیاست دان ہر اقتدار میں ہی شریک ہوتے ہیں۔ ثانوی نوعیت کی تبدیلیوں سے قطع نظر، سویلین بیوروکریسی کی ساخت اور ڈھانچہ بھی ہمیشہ قائم رہتا ہے۔مارشل لائوں میں بھی سرمایہ دار اور جاگیر دار طبقے کے''سویلین سیاستدان‘‘ ہی سیاسی نظام چلاتے ہیں اور جمہوری حکومتوں میں پردے کے پیچھے ہونے کے باوجود جرنیلوں کی طاقت اور اختیارات زیادہ بڑھ جاتے ہیں۔ یہاں کے سیاستدان خود اتنے بدعنوان اورکمزور ہیں کہ سر نہیں اٹھا سکتے۔ اس حقیقت کے پیش نظر
جمہوری حکومتوں میں غیر جمہوری ادارے نہ صرف زیادہ مراعات حاصل کرتے ہیں بلکہ اقتصادی شعبے میں ان کی حصہ داری بھی بڑھ جاتی ہے؛ تاہم بعض اوقات مخصوص حالات کے زیر اثر ریاست کو کوئی ایک دھڑا انتہا پر چلا جاتا ہے جس کے نتیجے میں غیر معمولی صورتحال جنم لیتی ہیں۔
حکمرانوں کے مختلف دھڑوں میں تکرار کا آغاز عموماً کرپشن کے الزامات سے ہوتا ہے۔ بدعنوانی پر تحقیق کرنے والے ٹرانسپیرنسی انٹرنشیل جیسے اداروں کی رپورٹوں پر نظر دوڑائی جائے تو یہ اندازہ لگانا مشکل ہوجاتا ہے کہ سیاستدان زیادہ کرپٹ ہیں یا ریاستی افسرشاہی۔ سیاستدانوں اور بیوروکریسی کا بڑے سرمایہ داروں سے ''تحائف‘‘ کی مد میں محلات، پلاٹ اور ہوائی جہاز وصول کرنا معمول بن گیا ہے۔ اب تو ان معاملات کو زیادہ باعث شرم بھی نہیں سمجھا جاتا اورکھلم کھلا سب لین دین ہوتا ہے۔ بہت سے ''اہل دانش‘‘ اور تجزیہ نگار بھی اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھوتے ہیں۔ ریاست اور سیاست کے ان داتا ''تحائف‘‘ کے بدلے میں ''انتظامی‘‘ اور سیاسی معاونت فراہم کرتے ہیں تو وظیفہ خوار دانشوروں کے ذمے عوام کو نفسیاتی طور پر مسلسل منتشر اور کنفیوز رکھنے کا کام لگایا جاتا ہے۔یہ زر خرید دانش ور اپنے تجزیوں اور تبصروں کی سیاہ پٹی پورے سماج کی آنکھوں پر چڑھائے رکھتے ہیں۔ عوام کے سامنے صرف وہ متبادل پیش کیا جاتا ہے جواس نظام کی حدودکو پامال نہ کرے۔ ان کے سامنے صرف اس چنائوکا حق رہ جاتا ہے کہ وہ فوجی آمریت کے جبر سے برباد ہوں گے یا جمہوریت کے میٹھے زہر سے مرنا پسند کریں گے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت پر فوجی شب خون کے علاوہ اس ملک کے عوام نے ہرفوجی اور سویلین حکومت کے خاتمے پر خدا کا شکر ہی ادا کیا۔ ہرحکومت اپنے دور میں عوام کو اتنا ذلیل کر تی ہے کہ وہ عاجز آجاتے ہیں۔ جب نام نہاد جمہوری حکومتیں عذاب مسلسل بن جاتی ہیں تو انہیں سخت گیر فوجی آمریت کے ذریعے بدعنوان سیاستدانوں سے چھٹکارے کا دلاسہ دیا جاتا ہے۔ جب وہ آمریتوں کے معاشی، سیاسی اور سماج جبر سے عاجز آجاتے ہیں تو انہیں جمہوریت کی بحالی کے نام پر ٹرک کی بتی کے پیچھے لگادیا جاتا ہے۔
لیکن معاشی اور اقتصادی بحران کے شدت اختیار کر جانے سے کالا دھن اور بدعنوانی ریاست میں اس حد تک سرایت کر چکے ہیں کہ آج حاکمیت کے طریقے میں تبدیلی بھی حکمرانوں اور ریاستی پالیسی سازوں کے لیے آسان نہیں رہی ۔ جن ریاستی اداروں سے ماضی میں یہ کام لیا جاتا تھا وہ گل سڑکے کھوکھلے ہوچکے ہیں۔ ریاست کا ہر ستون داخلی دھڑے بندیوں کا شکار ہے اور جھٹکا لگنے کی صورت میں ٹوٹ کے بکھر سکتا ہے۔ایک بوسیدہ معیشت، دہشت گردی اور بربادی کے معاشرے میں براہ راست فوجی حاکمیت کو مسلط کرنا حکمران طبقات کے لیے خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔ امریکی سامراج اور ریاست کے سنجیدہ پالیسی ساز جانتے ہیں کہ براہ راست فوجی آمریت عوام کو مشتعل کرکے بغاوت پر ابھار سکتی ہے۔ لہٰذا آج مارشل لا لگانا اتنا آسان نہیں اور فوجی قیادت یہ رسک لینے کے لیے شاید تیاربھی نہیں ہے؛ تاہم چند طالع آزمائوں کی جانب سے ایسی کسی کوشش کو خارج ازامکان قرار نہیں دیا جاسکتا، اگرچہ یہ زیادہ ممکنہ تناظر نہیں ہے۔لیکن ایسی کسی صورت حال میں برسر اقتدار آنے والوں کے سامنے توانائی اور معیشت کے بحران سے لے کر دہشت گردی، بے روزگاری اور بدعنوانی تک، مسائل کا انبار ہوگا۔ سرمایہ داری کا کون سا نسخہ ہے جسے اب تک استعمال کرنے کی کوشش نہیں کی گئی ؟
جمہوری حکومت کے معاملات میں مداخلت سیاسی اور ریاستی بحران کی شدت میں اضافے کی وجہ ہے۔ مذہبی دہشت گردی، فرقہ وارانہ قتل و غارت گری، مہنگائی، بدعنوانی اور سیاسی بحران اس متروک نظام کو لاحق لاعلاج اور جان لیوا مرض کی علامات ہیں۔ عدم استحکام اس ملک کا معمول بن چکا ہے۔ یہ اقتدار دھماکہ خیز واقعات سے مسلسل ہچکولے کھارہا ہے۔ عوام نے آمریتوں کی اذیتیں برداشت کی ہیں اوراب جمہوریت کے عذابوں سے بھی تنگ آچکے ہیں۔ روز روز کی اذیت سے نجات کی تلاش انہیں تاریخ کے میدان عمل میں اترنے پر مجبورکردے گی۔ حکمرانوں کی لڑائیاں اور بیان بازیاں بے معنی ہیں۔ اصل لڑائی تب شروع ہوگی جب دو طبقات انقلاب کے میدان میں آمنے سامنے آئیں گے!