پاکستان ایک دستوری اور قانونی نظام کے تحت چل رہا ہے۔ وفاقی سطح پر دو ایوانوں (قومی اسمبلی اور سینٹ) پر مشتمل پارلیمنٹ (مجلس شوریٰ ) اور صوبائی سطح پر صوبائی اسمبلیاں ہیں ۔ پارلیمنٹ وفاق کی سطح پر قانون ساز(Law Maker)ادارہ ہے، وفاقی قانون سازی کادائرہ پورے ملک پر محیط ہے اور صوبائی اسمبلیوں کی قانون سازی کا دائرۂ اختیار متعلّقہ صوبے تک محدود ہے۔ قانون سازی وفاقی سطح پر ہو یا صوبائی سطح پر، دستورِپاکستان کے تابع ہے۔ تاہم پارلیمنٹ (یعنی قومی اسمبلی اور سینٹ) میں سے ہرایک ایوان کے کل ارکان کی کم ازکم دو تہائی اکثریت کی منظوری سے دستور میں ترمیم کی جاسکتی ہے، یعنی پارلیمنٹ کو قانون سازی اور دستور سازی دونوں طرح کے اختیارات حاصل ہیں ۔
یہ تمہیدی کلمات میں نے اس لئے بیان کئے ہیں کہ ہمارے قانون سازیعنی منتخب قومی نمائندوں کو ملک کے لئے قانون سازی اور مطلوبہ اکثریت کے ساتھ دستور میں ترمیم کا اختیار بھی حاصل ہے اور منتخب ہونے کے بعد پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں کے یہ فاضل ومعزز ارکان دستور کی بالادستی اور وفاداری کا حلف بھی اٹھاتے ہیں ۔ اسی طرح کا حلف ہمارے وفاقی اور صوبائی وزراء بھی اٹھاتے ہیں ۔ لیکن قوم کے یہ معزز اور قابلِ افتخار نمائندگان جس دستور کا حلف اٹھاتے ہیں ، چند مستثنیات کے سوا باقی، اس کو پڑھنے اور سمجھنے کی زحمت بھی گوارا نہیں فرماتے ۔ انہیں زیادہ دلچسپی اپنے استحقاق(Privilege)، اس منصب کی برکت سے حاصل شدہ سماجی حیثیت (Social Status) اور اس کے طفیل ممکنہ طور پر ملنے والی زیادہ سے زیادہ مراعات سے ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر ارکان‘ پارلیمنٹ میں پیش کئے جانے والے مسوّدۂ قانون(Bill)کو پڑھنے کی زحمت بھی گوار ا نہیں فرماتے، اُن کاکام بس قانون سازی کے موقع پر اپنی جماعت کے قائد کے اشارۂ ابرو پر ہاں یا ناںکہنا ہوتاہے۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ حال ہی میں ایک پرائیویٹ ٹیلیویژن چینل کی رپورٹنگ ٹیم نے On Cameraقومی اسمبلی کے بعض معزز سینئر ارکان سے پوچھا کہ آپ نے'' تحفّظِ پاکستان بل‘‘ پڑھا ہے، سب نے کسی تردُّد اور احساسِ ندامت کے بغیر جواب دیا:''نہیں‘‘۔
ہمارے قابلِ افتخار ارکانِ سندھ اسمبلی کی اسی دانش کا مَظہرِ اَتَمّ وہ قرارداد ہے، جس میں انہوں نے ''اسلامی نظریاتی کونسل پاکستان‘‘ کو تحلیل کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ ماشاء اللہ یہ قرارداد متفقہ طور پر منظورہوئی ہے، لہٰذا اس افتخار واعزاز کا سہرا صوبائی اسمبلی میں نمائندگی رکھنے والی ساری جماعتوں کے تمام معزز ارکان کے سر ہے۔ یہ سعادت وہ اسی لئے حاصل کرپائے کہ انہوں نے اسلامی جمہوریہ ٔ پاکستان کے دستور کا مطالعہ نہیں فرمایا۔اسلامی نظریاتی کونسل‘ آئینی ادارہ ہے اور اس کے فاضل ارکان کا دورانیہ تین سال ہے ، لہٰذا یہ منصب صرف ان ارکان کے استعفے یا نااہلی یا وفات سے ہی خالی ہوسکتاہے۔ اس آئینی ادارے کو تحلیل بھی نہیں کیا جاسکتا۔
سونے پر سہاگہ یہ کہ اسلامی نظریاتی کونسل کے موجودہ اراکین‘ پیپلز پارٹی کی گزشتہ حکومت یعنی سابق وفاقی وزیر مذہبی امور جناب سید خورشید احمد شاہ، سابق وزرائِ اعظم جناب سید یوسف رضا گیلانی اور راجہ پرویز اشرف اور سابق صدر جناب آصف علی زرداری کا حسن انتخاب ہیں۔ ہاں! چیئرمین مولانا محمد خان شیرانی کاتین سالہ دورانیہ ختم ہونے پر دوبارہ یہ سعادت موجودہ وزیر اعظم جناب محمد نواز شریف نے حاصل کی ہے۔دانالوگوں کا مقولہ ہے ع:'' مشتے کہ بعد ازجنگ یادآید، برکلۂ خود بایدزند‘‘ ، یعنی وہ گھونسا جو جنگ کے بعد یادآئے، بہتر ہے کہ اسے اپنے ہی رخسار پر ماردیا جائے ، کیونکہ اس سے جنگ کا نتیجہ تو بدلنے سے رہا۔ پس سندھ اسمبلی کی اس متفقہ قرارداد کو خودملامتی کے سوا اور کیانام دیاجائے۔ مگر جب ہم اپنی کل کی بات بھی بھول جائیں ، تواس قوتِ حافظہ یا شانِ بے اعتنائی کو کیا نام دیاجائے۔ ہاں! اگرسندھ صوبائی اسمبلی نے اپنی قیادت کے حسنِ انتخاب پر کوئی ''قراردادِتاسُّف‘‘ یا ''قراردادِ مذمّت‘‘ پاس کی ہوتی ، توشاید ایک بے نتیجہ سی معنویت ضرور پیدا ہوجاتی۔ پیپلز پارٹی اپنے آپ کو 1973ء کے متفقہ دستور کا وارث سمجھتی ہے، لیکن اس کے ارکان کو اُس کا مطالعہ کرنے کی فرصت کہاں، ورنہ انہیں پتا ہوتا کہ اس میں مارشل لااَدوَارکے بہت سے اِضافات بھی ہیں، مگرانہیں تو وہ گلے سے لگائے ہوئے ہیں اور اٹھارہویں آئینی ترمیم کے ہتھوڑے کی ضرب سے بھی وہ محفوظ رہے ہیں ، کیونکہ یہ مفاہمت کی سیاست کا لازمی تقاضا تھا۔
عاجزانہ مشورہ ہے کہ آئندہ قومی انتخابات میں پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں کے امیدواروں کے لیے دستورِ پاکستان کا تحریری ٹیسٹ لازمی قرار دیا جائے اور اس میں انہیں نقل کی بھی رعایت دی جائے ، شاید اسی بہانے ہمارے معزز نمائندے دستورِ پاکستان کے دوچار آرٹیکل بھلے یاد نہ کرسکیں، پڑھ تو لیں گے۔ ویسے 2013ء کے انتخابات کے لئے کاغذاتِ نامزدگی جمع کراتے وقت یہ حضرات آرٹیکل 62اور 63پر پورا اترچکے ہیں، یعنی تقوے کا امتحان پاس کرچکے ہیں اور صادق اور امین بھی قرار پاچکے ہیں ، سوائے سابق وزیراعظم جناب سید یوسف رضاگیلانی کے کہ وہ 2017ء تک صادق وامین نہیں ہیں ، مستقبل کا علم اللہ عزّوجلّ کے پاس ہے۔
جنرل (ر) پرویز مشرف صاحب کے عہد مبارک کے وزیر پارلیمانی امور ڈاکٹر شیرافگن نیازی مرحوم ہوتے ، تو ہم یہ تجویز دیتے کہ قومی اسمبلی ، سینٹ اور صوبائی اسمبلیوںکے اجلاس کا آغاز دستور پاکستان اور اس کی تشریح پر مشتمل اُن کے درس سے کیا جائے ، اس طرح اصل دستورسازوں کی روح کو بھی سکون پہنچے گا،موصوف کو دستورِ پاکستان کے کم ازکم وہ آرٹیکل اَزبر تھے، جو اُن کے ممدوح اور سابق صدرِ پاکستان جناب جنرل(ر) پرویز مشرف کے اقتدار کے تحفظ و دَوَام کے لئے ضروری تھے۔
چونکہ قانون کی حکمرانی سے کسی کو غرض نہیں ہے، اس لئے جب سے ہمارے منتخب اداروں میں بالواسطہ انتخاب کے ذریعے بیگمات کا کوٹہ مقرر ہواہے، وہ بھی اپنی کارروائی وقتاًفوقتاً ڈالتی رہتی ہیں، مثلاً عورتوں پر مظالم، کاروکاری، غیرت کے نام پر قتل اور بیویوں پر تیزاب پھینکنے سے متعلق قانون سازی وغیرہ۔ اور اس طرح کے کارہائے نمایاں انجام دے کروہ اپنی ریٹنگ بڑھاتی رہتی ہیں۔ یہ قوانین کب نافذ ہوں گے اور کیسے نافذ ہوں گے؟، اس سے انہیں غرض نہیں اور ہونی بھی نہیں چاہئے، کیونکہ یہ ان کے طبقے کا مسئلہ نہیں ہے۔
یہ اعزاز بھی ہمیں حاصل ہے کہ ہم نے قانون کی کتاب کا حجم موٹا کرنے کے لئے قتل کی مختلف اقسام کے عنوان سے قانون سازی کا شرف حاصل کیا ہے۔ قرآن کی رو سے قتل بس قتل ہے اور اس کی سزا قصاص ہے ، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ''اور ہم نے ان پر یہ فرض کیا تھا کہ جان کے بدلے جان، آنکھ کے بدلے آنکھ ، ناک کے بدلے ناک ، کان کے بدلے کان ، دانت کے بدلے دانت اور زخموں میں بھی بدلہ ہے، تو جس نے خوش دلی سے بدلہ دیا،تو وہ اس کے گناہوں کا کفارہ ہے اور جو اللہ کے ناز ل کئے ہوئے احکام کے موافق فیصلہ نہ کریں ، تو وہی لوگ ظالم ہیں،(المائدہ:45)‘‘۔ پس اسلام کا حکم قطعی اور واضح ہے اور وہ ہے:''قانونِ قصاص‘‘ ۔ قتل خواہ کسی بھی عنوان سے ہو، وہ قتل ہے اور اس کی ایک ہی سزا ہے۔البتہ دہشت گردی کو قرآن نے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولِ مکرم ﷺ کے ساتھ جنگ اور''فساد فی الارض‘‘ سے تعبیر کیا ہے اور فقہِ اسلامی میں اس کا اصطلاحی عنوان''مُحارَبہ یا حِرابہ‘‘ ہے اور اس کی سزا اللہ تعالیٰ کی مقرر کی ہوئی تمام سزاؤں سے زیادہ سنگین ہے، ارشادِ باری تعالیٰ ہے:''اور جو لوگ اللہ اور اس کے رسول سے جنگ کرتے ہیں اور زمین میں فساد برپا کرتے ہیں ، ان کی یہی سزا ہے کہ انہیں چن چن کر قتل کیا جائے یا ان کو سولی دی جائے یا ان کے ایک طرف کے ہاتھ اور دوسری طرف کے پاؤں کاٹ دئیے جائیں یا ان کو زمین سے نکال دیا جائے (آج کل اس کی صورت قید ہے) یہ ان کے لئے دنیا میں رسوائی اور آخرت میں ان کے لئے بڑا عذاب ہے،(المائدہ:33)‘‘۔
مگر ہمارا کوئی قانون کاروکاری کے نام پر ہے، کوئی غیرت کے نام پر قتل کے لئے ، کوئی عورتوں پر تیزاب پھینکے جانے کے حوالے سے اور کوئی کسی اور عنوان سے ، حالانکہ اللہ عزّوجلّ کا ایک جامع حتمی اور قطعی قانونِ قصاص کافی وشافی ہے ، اسے لفظاً ومعنیً نافذ کردیا جائے ،تو کسی اور قانون سازی کی ضرورت نہیں ہے۔