گزشتہ روز کالم کا پہلا حصہ شائع ہونے پر قارئین کی ایک بڑی تعداد نے ای میل کے ذریعے اپنے خیالات اور رائے کا اظہارکیا۔ اسلام آباد سے ایک قاری عاطف ہاشمی نے بتایا کہ دیوبندی مدارس میں جلد سازی‘ صحافت اور طب و حکمت کی تعلیم دی جاتی ہے۔ اس طرح یہاں سے فارغ التحصیل طالب علم کسی نہ کسی شکل میں روزگارکمانے کے قابل ہو جاتے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ دینی مدارس کے طالب علموں کوچند علوم تک ہی محدود کیوں رکھا جائے۔ کیا مدرسے کا طالب علم‘ سائنس نہیں پڑھ سکتا؟اسے فزکس‘ کیمسٹری‘ بیالوجی‘ اکائونٹس‘ مارکیٹنگ اور آئی ٹی کی تعلیم کیوں نہیں دی جاتی؟ کیا ان مدرسوں میں سائنس کی لیبارٹریاں موجود ہیں؟ کروڑوں روپے فنڈ لینے والے مدرسوں کے مہتمم اور منتظمین مدارس کو دینی علم کے ساتھ ساتھ جدید علوم کی درسگاہوں میں کیوں نہیں بدل سکتے؟ وہ مدرسوں کے طالب علموں کے ذہنوں کو کیوں محدود رکھنا چاہتے ہیں جبکہ ان کی اپنی اولادیں بیرون ملک یونیورسٹیوں سے اعلیٰ اور جدید تعلیم حاصل کرتی ہیں۔ وہ خود جہازوں پر سفر کرتے ہیں‘ بیرونی ملکوں کے دورے کرتے ہیں، ائرکنڈیشنڈ ماحول میں رہتے ہیں، کمیونیکیشن کے لیے ہر جدید ذریعہ استعمال کرتے ہیں‘ آئی پیڈ اور سمارٹ فون کا استعمال کرتے ہیں جبکہ ان کے زیرسرپرستی مدرسوں کے طالب علموں کا رہن سہن ایسا ہوتا ہے کہ ذہن اور شعور ایک خاص جگہ پر آ کر رُک جاتا ہے اور ان کی آنکھیں ایک مخصوص عینک سے دنیا کو دیکھتی ہیں۔
کائنات کی عظیم کتاب قرآن مجید فرقانِ حمید کی تعلیم مدارس کے طالب علموں کو دی جاتی ہے اور پھر بھی ان کے ذہنوں کو ایک مخصوص مسلک کے ساتھ جوڑ دیا جاتا ہے۔ قرآن پاک جگہ جگہ انسان کو سوچنے‘ تدبر کرنے اور کائنات کو تسخیر کرنے کی دعوت دیتا ہے۔ قرآن شیعوں‘ وہابیوں‘ دیوبندیوں اور سنیوں کو مخاطب نہیں کرتابلکہ پوری انسانیت کو دعوت فکر دیتا ہے۔ اسی طرح قرآن حکیم کسی ایک مسلک کی تعلیم نہیں دیتا بلکہ اسلام کا آفاقی پیغام دنیا تک پہنچاتا ہے۔ اسلام رواداری‘ برداشت اور حسنِ سلوک کا مذہب ہے جبکہ ہمارے مدارس جو کسی نہ کسی مخصوص مسلک سے تعلق رکھتے ہیں‘ طالب علموں کے ذہنوں کو جس صورت میں ڈھالتے ہیں اس کے بعدانہیں اپنے مسلک کے علاوہ باقی فرقے اور مسالک کے مسلمان انہیں مشکوک دکھائی دیتے ہیں۔
2013ء میں ایک معاصر میں یہ رپورٹ شائع ہوئی تھی کہ ملک میں پانچ سو ایسے نان رجسٹرڈ مدرسے موجود ہیں جوکچے اور معصوم ذہن کے طالب علموں کو فرقہ واریت کی تعلیم دیتے ہیں۔ ذرا سوچیے ،کیا ایسے مدارس میں پڑھنے والے طالب علم انسان کی بحیثیت انسان اور ایک کلمہ گو کی بحیثیت ایک مسلمان عزت اور تکریم کرنے کے قابل ہو سکتے ہیں؟ ہرگز نہیں کیونکہ جو کچھ ان کے ذہنوں میں ڈالا جاتا ہے اس کے مطابق وہ اپنے مسلک کے سوا کسی دوسرے اسلامی فرقے کے لوگوںکو مسلمان نہیں سمجھتے۔
ذہنوں میں فرقہ واریت کی یہ آگ اس دین مبین کے نام پر بھری جا رہی ہے جس میں لا اکراہ فی الدین کا حکم دیا گیا ہے یعنی دین میں کوئی جبر نہیں۔ دین میں برداشت ہے‘ رواداری ہے‘ حسن سلوک ہے‘ اخلاق اور اچھا برتائو ہے۔ جس دین کی بنیاد اخوت اور بھائی چارے پر ہو اُس میں جبر‘ نفرت‘ عدم برداشت کی گنجائش کیسے ہو سکتی ہے؟ چلیے ، مدرسوں میں ہنر سکھانے کی بات کو کچھ دیر کے لیے ایک طرف رکھ کر ہم مدارس کے کرتا دھرتا‘ منتظمین اور ان تمام اہلِ اختیارسے جو مدارس کے ساتھ منسلک ہیں‘ یہ استدعا کرتے ہیں کہ مدارس کی فضا میں پروان چڑھنے والے ذہنوں میں انسان دوستی ،بھائی چارے‘ اخوت اور رواداری کی روشنی بھر دیں۔ یقین جانیے کہ سو فیصد نہیں تو چند فیصد مدرسے ایسے ضرور ہوں گے جن کو اپنا مفاد اور اپنا ایجنڈا خطرے میں نظر آئے گا کیونکہ اس طرح کے مدرسوں کا وجود ہی فرقہ واریت کو ہوا دینے سے قائم ہے۔ ایسے تمام مدرسے جو تقسیم کرنے‘ الجھانے اور توڑنے کے ایجنڈے پر قائم ہیں‘ معاشرے میں اخوت اور رواداری کے جذبات پروان چڑھانے کے مخالف ہیں ان کی اصلاح کی جائے ۔
اسلامی ملکوں میں مدرسوں کا وجود صدیوں سے معاشرے کا حصہ ہے۔ صرف پاکستان ہی نہیں دنیا کے ہر ملک میں اسلامی تعلیمات کی روشنی پھیلاتے مدرسے موجود ہیں۔ یہ مدارس اسلامی معاشرے اور طرزِ حیات کا حصہ ہیں۔ اس حوالے سے ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ امریکی صدر بارک اوباما کی سوانح عمری سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ انڈونیشیا میں قیام کے دوران وہ جکارتہ کے ایک اسلامی مدرسے میں چند سال زیر تعلیم رہے۔ اوباما کی زندگی کے اس واقعے پرصدارتی انتخابات سے پہلے امریکہ میں بہت جذباتی بحث چھڑگئی کہ امریکہ کا ہونے والا صدر انڈونیشیا کے مدرسے میں اس وقت زیر تعلیم رہا جب اس کی عمر چھ سے
دس سال کے درمیان تھی۔ خیر یہ ایک اضافی بات تھی جو برسبیل تذکرہ کالم میں در آئی، ہم واپس اسی نکتے پر آتے ہیں کہ پاکستان میں موجود 40,000 سے زائد چھوٹے بڑے مدارس میں زیرتعلیم لاکھوں غریب طلباء اگر پاکستان کے شہری ہیں تو پھر ان کے مستقبل کو ان علمائے کرام کے سیاسی مفادات کی بھینٹ نہیں چڑھایا جا سکتا جنہیں اپنے سیاسی جلسوں میں نعرے لگوانے اور جلسوں کی رونق بڑھانے کے لیے ان طلباء کی صورت میں مفت میںکارکن مل جاتے ہیں۔ حکومت جہاں تعلیم کے فروغ کے لیے کالجوں اور یونیورسٹیوں کی سرپرستی کرتی ہے‘اسے چاہیے کہ وہ اپنے سرکاری اثرو رسوخ سے ان مدارس میں آنے والے طلباء کے روشن اور بہتر مستقبل کے لیے دینی مدارس کو بھی جدید تعلیم کی سہولتوں سے آراستہ کرے ۔ مدرسوں میں اصلاحات متعارف کرنے کے لیے اسلام کی اس بنیادی فکر سے رہنمائی حاصل کی جائے جس میں علم کو مومن کی گمشدہ میراث کہا گیا ہے۔ علم کے حصول کے لیے سفر کرنے کی ترغیب دی گئی ہے۔ ایک مشہور حدیث ہے کہ ''علم حاصل کرو خواہ تمہیں چین ہی کیوں نہ جانا پڑے‘‘۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ مدرسوں میں دین کی تعلیم کے ساتھ ہنر سکھانے کا اہتمام کیا جائے اور اس سے بھی زیادہ ضرورت اس امر کی ہے کہ مدارس کے طلباء کو اختلاف برداشت کرنے کا سلیقہ سکھایا جائے ۔ اپنی اور دوسروں کی زندگی خوبصورت بنانے کے لیے یہ ہنر سیکھنا ازحد ضروری ہے۔ (ختم)