جو دوست قوم کو مارشل لاء سے ڈرانے کی کوشش کر رہے ہیں، انہیں مثبت رویہ اختیار کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ دہشت گردی سے خوف زدہ قوم کو مزید ڈرانے اور اس کے پر کاٹ نکالنے کی بجائے اسے حوصلہ دینے کا مقام ہے۔ سیدھی سی بات ہے، فوج خدانخواستہ، دہشت گردی سے لڑے گی یا جمہور سے؟وقت ویسے بھی تبدیل ہو چکا ہے۔ میڈیا کا جن بوتل سے باہر آ چکا ہے اور اسے دوبارہ بوتل میں بند نہیں کیا جا سکتا۔ آپ تو ٹوتھ پیسٹ باہر نکال کر اسے اندر نہیں بھیج سکتے، میڈیا کے جن کی تو بات ہی اور ہے۔ چنانچہ اگر کوئی لابی ایسا چاہتی بھی ہے تو کان کو سیدھی طرف سے پکڑے اور کسی طرح آئین میں ترمیم کروا کر اقتدار میں فوج کا باقاعدہ حصہ مقرر کروا لے جس کی مثال بعض دیگر اسلامی ملکوں میں بھی موجود ہے کیونکہ فی الحال تو صورتِ حال یہ ہے کہ ؎
خوب پردہ ہے کہ چلمن سے لگے بیٹھے ہیں
صاف چُھپتے بھی نہیں‘ سامنے آتے بھی نہیں
چنانچہ یہ سسٹم ہمیں عزیز ہے تو فوج بھی انہیں دل و جان سے پیاری ہے اور دونوں کے درمیان بدگمانی یا محاذ آرائی ہم افورڈ ہی نہیں کر سکتے۔
حق تو یہ ہے کہ اگر تنقید کی گئی ہے تو فوج پر نہیں بلکہ پرویز مشرف پر، جسے کسی صورت بھی فوج پر تنقید نہیں گردانا جا سکتا۔ دوسرا مغالطہ یہ ہے کہ یہ مقدمہ نواز شریف کی طرف سے انتقامی کارروائی نہیں بلکہ سپریم کورٹ کے حکم پر قائم کیا گیا ہے۔ فوج کو اپنے وقار کا تحفظ ضرور مطلوب ہے، اور ہونا بھی چاہیے لیکن یہ بھی تو دیکھا جائے کہ خود مشرف نے فوج کے وقار کا تحفظ کس حد تک کیا ہے۔ مشرف کے کارہائے نمایاں کی فہرست بہت طویل ہے اور جس کی تفصیل ہی میں جانے کی بھی ضرورت نہیں۔ اور اب وہ فوج کا حصہ بھی نہیں۔ اگر دو سابق وزرائے اعظم کی کارگزاریوں پر مقدمات قائم ہو رہے ہیں‘ تو ایک سابق آرمی چیف کو مقدس گائے کا درجہ کیونکر دیا جا سکتا ہے جبکہ اس سسٹم میں عدلیہ اور پارلیمنٹ سمیت کوئی بھی گائے مقدس نہیں ہوتی۔ علاوہ ازیں، یہ بھی بتایا جائے کہ بھارت سمیت کس جمہوری ملک میں فوج پر تنقید نہیں کی جا سکتی؟ نہ ہی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ فوج اپنے وقار کے تحفظ کے لیے خود ہی دہائی دینا شروع کر دے۔ جنرل صاحب کو اگر وزارتِ دفاع سے نہیں تو وزیراعظم سے بات کرنی چاہیے تھی جن سے وہ اکثر اوقات ملاقاتیں کرتے بھی رہتے ہیں۔ مزید برآں، میڈیا کو بھی کوئی حق نہیں پہنچتا تھا کہ وہ اس معاملے کو اچھال اچھال کر اپنی کارروائی ڈالتا اور خوش ہوتا رہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ فوجی آمروںکے سامنے شاندار ماضی ضرور ہے لیکن اُن کا مستقبل اتنا ہی تاریک ہے۔ ایک منتخب وزیراعظم کو اگر ایک آمرعدالتی قتل کے ذریعے پھانسی پر لٹکوا سکتا ہے، اور، دوسرا آمر، ایک دوسرے وزیراعظم کو دیگر اہانتوں کے ساتھ ساتھ ہتھکڑیاں لگوا سکتا ہے تو اُسی آمر کو قانون کا سامنا کیوں نہیں کروایا جا سکتا کہ وہ اپنی بے گناہی ثابت کرے، یا کم از کم استغاثہ کے الزامات ہی جھٹلا سکے۔ پہلے منتخب حکومتوں پر شب خون اس لیے مار دیا جاتا تھا کہ کئی سیاستدان بھی انہیں پھولوں کے ہار ڈالنے کے لیے موجود ہوتے تھے۔ اب ایک آدمی پر تکیہ کر کے تو فوج ایسا نہیں کر سکتی، نہ ہی لوگ جمہوریت سے، وہ جیسی بھی ہے، اس قدر بیزار ہیں کہ وہ ایسے کسی انتہائی اقدام کو کھلے بازوئوں سے خوش آمدید کہیں گے۔ لوگ تو تمام تر وجوہ کے باوصف بھارت کے ساتھ بھی قریبی تعلقات چاہتے ہیں، اور فوج کے تحفظات کے باوجود کیا انہیں روکا جا سکتا ہے؟
پھر یہ افغانستان سے نیٹو فوجوں کی واپسی کا سال بھی ہے جس کے بعد پاکستان کے لیے اضافی مشکلات بھی سر اٹھا سکتی ہیں۔ ہمارے اپنے ملک کی صورت حال اس کے علاوہ ہے۔ نیز حکومت مر جی کر ایک دیوالیہ پن سے نکلنے کی کوشش کر رہی ہے اور اس سلسلے میں فوج کے کئی طرح سے اپنے متاثر ہونے کے خدشات بھی موجود ہیں جبکہ فوج تو افراتفری روکنے کے لیے ہوتی ہے، پیدا کرنے کے لیے نہیں، یعنی فوج دہشت گردی سے بھی نمٹے گی، اندر اور باہر کے دشمنوں سے بھی اور ملک کا انتظام بھی سنبھالے گی!
الطاف بھائی کی تو اپنی مجبوریاں ہیں، بہتر ہے کہ چودھری شجاعت اور شیخ رشید بھی اپنا اپنا قبلہ درست کر لیں۔ دونوں آمر نوازی کا مزا چکھ بھی چکے ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ وزرائے کرام اپنے منہ کو لگام دیں اور میڈیا ذمہ داری کا ثبوت دے کہ ان میں سے بعض جہاں سے مستفید ہوتے اس سے کوئی بے خبر نہیں ۔فارم ہائوسز اور ان میں منی بارز رزق حلال کے پیسوں سے نہیں چل سکتے۔ سیاستدان پر کرپشن کے خلاف زبانِ طعن دراز کرنے والوں میں سے کچھ مہربانوں کو اپنے گریبان میں جھانکنے کی بھی ضرورت ہے۔ اگر آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہو تو خیر کی توقع کہاں سے کی جا سکتی ہے۔ اگر میں خود پرلے درجے کا کرپٹ اور ضمیر فروش ہوں تو دوسرں کی اصلاح کا بخار کم ازکم مجھے تو نہیں چڑھنا چاہیے۔
یہ بڑی خوش قسمتی کی بات ہے کہ سابق آرمی چیف جنرل کیانی جمہوریت اور آمریت کے حوالے سے ایک روشن مثال قائم کر گئے اور ملکی تاریخ میں پہلی بار ایک منتخب حکومت سے اقتدار دوسری منتخب حکومت کو منتقل ہوا ہے ۔ایمانداری سے دیکھا جائے تو مارشل لا کا راستہ یہ مردِ میداں خود ہی بند کر گیا ہے۔ حتیٰ کہ مشرف کے خلاف بھی کارروائی جنرل کیانی کے زمانے میں ہی آغاز ہو گئی تھی، اور انہیں افواج پاکستان کے وقار کے تحفظ کا طلب گار ہونے کی ضرورت نہیں پڑی تھی جبکہ اب بھی اس وقار کا خاطر خواہ تحفظ نہ صرف موجود ہے بلکہ اسے آئندہ کوئی خطرہ لاحق نہیں ہو سکتا کیونکہ اس وقار کے محافظ عوام خود ہیں۔ زیادہ امکان یہی ہے کہ جنرل صاحب کا مذکورہ بیان بعض مضطرب حلقوں کی دلنوازی ہی کے لیے تھا کیونکہ نواز شریف نے اُن پر جس اعتماد کا اظہار کیا ہے وہ خود بھی اسے ٹھیس پہنچانے کا تصور نہیں کر سکتے۔ اگرچہ یہ ہمارا فیشن ہے کہ جو حکومت بھی برسر اقتدار آتی ہے بعض مفاد پرست عناصر روز اول سے ہی اس کی بیخ کنی میں لگ جاتے ہیں لیکن موجودہ حالات میں جمہوریت کو کوئی خطرہ ہے نہ فوج کو، کیونکہ دونوں ہی مضبوط بنیادوں پر کھڑے ہیں۔ البتہ اختلاف اور اظہار رائے کا حق ہر کسی کو حاصل ہے اور جمہوریت کی اصل خوبصورتی بھی یہی ہے۔
بہرحال، جنرل صاحب مذکورہ بیان کے ذریعے اپنا پیغام جہاں جہاں پہنچانا چاہتے تھے، بلا روک ٹوک پہنچ گیا ہے اور کسی کو پریشان ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ یہ ملک بھی ہمارا اپنا ہے، اور فوج سمیت اس کے ادارے بھی۔ ہمیں ایک دوسرے کی بات پورے اطمینان اور خوش گمانی سے سننی چاہیے۔
آج کا مطلع
ویراں تھی رات‘ چاند کا پتھر سیاہ تھا
یا پردۂ نگاہ سراسر سیاہ تھا