تحریر : بلال الرشید تاریخ اشاعت     11-04-2014

کائنات کے بارے میں علم انسانی کی تاریخ

ایک کتاب ہے "A brief history of time, from the big bang to black holes" ۔ 1988ء سے 1996ء کے درمیان اس کے گیارہ ایڈیشن شائع ہوئے۔ ایک کروڑ سے زائد کاپیاں فروخت ہوئیں اور اس کا مطلب یہ تھا کہ کائنات میں ذرا سی بھی دلچسپی رکھنے والے ہر شخص نے اسے پڑھ ڈالا۔مصنف کانام ہے سٹیفن ہاکنگ ، جس کے اعزازا ت اور کامیابیوں کا شمار مشکل ہے ۔ مثلاً تیس سال تک وہ یونیورسٹی آف کیمبرج میں Lucasian Professorکی نشست پربراجمان رہا ، جو کہ دنیا کا اعلیٰ ترین علمی عہدہ سمجھا جاتا ہے ۔ سب سے پہلے یہ نیوٹن کو نصیب ہوا تھا۔ہاکنگ آئن سٹائن کے بعددنیا کا عظیم ترین طبعیات دان مانا جاتاہے ۔ اسی نے یہ ثابت کیا کہ بلیک ہول تابکاری خارج کرتے ہیں ۔ بلیک ہول وہ مردہ ستارے ہیں ، جو کبھی ہمارے سورج سے ہزاروں گنا بڑے تھے ۔ ایسے ستارے جب مرتے ہیں تو ان کی کششِ ثقل اس قدر بڑھ جاتی ہے کہ وہ ہر چیز کو اپنے اندر کھینچے لگتے ہیں ؛حتیٰ کہ انہیں چھونے والی روشنی بھی لوٹ نہیں سکتی۔ وہ نظر نہیں آتے لیکن اپنی خوفناک ترین کشش سے وہ بڑے بڑے ستاروں یا سورجوں تک کونگل لیتے ہیں ۔ لینا وہ جانتے ہیں ، دیتے کچھ نہیں ۔ ایسے کنجوسوں سے کوئی توقع رکھنا بڑے دل گردے کا کام تھا مگرسٹیفن ہاکنگ نے ان سے تابکاری کا اخراج ثابت کر دکھایا۔ 
پروفیسر ہاکنگ سر سے پائوں تک معذور ہے ؛حتیٰ کہ زبان بھی ہلا نہیں سکتا۔ 1963ء میں 21برس کی عمر میں اسے موٹر نیورون (جسم کو حرکت دینے والے خلیات )کا عارضہ لاحق ہوا۔ اسے یہ بتایا گیا کہ وہ دو سال سے زیادہ زندہ نہ رہے گالیکن بڑی ہمّت سے اس نے کیمبرج کا رخ کیا ۔وہ زندہ رہا لیکن اس کی صحت تیزی سے گری اور جسم مفلوج ہوتا چلا گیا۔ اپنی ساری کامیابیاں اس نے بے بسی کے اسی عالم میں حاصل کیں ۔ ان میں ایک درجن اعزازی ڈگریاں بھی شامل ہیں ۔ وہ عمدہ حسّ مزاح رکھتا ہے اور کسی قسم کے احساسِ کمتری کا شکار نہیں ۔ وہ اپنے نظریات پر اڑ جانے والا (Rigid) شخص بھی نہیں۔ دنیا میں ہمارے جیسے کم ہمّتوں کی بھی کمی نہیں ، جو ذرا سی بیماری کو عمر بھر کی ناکامی کا بہانہ بنا دیتے ہیں ۔ معلوم یہ ہوا کہ ذہن ہی اصل طاقت ہے اور اصل بیماری دماغی معذوری ہے ۔ 
ہاکنگ کی کتاب کا دیباچہ کارل ساگان نے لکھا ہے ، جس کے تعارف کے لیے ایک الگ کالم درکار ہے ۔اس کا ٹی وی پروگرام "Cosmos, a Personal Voyage"دنیا کے ساٹھ ممالک میں پچاس کروڑ افراد نے دیکھا اور یہ امریکی ٹی وی کی تاریخ کا سب سے بڑا ریکارڈ تھا۔اسی پروگرام سے متعلق پھر اس نے اپنی شاندار کتاب "Cosmos" تحریر کی ۔پروفیسر ہاکنگ کی کتاب پر اپنے دیباچے کا آغاز وہ یہاں سے کرتا ہے :ہم اپنی روزمرّہ کی زندگی کے دوران کائنات کے بارے میں کچھ بھی جان نہیں پاتے ۔ مثلاً زندگی کو ممکن بنانے والا وہ عمل ، جس کے ذریعے سورج کی روشنی جنم لیتی ہے ۔مثلاً وہ کششِ ثقل ، جس نے ہمیں زمین سے باندھ رکھا ہے اور جس کی عدم موجودگی میں ہم خلا میں اڑتے پھر رہے ہوتے ۔ مثلاً ہمارے اجسام کو بنانے والے وہ ایٹم ، جن کے استحکام پر ہماری زندگیوں کا دارومدار ہے ۔ کارل ساگان کا یہ تھیسز99.99فیصد افراد کے بارے میں درست ہے ۔ 
سٹیفن ہاکنگ نے اپنی تصنیف میں سب سے پہلے کائنات کے بارے میں انسانی علم کی تاریخ بیان کی ہے اور یہ رُلا دینے والی ہے ۔ 340قبلِ مسیح میں پہلی بار یونانی مفکر ارسطو نے یہ نظریہ پیش کیا تھا کہ کرّہ ارض ایک سیدھی سطح کی بجائے گول جسم ہے ۔ ظاہرہے کہ بظاہر زمین پر کھڑے کسی بھی شخص کووہ سیدھی ہی دکھائی دیتی ہے ۔ ارسطو نے جن دو وجوہ کی بنا پر یہ اندازہ ظاہر کیا ان میں سے ایک بہت دلچسپ ہے ۔اس نے یہ خیال ظاہر کیا کہ چاند گرہن کے دوران دراصل زمین کا سایہ چاند پر پڑتا ہے اور یہ سایہ ہمیشہ گول ہوتاہے ۔ یہ بڑی باکمال دلیل تھی ۔ یونانیوں کا یہ نکتہ بھی بڑا شاندار تھا کہ بحری جہاز وںکے بادبان تو بہت دور سے نظر آجاتے ہیں لیکن کشتی کا پیندہ قریب آنے پر دکھائی دیتا ہے ؛لہٰذا زمین گول ہے ۔ 
ارسطو کے کئی نظریات مکمل طور پر ناقص تھے۔ مثلاً یہ کہ زمین ساکن ہے اور باقی سب اس کے گرد گھوم رہے ہیں ۔ ان نظریات کی بنیادپر بعد میں آنے والوں نے تفصیلی ماڈل پیش کیے اور وہ پندرھویں صدی تک رائج رہے ۔ سولہویں صدی میں پہلی بار پولینڈ کے ایک پادری نکولس کاپر نیکن نے ڈرتے ڈرتے اپنے قریبی رفقا کے سامنے سورج کو ساکن اور کائنات کا مرکز قرار دیا۔ 1609ء میں دوربین ایجاد ہوئی ۔ ماہرِ فلکیات گیلی لیو گیلی لی نے سیارئہ مشتری کا مشاہدہ کرتے ہوئے اس کے گرد کئی چاندوں کو گردش میں دیکھا(یہ بات تب بڑی خوفناک تھی کہ کرّئہ ارض کے علاوہ بھی کسی سیارے کے گرد کوئی جسم گردش کر سکتاہے لیکن تب بھی یہ ممکن سمجھا جا سکتا تھا کہ مشتری اپنے سارے چاند لے کر ہماری زمین ہی کے گرد محوِ گردش ہو)۔ جیسا کہ ایک بار پہلے لکھا تھا، یہ حقائق ظاہر کرنے گیلی لیو کو مذہب کے ٹھیکیداروں نے ملحد قرار دے کر نظر بند کر دیا تھا اور اسی عالم میں وہ مر گیا۔ 
یہ نیوٹن تھا، جس نے سترھویں صدی میں کایا پلٹ کے رکھ دی ۔ اس نے کششِ ثقل کا ماجرا بیان کیا اور اس کی وضاحت کے لیے درکار ریاضی کے پیچیدہ اصول لکھ ڈالے۔ اس نے چاند کی زمین اور کرّئہ ارض سمیت دیگر سیاروں کی سورج کے گرد حرکت بیان کی۔ پہلی بار اس نے یہ کہا کہ ستارے ان گنت اور کائنات لا محدود ہے ۔
قارئین یہ بڑی بنیادی باتیں ہیں۔ اس کالم میں صرف یہ بیان کرنا مقصود ہے کہ چار سو سال پہلے تک انسان کچھ نہیں جانتا تھا۔ آج کائنات کے بارے میں انسانی علم اپنی انتہا کو پہنچ چکا ہے۔ میں خود کو خوش نصیب سمجھتا ہوں کہ گزری ہوئی انسانی نسلوں نے سارے عقدے ہمارے سامنے کھول کے رکھ دیے ۔ آئیے دیکھیں کہ پراسرار ڈارک میٹر (Dark Matter)سمیت باقی راز کب منکشف ہوتے ہیں !

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved