تحریر : نذیر ناجی تاریخ اشاعت     12-04-2014

لوڈشیڈنگ سے بچ کے کہاں جائیں گے؟

''اس حکومت نے بہت تنگ کر رکھا ہے‘‘۔
''کیوں؟‘‘
'' بجلی دیتی نہیں۔ بل چھوڑتی نہیں۔ ظلم کی بھی حد ہوتی ہے۔‘‘
'' اس میں ظلم کیا ہے؟‘‘
''ظلم یہ ہے کہ ہر وقت تو لوڈشیڈنگ رہتی ہے۔ بل ہمیشہ کی طرح آتا ہے۔ کیا ہم اندھیروں کی قیمت دیں؟‘‘
'' اندھیروں کی قیمت بھی ہوتی ہے؟‘‘
'' بجلی سے بھی زیادہ؟‘‘
'' یہ کیا بیہودگی ہے؟‘‘
''یہ بیہودگی نہیں سیاست ہے۔‘‘
'' اگر تم سمجھتے ہو کہ لوڈشیڈنگ میں سیاست ہے‘ تو پھر روتے کیوں ہو؟‘‘
'' ایک ہی چیز میرے اختیار میں ہے۔ رونا۔ تم اس پر بھی اعتراض کر رہے ہو؟‘‘
'' سیاست کو بھول جائو‘ اپنی بپتا کہو۔‘‘
'' بپتا یہی ہے کہ لوڈشیڈنگ نے تنگ کر رکھا ہے۔‘‘
'' ابھی تک تنگ ہونے کی عادت نہیں پڑی؟‘‘
''کتنی عادتیں پڑیں؟ بھوک کی عادت؟ بیروزگاری کی عادت؟ دہشت گردوں سے ڈرنے کی عادت؟ مہنگائی کی عادت؟ سڑک پر دھکے کھاتے ہوئے چلنے کی عادت؟ ہمارے لئے دنیا میں اور کچھ نہیں رہ گیا؟‘‘
''دنیا میں سب کچھ ہے۔ تمہاری بپتا کیا ہے؟‘‘
''بپتا تو پھر لوڈشیڈنگ کی ہے۔‘‘
''اس میں بپتا کیا ہے؟‘‘
''پڑھ نہیں سکتے۔ بات نہیں کر سکتے۔‘‘
''بات کیوں نہیں کر سکتے؟ اندھیرا کیا منہ بند کر دیتا ہے؟‘‘
''منہ تو بند نہیں کرتا۔ یہ پتہ نہیں چلتا کہ مخاطب کس طرف بیٹھا ہے؟ سامنے منہ کر کے بات کرتا ہوں۔ سننے والا پیچھے ہوتا ہے۔ پیچھے منہ کر کے بات کرتا ہوں‘ تو وہ دائیں بائیں کھڑا ہوتا ہے۔ بالکل ایسے‘ جیسے ڈرامے ''شرطیہ مٹھے‘‘ میں ببو برال اور امان اللہ ایک دوسرے سے بات کرتے ''ہیں۔‘‘
''گھر میں موبائل نہیں؟‘‘
'' ہے۔‘‘
'' اسے آن کر لیا کرو۔‘‘
''کیسے کروں؟ ‘‘
''وہ خراب ہے؟‘‘
''نہیں‘‘
''خراب نہیں تو چارج کر لیا کرو۔‘‘
'' کس سے چارج کروں؟ اندھیرے سے؟‘‘
'' چارجنگ تو اندھیرے میں بھی ہو جاتی ہے۔‘‘
'' میں اکیلا رہتا ہوں۔‘‘
'' کوئی ماچس ڈھونڈنے والا بھی نہیں؟‘‘
'' ہے تو سہی لیکن ڈر لگتا ہے۔‘‘
'' ڈر کیوں لگتا ہے؟‘‘
''جس کے ہاتھ میں ماچس آ جائے‘ وہ آگ لگا دیتا ہے۔‘‘
''کسی پاگل کے ساتھ رہتے ہو؟‘‘
'' پاگل نہیں‘ بیروزگار کے ساتھ رہتا ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ لوڈ شیڈنگ 6 کی بجائے 9 گھنٹے ہو جائے‘ اسے نوکری مل جائے۔‘‘
''کیوں بیچارے کا بیڑا غرق کرتے ہو؟‘‘
''وہ کیسے؟‘‘
''لوڈشیڈنگ بڑھنے سے اسے نوکری کیسے مل جائے گی؟‘‘
''تین گھنٹے کی لوڈشیڈنگ بڑھانے سے جتنی بجلی بچے گی‘ وہ کارخانوں کو جائے گی۔ کارخانوں کو زیادہ بجلی ملے گی تو وہ زیادہ وقت چلیں گے۔ کارخانے زیادہ وقت چلانے کے لئے‘ زیادہ کاریگر درکار ہوں گے۔ اس طرح اسے نوکری مل جائے گی۔‘‘
''تمہیں شیخ چلی یاد ہے؟‘‘
''اسے کیوں یاد کروں؟‘‘
''اس لئے یاد کرو کہ شیخ چلی نے ایک درجن انڈوں سے کاروبار شروع کر کے‘ اسے بڑھاتے بڑھاتے پولٹری فارم تک پہنچا لیا تھا۔ مگر جب ٹھوکر لگی‘ تو اس کے سامنے 12 انڈے ٹوٹے پڑے تھے۔ تم بھی لوڈشیڈنگ میں کمی کر کے کارخانے چلائو۔ اپنے دوست کو نوکری دلوائو۔ اسے ترقی دیتے دیتے افسر بنائو۔ مگر جب خواب ٹوٹے گا‘ تو اسی کمرے میں 3 گھنٹے کی مزید لوڈ شیڈنگ بھگتو گے اور ساتھ ہی تمہارا بیروزگار دوست بھی بھگت رہا ہو گا۔‘‘
''کیا میرے دوست کو نوکری نہیں مل سکتی؟‘‘
''اس کے پاس رقم کتنی ہے؟‘‘
''پانچ دس روپے ہوں گے۔‘‘
''یوںکرو‘ اسے 10 روپے اور دے دو۔‘‘
''وہ کس لئے؟‘‘
''آج رات کی روٹی کھا لے گا۔‘‘
''تم نے پیسوں کا کیوں پوچھا تھا؟‘‘
''اس لئے پوچھا تھا کہ وہ کتنی رقم والی نوکری خرید سکتا ہے؟‘‘
''اب نوکری بھی خریدنا پڑے گی؟‘‘
''وہ دن گئے‘ جب ڈگری اور درخواست پر نوکری ملتی تھی۔ اب یا رقم چاہیے یا سفارش۔ اس کا کوئی جاننے والا ہے؟‘‘
''پانچ سات بیروزگار دوست ہیں۔‘‘
''و ہ کچھ نہیں کر سکتا۔ پیسے اس کے پاس نہیں۔ کوئی ممبر‘ وزیر یا مشیر اس کا جاننے والا نہیں اور بیروزگار دوستوں کی تعداد چھ سات سے زیادہ نہیں۔ وہ یہاں کیا کرے گا؟ بیروزگاروں کا جلوس تک نکالنے کے قابل نہیں۔ نوکری اسے کون دے گا؟‘‘
''ہم اس کی نوکری میں پھنس کر رہ گئے۔ میں تو اپنا رونا رو رہا تھا کہ لوڈشیڈنگ کا بل بہت بڑھ گیا ہے۔ اس سے جان کیسے چھڑائوں؟‘‘
''بجلی کٹوا دو۔ لوڈشیڈنگ کے بل سے بچ جائو گے۔‘‘
''بجلی کیسے کٹوائوں؟‘‘
''تمہارے پاس کتنی استریاں ہیں؟ ‘‘
''ہم دونوں کی ایک ایک شادی نہیں ہوئی‘ استریاں کہاں سے آئیں گی؟‘‘
''میں وہ استریاں نہیں پوچھ رہا۔ میں یہ پوچھ رہا ہوں کہ کپڑے استری کرنے والی استریاں کتنی ہیں؟ پانی گرم کرنے والی کوئی راڈ ہے؟‘‘
''ہمارے پاس ایک استری تو ہے۔ پانی گرم کرنے والی ایک راڈ بھی ہے۔ چائے بنانے کے لئے ایک بجلی کی کیتلی ہے۔‘‘
''محلے سے مزید ایسی ہی چیزیں جتنی بھی ملیں اکٹھی کر لو۔ جب بجلی آئے‘ ان سب کو آن کر دو۔‘‘
''اس سے کیا ہو گا؟‘‘
''اتنا بل تم دے نہیں پائو گے۔ میٹر خودبخود کٹ جائے گا۔ نہ بجلی ہو گی‘ نہ لوڈ شیڈنگ۔ البتہ بل سے‘ تم پھر بھی نہیں بچ پائو گے۔‘‘
''وہ کیسے؟‘‘
''تمہارے گھر کے سامنے سٹریٹ لائٹ ہے؟‘‘
''بالکل سامنے ہے۔‘‘
''اس کا بھی بل آ جائے گا۔‘‘
''میں وہ بل نہ دوں تو؟‘‘
''شہر کی بجلی کٹ جائے گی۔ جان تمہاری پھر بھی نہیں بچے گی۔‘‘
''و ہ کیوں؟‘‘
''گھر اور سٹریٹ لائٹ کے بل تو دینا پڑیں گے۔‘‘
''میں ملک چھوڑ کے ہی بھاگ جائوں گا۔‘‘
''تمہیں انٹرپول والے پکڑ کے واپس پاکستان پہنچا دیں گے۔ لوڈ شیڈنگ کا بل تو دینا ہی پڑے گا۔‘‘

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved