ان لوگوں کا کوئی ماتم نہیں کرے گا۔ یہ خاک نشینوں کا خون تھا‘ رزق خاک ہو گیا۔ ٹرین کی متروک سواری پر اپنی غربت کی وجہ سے سفر کرنے والے پردیسی لوگ‘ جن کا مارنے والوں سے کوئی مسلکی اختلاف نہیں تھا۔ کوئی جبہ و دستار پہن کر ٹیلی ویژن پر ان کے حق میں شعلہ فشانی نہیں کرے گا۔ کسی خانقاہ یا مدرسے کے مفتی کو ان قاتلوں کے خلاف فتویٰ دینے کی ضرورت محسوس نہیں ہو گی جو مفلوک الحال لوگوںکو خون میں نہلاتے ہیں۔
سبی شہر اور اس کا ریلوے اسٹیشن میری خوبصورت یادوں میں سے ایک ہے۔ اس شہر نے مجھے بہت سی محبتوں سے نوازا ہے۔ دو سال اس شہر میں ڈپٹی کمشنر رہنے کے بعد جب میرا تبادلہ ہوا تو پورا شہر مجھے پیدل جلوس کی صورت میں ریلوے اسٹیشن تک چھوڑنے آیا تھا۔ وہ پلیٹ فارم جہاں میں نے ہنستے مسکراتے چہرے دیکھے تھے اور وہی ٹرین جس پر سوار ہو کر میں درۂ بولان کی جانب روانہ ہوا تھا۔ اس پر آگ کے شعلوں میں لپٹی ٹرین دیکھی تو بے اختیار اشک رواں ہو گئے۔ ٹرین کا طویل سفر عجیب ہوتا ہے۔ ایک نشست پر بائیس تئیس گھنٹے گزارنے، گھروں سے لائے ہوئے ناشتہ دانوں کو کھولنے اور مل جل کر کھانا کھانے کے تجربے کا کوئی بدل نہیں۔ تیسرے درجے کے ڈبوں میں تو محبتوںکی ایک دنیا آباد ہوتی ہے۔ یوں لگتا ہے یہاں چوبیس گھنٹے گزارنے والے برسوں سے ایک دوسرے کو جانتے ہیں۔ لاہور سے روانگی کے بعد سبی کا ریلوے اسٹیشن آتا تو بیس گھنٹوں کی تھکن امید میں بدلنے لگتی کہ اب کوئٹہ چند گھنٹوں کی مسافت پر ہے۔ یہ سفر بھی خوبصورت ہوتا۔۔۔۔۔ درہ بولان کی بھول بھلیاں، لمبی لمبی سرنگیں اور کوئٹہ کی خوبصورت وادی۔ سبی ریلوے اسٹیشن سے ہی سفر ختم ہونے کا احساس ہونے لگتا، مسافر سامان درست کرنے لگتے۔ وہ لمحہ ایسا ہی تھا جب ٹرین کے مسافروں پر قیامت ٹوٹ پڑی۔
اس سے پہلے خضدار کے قریب ایک آپریشن اور اس میں علیحدگی پسندوں کی موت اور پورے علاقے سے ان کا صفایا کرنے کی اطلاعات اخبارات کی زینت بنیں۔ بلوچستان کے دو علاقے ایسے ہیں جو مرکز مخالف اور علیحدگی کی تحریکیں چلنے کے وقت سب کی توجہ کا مرکز بن گئے۔۔۔۔۔ ایک درۂ بولان کے بالکل درمیان میں بی بی نانی اور پیر غائب کے اطراف کے پہاڑ جہاں سے ایک راستہ منگوچر کو نکلتا اور سپلنجی کے کٹے ہوئے علاقے سے ہو کر گزرتا ہے، انہی پہاڑوں سے دوسرا راستہ مچھ کے پاس سے کوئلے کی کانوں سے گزرتا ہوا مری قبائل کی سرزمین تک جا پہنچتا ہے۔ دوسرا علاقہ سبی کے ساتھ ہرنائی کی ریلوے لائن کے دونوں اطراف پھیلا ہوا ہے جہاں مری قبائل آباد ہیں۔ یہاں سے ایک راستہ کٹ منڈائی والا کو اور دوسرا سبی سے کاہان والا کی جانب نکلتا ہے۔ ان دونوں علاقوں میں حالتِ امن میں بھی فراری کیمپ موجود رہتے ہیں۔ بی بی نانی سے جانے والے راستے پر جسے رودبار کا علاقہ کہتے ہیں، مدتوں سے عبدالنبی بنگلزئی اپنی بندوق تھامے پہاڑوں پر بیٹھا ہے۔ 1977ء سے 1999ء کا عرصہ بلوچستان میں امن اور ترقی کا دور تھا۔ شاہراہیں پُرامن تھیں، اغوا، نہ ڈکیتی اور نہ ہی قتل و غارت، لوگ میلوں ایسی سڑکوں پر سفر کرتے جہاںکئی میل سفر کرنے کے بعد بھی آبادی کا نام و نشان نہ ملتا مگر کسی کے دل میں ڈر یا خوف نہ ہوتا۔ اُس پُرامن دور میں بھی ان دونوں علاقوں میں عبدالنبی بنگلزئی اور توکل کیمپ موجود تھے؛ تاہم یہ ایک علامت سی بن کر رہ گئے تھے۔ لیکن 1999ء کے بعد حالات ایسے ہوئے کہ یہ سلگتے ہوئے کیمپ الائو بن چکے ہیں جنہوں نے پورے بلوچستان کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ مکران میں کسی بھی وقت مسلح جدوجہد کی علامتیں موجود نہ تھیں کہ بالغ نظری اور تعلیم یہاں پورے بلوچستان سے زیادہ ہے۔ مکرانی اعلیٰ سرکاری عہدوں پر سب سے زیادہ فائز تھے اور آج بھی ہیں۔ شعر و شاعری، ادب و فن ان کی میراث ہے۔ یہ صلح جو ہیں، ہتھیار سے دور اور شاعری و ادب کے دلدادہ۔ اب مکران سے ملحقہ علاقے آواران میں شدت پسندی کا ایک تیسرا مرکز پیدا ہو چکا ہے۔ یہاں ڈاکٹر اللہ نذر کی قیادت میں بلوچ مسلح افراد ریاست سے جنگ میں مصروف ہیں۔ یہ اچانک نہیں ہوا۔ کتنے تجزیہ نگار ہیں جو اس کا ماخذ پاکستان سے ریاست قلات کے الحاق سے شروع کرتے ہوئے خان آف قلات کے غیر مشروط الحاق کے خلاف اس کے چھوٹے بھائی شہزادہ عبدالکریم کی بغاوت کو جانتے ہیں جو مکران کا گورنر تھا۔ اس نے وہاں کے اسلحے اور خزانے پر قبضہ کر کے تقریباً پانچ سو ساتھیوں کے ساتھ بغاوت کا اعلان کیا، لیکن اس وقت کے بلوچ رہنمائوں غوث بخش بزنجو اور گل خان نصیر وغیرہ نے اس سلسلے میں سرد مہری کا مظاہرہ کیا۔ عبدالکریم تنہا تھا لیکن افغانستان کی مدد سے اس کی طاقت میں اضافہ ہوا اور اس نے فوج کے خلاف چھاپہ مار کارروائیوں کا آغاز کر دیا۔ یہ بلوچستان بلکہ پاکستان کے معاملات میں پہلی بیرونی مداخلت تھی۔ اس کے بعد 6 اکتوبر 1958ء کو اچانک پاکستانی افواج قلات میں داخل ہو گئیں۔ یہ ملک میں ایوب خان کا مارشل لاء لگنے سے ایک دن پہلے کی بات ہے۔ خان آف قلات کو گرفتار کر لیا گیا، تمام آبائی اشیاء ضبط کر کے تین سو قبائلیوں کو بھی حراست میں لے لیاگیا۔ یہ ملک میں مارشل لاء لگانے کا ایک بہانہ تھا۔ صرف دڈھ میں تھوڑی بہت جھڑپیں ہوئیں۔ یہاں وہ مشہور واقعہ پیش ہے جو آج بھی بلوچوں کو یاد ہے۔ نواب نوروز خاں کو قرآن پر حلف دے کر پہاڑوں سے اتارا گیا لیکن اسے عمر قید سنائی گئی اور اس کے ساتھیوں کو پھانسی دے دی گئی۔ اس قصے کے ساتھ دھوکے اور قرآن سے بے وفائی کی کہانیاں بلوچوں میں زبانِ زد عام ہیں۔
بلوچستان میں اصل خرابی مقبول ترین عوامی رہنما ذوالفقار علی بھٹو کی عدم برداشت کی وجہ سے پیدا ہوئی۔ بلوچستان اور سرحد میں بھٹو کی مخالف حکومتیں تھیں جو ان کے مزاج کو گوارا نہیں تھیں۔ پھر عالمی سازش کا تانا بانا بُنا گیا، لندن پلان، عراق کے سفارت خانے سے اسلحہ کی برآمدگی اور پھر بلوچستان پر فوج کشی۔ تمام بلوچ رہنما جن میں آئین پاکستان پر حلف اٹھانے والے غوث بخش بزنجو، عطااللہ مینگل، گل خان نصیر اور خیر بخش مری شامل تھے، سب کے سب غداّر قرار پائے۔ اسی زمانے میں سبی کے اردگرد پہاڑوں اور خضدار کے نواحی علاقوں میں فراری کیمپ قائم ہوئے۔ ضیاء الحق نے عام معافی کا اعلان کیا تو پانچ سال کی مسلح جدوجہد سے اکتائے ہوئے بلوچوں نے اسے غنیمت جانا۔ اس وقت بھی اس ساری جدوجہد کو افغانستان میں پناہ ملتی اور روس اور بھارت کی جانب سے مالی اور تکنیکی مدد۔ اب اس راز کو بلوچستان میں بسنے والا ہر شخص جانتا ہے۔ یہ پاکستان میں دوسری بیرونی مداخلت تھی لیکن اس دفعہ ہم بھی اس کے قصوروار تھے۔ ہماری انا کے بت نے بلوچوں کو چکنا چور کر دیا۔ ان کے اندر جو آگ مدتوں سلگ رہی تھی وہ بھڑک اٹھی بلکہ شعلہ جوالہ بن گئی۔ اس کے بعد یہ آگ ٹھنڈی ہو گئی اور تقریباً 22 برس ٹھنڈی رہی۔ نفرتیں، تعصّب، دشمنی ایسی چیزیں اس صوبے سے کہیں دور جا بسیں۔ ایسے میں پرویز مشرف آ گیا۔ ایک اور انا پرست، خود کو عقل کُل اور طاقت کا سرچشمہ سمجھنے والا۔ نواب اکبر بگٹی کی بے وجہ ہلاکت اور پھر اس سے شروع ہونے والے ردّ عمل نے دونوں جانب کی بندوقوں کو آمنے سامنے کر دیا۔ لیکن اس دفعہ صرف افغانستان اور بھارت نہیں بلکہ تقریباً ایسے سات سے زیادہ ملک ان کی پشت پر ہیں جن کا مفاد اس میں ہے کہ اس خطے میں بدامنی اور انتشار رہے۔ یہ بہت تفصیل طلب قصہ ہے جسے مسند اقتدار پر بیٹھے سب لوگ جانتے ہیں بلکہ اب تو بلوچوں کا بچہ بچہ بھی جانتا ہے کہ کون کہاں سے کیا کچھ حاصل کر رہا ہے۔ لیکن یہ چنگاری ہماری تھی جسے آگ دکھانے کا کام دوسروں نے کیا۔ اس آگ میں ہمارا گھر جل رہا ہے مگر اس کا دکھ تبصرہ نگاری تک محدود ہو کر رہ گیا ہے۔ ہم ظالم اور متعصب ہیں کہ ہمارے معیارات الگ الگ ہیں۔ ہم مون مارکیٹ، اسلام آباد اور راولپنڈی کے دھماکوں کا برسوں ماتم کرتے ہیں لیکن بسوں سے اتار کر شناختی کارڈ دیکھ کر قتل کیے جانے والے پنجابیوں کا صرف ایک خبر میں تذکرہ کر کے خاموش ہو جاتے ہیں۔ ہم طالبان کی قتل و غارت کو دہشت گردی اور بلوچستان کی بربریت کو حقوق کی جنگ کہتے ہیں۔ یہ سب ہمارا المیہ ہے۔ اس ملک کے بسنے والے اب یہ جان گئے ہیں کہ ہر مسلک کا بندہ اپنے ہم مسلک کی حمایت کرے گا۔ ڈاکٹر ، وکیل، بلوچ، پشتون، پنجابی سب اپنے اپنے تعصب کے پنجرے میں قید ہیں۔ ان پنجروں سے رہائی کے بغیر صرف تباہی ہے جو ہمارا شدت انتظار کر رہی ہے۔