چند دن پہلے میں ایک انگریزی اخبار کے پہلے صفحے پر ایک رپورٹ، جس میں تحریک طالبان پاکستان کی مذاکراتی ٹیم کے ایک رکن کا بیان درج تھا‘ پڑھ کر حیران رہ گیا۔ مولانا کا کہنا تھا کہ طالبان دہشت گرد نہیں بلکہ ''ریاست سے ناراض بھائی ہیں‘‘۔
بہت اچھے، اگر صرف ہلکا پھلکا ناراض ہونے سے ہی کوئی پچاس ہزار سے زائد بے گناہ مرد‘ عورتیں اور بچے ہلاک کر دے تو پھر یہ سوچ کر بدن پر لرزہ طاری ہو جاتا ہے کہ اگر یہ لوگ واقعی غصے میں آ گئے تو کیا ہو گا؟ ان صاحب کو ملنے والی پذیرائی اس بات کا اظہار ہے کہ آج کل طالبان کے بہت سے ترجمانوں کو ریاست نے اپنے مساوی سٹیک ہولڈر کے درجے سے نواز دیا ہے اور میڈیا بھی اس ''مینڈیٹ‘‘ کا احترام کرتا ہے۔ درجنوں قیدیوں کی غیر مشروط رہائی سے بھی یہ تاثر گہرا ہوتا ہے کہ طالبان کو خفیہ مذاکراتی عمل میں بالا دستی حاصل ہے اور وہ اپنی شرائط منوا رہے ہیں۔ درحقیقت شہباز تاثیر، علی حیدر گیلانی اور پروفیسر اجمل، جنہیں طالبان نے تاوان کی خاطر اغوا کر رکھا ہے، کی رہائی کی کوئی یقین دہانی حاصل کرنے میں ناکامی حکومت کی کمزوری کا مظہر ہے۔
اس ضمن میں اپوزیشن کا طرز عمل بھی مایوس کن ہے کیونکہ وہ پی پی او (پاکستان پروٹیکشن آرڈیننس) کی حمایت کرنے میں ناکام رہی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس آرڈیننس کی بہت سی شقیں کسی بھی جمہوری نظام کے لیے ناقابلِ قبول ہیں لیکن یہ حقیقت فراموش نہیںکی جانی چاہیے کہ ہم کوئی عام جنگ نہیں لڑ رہے اور نہ ہی ہمارا واسطہ ایسے دشمن سے ہے جو آئینی تقاضوں کا لحاظ رکھتا ہو۔ ہم دیکھ چکے ہیں کہ 9/11 کے بعد دہشت گردی کے سد باب کے لیے امریکی اور دیگر جمہوری ریاستوں میں بہت سے جابرانہ قوانین بنائے گئے۔ بہرحال، یہ بات بھی کہی جا سکتی ہے کہ ہمارے ملک میں دہشت گردوں سے نمٹنے میں ناکامی کی وجہ سکیورٹی فورسز کے پاس آئینی اختیارات کی کمی نہیں بلکہ ہم اس عزم سے تہی داماں ہیں جو دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑنے کے لیے درکار ہے۔ دراصل سکیورٹی فورسز موجودہ قوانین پر عمل کر کے بھی دہشت گردی پر قابو پا سکتی تھیں لیکن شاید بوجوہ ایسا نہیں کیا گیا۔
کراچی سے کوہاٹ تک، دہشت گردوںکی طرف سے کیے جانے والے حملوں سے ایک بات کا خدشہ محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے ہاں فورسز کی ٹریننگ، انٹیلی جنس حاصل کرنے کی صلاحیت، قیادت اور ھارڈ ویئر میںکچھ کمی ضرور ہے جو انتہا پسند انہیں اتنی آسانی سے نشانہ بنا لیتے ہیں۔ گزشتہ سال بنوں جیل پر حملے، جس میں طالبان نے اپنے دو سو اڑتالیس قیدی چھڑا لیے، سے بہت پہلے پشاور کے حکام کو اس متوقع حملے سے خبردار کر دیا گیا تھا لیکن جب طالبان نے حملہ کیا تو تیاری کے باوجود ایلیٹ فورس کے جوان اور جیل کے گارڈ دہشت زدہ ہو کر بھاگ گئے۔ 2009ء میں طالبان نے جی ایچ کیو راولپنڈی پر حملہ کیا۔ سکیورٹی اہل کاروںکی وردیاں پہن کر دہشت گرد تھوڑی سی گن فائٹ کے بعد بھاری بھرکم سکیورٹی کا حصار توڑنے میںکامیاب ہو گئے۔ اس میں ہونے والے جانی نقصان کو جانے دیں، اٹھائی جانے والی ہزیمت کا کیا کیا جائے؟
میں نے صرف چند ایک واقعات بیان کیے ہیں، ایسے بہت سے واقعات ہیں جب دہشت گردوں نے بلاخوف کارروائی کی اور شہریوں اور سکیورٹی اہل کاروںکا خون بہایا۔ ان مثالوں سے ایک حقیقت عیاں ہوتی ہے کہ ان حملوںکے مقابلے میں ہماری تیاری کا معیار درست نہیں۔ اس میں آئینی کمزوری کا کوئی ایشو نہیں۔ عوام یہ تکلیف دہ سوال اٹھانے پر مجبور ہیں کہ جب ہمارے ادارے اپنے دفاتر کو بھی محفوظ نہیں بنا سکتے تو وہ عوام کو کیسے تحفظ فراہم کریں گے۔ 2012ء میں کامرہ کے منہاس ایئر بیس پر حملے کے بعد ہونے والی کورٹ مارشل کی کارروائی کے دوران ایک گارڈ نے بتایا کہ اس کے پاس رات کو دیکھنے والے آلات نہیں تھے اور اُسے رات کے وقت ہونے والی فائرنگ سے نمٹنے کی تربیت نہیں دی گئی تھی۔ گزشتہ سال ایف سی کے ایک اعلیٰ افسر کا بیان سامنے آیا تھا کہ اس کے جوانوں کو مطلوبہ تعداد میں ہتھیار اور بلٹ پروف جیکٹس فراہم نہیں کی گئیں۔ اس وقت بھی پولیس کے لیے غیر معیاری ہتھیار خریدنے کا مقدمہ خیبر پختونخوا میں چل رہا ہے۔
درحقیقت سخت سے سخت قوانین بھی اچھی سکیورٹی کو یقینی نہیں بنا سکتے۔ ہم اس معاملے کو اتنے غیر سنجیدہ انداز میں لے رہے ہیں کہ گزشتہ دو عشروںسے پاکستان، اس کے شہری اور اس کے سکیورٹی ادارے بدترین دہشت گردی کا شکار ہیں لیکن ابھی تک نہ تو سکیورٹی اہل کاروںکو مطلوبہ ہتھیار فراہم کر پائے ہیں اور نہ ہی اُنہیں دہشت گردی سے نمٹنے کی تربیت دینے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ اپنی بقا کے اس انتہائی سنجیدہ مسئلے سے نمٹنے کے لیے تمام تر وسائل کو بروئے کار لانے کی بجائے سیاسی جماعتیں بے کار اور لاحاصل معاملات پر بحث مباحثے میں وقت ضائع کرتی رہی ہیں۔ اس کے علاوہ ہمارا کمزور قانونی نظام بھی دہشت گردی جیسے عفریت کا سر قلم کرنے سے قاصر ہے۔ ہماری عدالتوں سے قاتلوں اور دہشت گردوںکو آسانی سے ضمانت پر رہائی مل جاتی ہے یا ''ناکافی ثبوت‘‘ کی بنا پر انہیں چھوڑ دیا جاتا ہے۔ حاصل ہونے والی اطلاعات کی بنا پر میں کہہ سکتا ہوں کہ قتل کی صرف گیارہ فیصد وارداتوں کے مجرموں کو سزا ملتی ہے۔
جس دوران ہمیں ریاستی نظام کی تباہی پر تلے ہوئے انتہائی سفاک اور بے رحم دشمن کا سامنا ہے، ریاست کا رد عمل انتہائی کمزور ہے۔ طالبان اپنے مقصد میں تیر کی طرح سیدھے اور فولاد کی طرح بے لچک ہیں جبکہ ریاست ان کے ہاتھ میں موم کی ناک بنی ہوئی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ہم اجتماعی خود کشی پر تلے ہوئے ہیں؛ تاہم یہ جنگ، جس میں ہم بتدریج شکست کھا رہے ہیں، میدان کے علاوہ ہمارے کلاس رومز اور ٹی وی اسٹوڈیوز میں بھی لڑی جا رہی ہے۔ ہم اپنے بچوں کے ذہنوں میں نفرت کا زہر بھر رہے ہیں جبکہ ہمارے نامی گرامی ٹی وی اینکرز عدم برداشت اور انتہائی نظریات کا پرچار کرتے ہیں۔ وہ اکثر نیم خواندہ (جو ناخواندہ سے کہیں زیادہ خطرناک ہوتے ہیں) مولویوں کو اپنے پروگراموں میں بلا کر معاشرے میں تعصبات پھیلاتے ہیں۔ جب یہ تمام عوامل جاری ہیں تو پی پی او قانون بنانے سے کیا تبدیلی ممکن ہے؟ قانون ہمت اور ارادے کا متبادل نہیںہوتا۔ لڑنا تو دورکی بات، ابھی تو ہم اپنے دشمن کی شناخت بھی نہیںکر پائے۔