تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     12-04-2014

بس، بندہ ڈھیٹ ہونا چاہیے!

بھارت میں سیاسی مہا بھارت کا موسم چل رہا ہے۔ انتخابی معرکہ آرائی میں سبھی اپنا زورِ بازو دکھانے کے لیے ڈیڑھ دو ماہ سے طرح طرح کے تجربے کرتے آئے ہیں۔ ہر قابلِ ذکر سیاسی جماعت نے چاہا ہے کہ اقتدار کا ہُما اُس کے سر پر بیٹھے۔ کانگریس کی گرتی ہوئی ساکھ کا بھرپور فائدہ اٹھانے کے لیے بھارتیہ جنتا پارٹی نے ایک سے بڑھ کر ایک دعوے اور وعدے کیے ہیں۔ آخر آخر میں تو انتہا پسند ہندوؤں کو خوش کرنے کے لیے وزارتِ عظمٰی کے امیدوار اور گجرات کے وزیر اعلیٰ نریندر مودی نے یہ بھی کہا کہ وہ وزیر اعظم بننے کے بعد ملک بھر میں گوشت کی مارکیٹیں بند کردیں گے۔ 
نریندر مودی گوشت کی مارکیٹیں بند کر پائیں گے یا نہیں، یہ تو آنے والا وقت بتائے گا مگر ایک صاحب ایسے بھی ہیں جو مستقل ہارتے رہنے پر بھی آرزو اور اُمّید مارکیٹ بند کرنے کو تیار نہیں۔ یہ ہیں ڈاکٹر پدم راجن۔ جنوبی ریاست تامل ناڈو میں یہ ایک ٹائر کمپنی کے مالک ہیں۔ اِنہوں نے ایک انوکھا شوق پالا ہے، الیکشن لڑنے کا شوق۔ اور صرف لڑنے کا نہیں بلکہ ہارنے کا بھی۔ ڈاکٹر پدم راجن کہتے ہیں کہ اُنہیں الیکشن ہارنے کا کوئی افسوس نہیں ہوتا۔ وہ تو الیکشن ہارنے کا ریکارڈ قائم کرنا چاہتے ہیں۔ 
ڈاکٹر پدم راجن کو انتخابی اکھاڑے میں مرکزی دھارے کے سیاست دانوں کے سامنے کھڑے ہونے کا شوق ہے۔ اب تک وہ اٹل بہاری واجپائی، من موہن سنگھ، ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام اور پرتیبھا پاٹل سمیت بہت سے بڑے سیاست دانوں کے مقابل انتخابی میدان میں اُتر چکے ہیں۔ لوک سبھا، راجیہ سبھا، ودھان سبھا (صوبائی اسمبلی)، پنچایت کمیٹی، صدر اور نائب صدر کا انتخاب ... کون سا انتخابی معرکہ ہے جس کے لیے ڈاکٹر پدم راجن میدان میں نہیں اُترے! گویا ع 
ناوک نے تیرے صید نہ چھوڑا زمانے میں 
ڈاکٹر پدم راجن 25 برس میں 158 الیکشن ہار چکے ہیں۔ اِس بار وہ وزارتِ عظمیٰ کے امیدوار نریندر مودی کے مقابل بڑودہ کے حلقے سے لوک سبھا کے الیکشن میں کھڑے ہوئے۔ 
ڈاکٹر پدم راجن اُن چند افراد میں سے ہیں جنہیں دیکھ کر دِل کو کچھ سُکون ملتا ہے۔ اُن کی ناکامیوں کی فہرست دیکھ کر اطمینان ہوتا ہے کہ ہم ابھی اِتنے نہیں ہارے۔ مگر صاحب! شکست کا سامنا کرنا یا نہ کرنا کوئی بڑا مسئلہ نہیں۔ اہمیت اِس بات کی ہے کہ آپ کس حد تک ثابت قدم رہتے ہیں۔ اور ڈاکٹر پدم راجن نے تو ثابت قدم رہنے کی حد ہی کردی ہے۔ وہ ہارے جارہے ہیں اور اِس پر بے مزا ہونے کی بجائے ریکارڈ پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ سب سے زیادہ الیکشن ہارنے کا عالمی ریکارڈ اُن کے نام ہو۔ یہ ثابت قدمی کچھ کچھ نریندر مودی اور اُن کے ہم خیال لوگوں میں بھی جھلک دکھا رہی ہے۔ مودی اینڈ کمپنی پر یہ الزام لگتا رہا ہے کہ وہ مسلمانوں کے مخالف ہیں۔ اور پھر جب وضاحت طلب کی جاتی ہے یا گوشمالی کی جاتی ہے تو وہ اپنے موقف سے ہٹ جاتے ہیں اور یہ کہتے ہوئے دامن بچانے کی کوشش کرتے ہیں کہ مسلمانوں سے متعلق اُن کے بیان کو سیاق و سباق کے بغیر پیش کیا گیا۔ مگر پھر جب ضرورت پڑتی ہے تب وہ پھر ہَتّھے سے اُکھڑ جاتے ہیں اور پھر مسلمانوں کے خلاف بیان داغ دیتے ہیں۔ اِس اعتبار سے دیکھیے تو اِس بار ڈاکٹر پدم راجن نے بڑودہ سے الیکشن لڑنے کا فیصلہ بالکل درست کیا ہے۔ نریندر مودی بھی مستقل مزاجی کی انوکھی مثال ہیں۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کی سوچ کے مطابق نریندر مودی مسلمانوں کو کسی نہ کسی بیان سے تکلیف دینے کی روش پر گامزن رہتے ہیں۔ 
مرزا تنقید بیگ کو ہم نے ڈاکٹر پدم راجن کے بارے میں بتایا کہ تو اُنہوں نے کہا: ''یہ محترم تو ہمیں خالص پاکستانی معلوم ہوتے ہیں۔‘‘ ہم نے وضاحت چاہی تو مرزا بولے۔ ''اللہ بُری نظر سے بچائے، ہم بھی تو کسی طور ہمت نہیں ہارتے اور جو کچھ نصیب سے ملتا رہے، اُسے لیتے رہتے ہیں۔ ڈاکٹر پدم راجن ہارتے جارہے ہیں اور تھکنے کا نام نہیں لے رہے۔‘‘ 
ہم نے عرض کیا کہ اِس میں ڈاکٹر پدم راجن کا تو کچھ خاص کمال نہیں۔ مرزا نے تُنک کر جواب دیا: ''میاں! ساری بات ہمت کی ہے۔ اب یہی دیکھو کہ ہمارے ہاں بہت سے لوگ تنخواہ سے زیادہ اوپر کی آمدنی پر یقین رکھتے ہیں۔ اب آپ اِس رجحان پر اُنہیں کتنا ہی ذلیل کیجیے، اُن کے کانوں پر جُوں تک نہیں رینگتی۔ اُنہیں دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ 'مستقل مزاجی‘ بھی کوئی چیز ہے۔‘‘ 
مرزا کی بات کو مکمل طور پر مسترد کرنا بھی درست اور ممکن نہیں۔ ڈاکٹر پدم راجن کو برابر کی چوٹ دینے والے ہمارے ہاں موجود ہیں۔ بس یہ ہے کہ انداز تھوڑا سا مختلف ہے۔ پنجابی اور پشتو فلموں میں کام کرنے والے بھی اِسی ذیل میں آتے ہیں۔ چند برس پہلے تک پاکستان کی فلم انڈسٹری بھی ڈاکٹر پدم راجن کے اُصول پر کام کر رہی تھی یعنی ناکامی پر ناکامی کو گلے لگاؤ اور یہ سوچ کر خوش ہو رہو کہ اور کچھ نہ سہی، ناکامی کا ریکارڈ تو بن ہی گیا ہوگا! پاکستان کے طول و عرض میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو اپنے اپنے شعبوں میں ناکامی پر ناکامی سے دوچار ہوتے رہے ہیں مگر ''عزیمت‘‘ کے معاملے میں اب تک کامیاب رہے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو ''ہم ہاریں یا جیتیں، ہمیں اپنے آپ سے پیار ہے‘‘ کے اُصول کو حرزِ جاں بنائے ہوئے ہیں۔ 
ڈاکٹر پدم راجن مزاجاً واقعی پاکستانی ہیں کیونکہ ہم بھی مختلف شعبوں میں مستقل ہارتے آرہے ہیں مگر کسی بھی لمحے ہمت ہارنے کا کوئی اشارا نہیں دیا۔ ہم بھی ڈٹے ہوئے ہیں کہ ناکامیوں کے عالمی ریکارڈ بناکر ہی دم لیں گے۔ کوئی بھی پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں۔ کہنا ہی پڑتا ہے کہ شالا نظر نہ لگے! ایسا لگتا ہے کہ گنیز بک آف ورلڈ والوں کو مستقل مصروف رکھنے کی ٹھان لی گئی ہے۔ ہمارے خطے کے لوگ اور کچھ کریں یا نہ کریں، طرح طرح کے ریکارڈز بنانے میں ضرور جُتے ہوئے ہیں۔ جو لوگ پسپائی کے میدان میں آگے بڑھنا چاہتے ہیں اُن کے ایسے ہی اطوار ہوا کرتے ہیں! 
مرزا کہتے ہیں: ''ہمارے ہاں ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو اپنے اپنے شعبوں میں ناکام ہیں۔ بعض گلوکار ایسے ہیں جو پینتیس چالیس سال سے گارہے ہیں اور اب تو خود بھی اور اُنہیں جھیلنے والے بھی یہ بات بُھول چکے ہیں کہ اُنہیں گانا نہیں آتا!‘‘ 
بھارت اور پاکستان میں ایک بنیادی فرق البتہ ضرور ہے۔ وہ فرق یہ ہے کہ بھارت میں تو ڈاکٹر پدم راجن جیسے لوگوں کو لوگ کسی جواز کے بغیر ووٹ نہیں دے رہے۔ ہمارے ہاں معاملہ یہ ہے کہ اگر کوئی مستقل مزاجی سے سامنے آتا رہے تو لوگ بالآخر قبول کر ہی لیتے ہیں۔ سیاست ہو یا فن کی دنیا، ہر جگہ ایسی بیسیوں مثالیں مل جائیں گی۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved