اس کے والد کا نام عبدل ہے۔ 1961 ء میں جب عبدل برطانیہ پہنچا تو اس کی آنکھوں میں خوابوں، خواہشوں ، تمنائوں ، آرزئوں اور مٹھی میں دبے ایک پائونڈ... جی ہاں صرف اور صرف ایک پائونڈ کے سکے کے سوا کچھ نہ تھا۔ ایک پائونڈ جس کی آج مالیت تقریباً پونے دو سو... صرف پونے دو سو روپے بنتی ہے۔ زندگی کی گاڑی کھینچنے اور اپنی اولاد کو غربت کی اس زندگی سے نکالنے کے لیے عبدل نے محنت اور دیانت کو شعار بنا لیا۔ وہ بخوبی جانتا تھا کہ یہی محنت ، دیانت اور کمٹمنٹ ہی ایسا ورثہ تھا جو وہ اپنی اولاد کو منتقل کر سکتا ہے۔ اس کے سوا اس کے پاس اپنی اولاد کو دینے کیلئے کچھ تھا بھی نہیں‘ سوائے بس ڈرائیوری کے ہنر کے‘ عبدل کو اور کچھ آتا ہی نہیں تھا۔ عبدل کے حالات زندگی کی یہ کہانی اس کے بیٹے ساجد جاوید کے لیے مشعلِ راہ رہی۔ ساجد جاوید نے جب زندگی کی عملی ریس میں حصہ لینا شروع کیا تو اپنے والد کی کٹھن زندگی اس کیلئے مہمیز کا کام دیتی رہی‘ لیکن اس نے کسی بھی لمحے اپنے والد سے ملنے والے راہنما اصولوں، یعنی ذہانت، محنت اور کمٹمنٹ کو اس سفر میں بوجھ سمجھ کر اتار پھینکنے کی کوشش نہیں کی بلکہ انہی اصولوں سے تقویت اور انرجی لے کر زندگی کی سڑک پہ سر پٹ دوڑنا شروع کیا۔ پچھلے دنوں ایک پائونڈ مٹھی میں دابے برطانیہ میں آنے والے عبدل کے بیٹے ساجد جاوید کو وزیراعظم ڈیوڈکیمرون نے برطانیہ کا وزیر ثقافت مقرر کیا ہے۔ اس سے پہلے بھی ساجد جاوید برطانوی حکومت میں کئی اہم عہدوں پر کام کر چکے ہیں۔
ساجد جاوید ہی کی طرح پاکستانی نژاد برطانوی سیاستدان سعیدہ وارثی کے خاندان کی کہانی بھی ایسی ہی جدوجہد سے عبارت ہے۔1960ء میں جب سعیدہ وارثی کے والد برطانیہ گئے تو ان کا کل اثاثہ بھی صرف ڈھائی پائونڈ تھے۔ جی ہاں ڈھائی سو نہیں صرف ڈھائی پائونڈ‘ مگر بقول سعیدہ وارثی کے‘ ان کے کریڈٹ پر رقم نہیں تھی لیکن اخلاقیات تھی اور یہ یقین کہ اگر تم محنت کرو گے تو کچھ بھی حاصل کر سکتے ہو... کچھ بھی۔ یہاں یہ دہرانے کی ضرورت نہیں کہ سعیدہ وارثی بھی برطانیہ میں پاکستانیوں کا فخر ہیں۔ ڈیوڈ کیمرون نے انہیں کنزرویٹو پارٹی کا وائس چیئرمین مقرر کیا تھا۔ سعیدہ وارثی پہلی مسلمان خاتون تھیں جو برطانوی کیبنٹ کا حصہ بنیں۔
ساجد جاوید سے سعیدہ وارثی تک‘ ان کے والدین کی غربت وعسرت سے آغاز کی گئی زندگی سے لے کر ان دونوں کی خیرہ کن اور باوقار کامیابیوں تک پہ نظر ڈالیے تو کئی چیزیں سامنے آتی ہیں اور ان معاشروں کی کامیابی کا راز بھی سمجھ میں آتا ہے۔ جہاں محنت ،دیانت، کمٹمنٹ اور صلاحیت ہی سب کچھ ہوا کرتی ہے۔ بجلی کا وزیر ہونے سے لے کر وزیر خزانہ بننے تک کسی کو وزیراعظم سے قرابت اور رشتہ داری کی ضرورت نہیں۔ اگر آپ باصلاحیت ہیں‘ محنتی ہیں‘ دیانت دار ہیں‘ پرفارم کرتے ہیں‘ رزلٹ دیتے ہیں تو آپ معاشرے کا اثاثہ ہیں۔ قطع نظر اس کے کہ آپ وزیر اعظم کے قریبی رشتہ دار نہیں‘ آپ کا خاندان وزیراعظم کی طرح بلینئیر کلب کا ممبر نہیں‘ آپ کے والدین نے چاہے زندگی کا سفر ایک پائونڈ یا صرف ڈھائی پائونڈ سے شروع کیا ہو۔ اگر آپ اخلاقیات، محنت، دیانت ، کمٹمنٹ کا اعلیٰ معیار رکھتے ہیں تو وہاں کی سیاسی پارٹیوں سمیت پورا معاشرہ آپ کا احترام کرے گا، آپ کو سینے سے لگائے گا اور آپ کو اپنی راہنمائی کے لیے منتخب کرے گا۔ یہاں تک کہ اپنی ثقافت کی منسٹری تک آپ کے حوالے کر دے گا؛ اہم ترین پارٹی کا وائس چیئرمین تک بنا دے گا جہاں یقینا بنیادی پالیسی بنا کرتی ہے۔گویا اپنی تقدیر‘ اپنی سماجیات‘ اپنی ثقافت اور اپنی معاشیات‘ سب کچھ آپ کے حوالے کر دے گا۔
پاکستان میں کسی بس ڈرائیور یا کوئی ایسا شخص جس کی بڑی پارٹیوں کے سربراہان سے قریبی رشتہ داری نہیں‘ جو خود اشرافیائی کلب کا حصہ نہیں یعنی اربوں پتی نہیں‘ اسے منسٹر بنانا ، پارٹی میں اہم عہدہ دینا تو دور کی بات، کیا کسی بس ڈرائیور کا بیٹا اگلے سو سال تک اس نظام میں اس جوگا ہو سکتا ہے کہ اسے پارلیمنٹ ہائوس، جہاں 20کروڑ عوام کی تقدیر کے فیصلے ہوتے ہیں، کے آگے سے گزرنے کی اجازت بھی مل جائے؟ یا کوئی غریب شخص ساری زندگی پارلیمنٹ ہائوس ‘جہاں عوام کے نام نہاد نمائندے عوام کے نام پر اور عوام کے خرچے پہ اکٹھے ہو کر عوامی مفاد کے بجائے اپنے ذاتی مفادات کی پالیسیاں بنا کر اٹھ جاتے ہیں‘ میں داخل ہو کے یہ دیکھ سکے کہ وہ درو دیوار، وہ عمارت اندر سے کیسی ہے‘ اس میں کیسے فانوس لگے ہیں، کیسے قمقمے ہمہ وقت روشن رہتے ہیں‘ کہاں کہاں کیسا مہنگا ماربل نصب ہے‘ اس عمارت سے فیض پانے والوں کو پکوان کیسے دستیاب ہیں‘ یہاں کی خواب گاہیں‘ نام نہاد چیمبرز، کیفے ٹیریاز، غسل خانے کیسے ہیں؟ یقینا موجودہ پاکستانی سیاسی نظام میں‘ جس میں جمہوریت کے نام پر موروثی بادشاہت ہر سو نظر آتی ہے‘ اگر ساجد جاوید کے والد عبدل یا سعیدہ وارثی کے والد پاکستان میں ہوتے تو ان کی اولادیں انہی کی طرح آج بھی مٹھی میں ایک پائونڈ یا ڈھائی پائونڈ دابے چلچلاتی گرمی میں گھنٹوں پیدل کھڑی کسی وی آئی پی یا اس کے اہل خانہ کے پروٹوکول زدہ کانوائے کے گزرنے کا انتظار کر رہی ہوتیں یا کسی وارڈن سے آنکھ یا سر پَھڑوا کر اپنے زخم چاٹ رہی ہوتیں۔برطانیہ میں وزیرثقافت اور اہم ترین پارٹی کے اعلیٰ عہدوں پر فائز نہ ہوتیں۔ ہاں یاد آیا عبدل یا سعیدہ وارثی کے والد کے پاس جو ایک پائونڈ یا ڈھائی پائونڈ تھے‘ وہ بھی اب تک ٹیکس کے نام پہ سرکار ان سے چھین چکی ہوتی۔سچ ہے وہ معاشرے جہاں میرٹ کا بول بالا ہوتا ہے‘ موروثیت کے بجائے محنت، کمٹمنٹ ، دیانت اور صلاحیت کو سلام کیا جاتا ہے‘ ان کا احترام کیا جاتا ہے وہاں صرف اور صرف ایک پائونڈ یا ڈھائی پائونڈ سے بھی سب کچھ حاصل کیا جا سکتا ہے۔