جنرل پرویز مشرف فوج سے نکل گئے، اقتدار سے نکل گئے، پاکستان سے نکل گئے، لیکن ملکی معاملات سے نہیں نکلے۔ انہوںنے اپنی سیاسی جماعت بنا لی، آل پاکستان مسلم لیگ کے سربراہ کہلانے لگے۔ انتخابات کا اعلان ہوا، تو ان کو وہ سب کچھ یاد آنے لگا، جو چھوڑ آئے تھے۔ سوشل میڈیا پر ان کے ''فالوورز‘‘ کی تعداد لاکھوں کو چھو رہی تھی، سو جھانسے میں آ گئے اور واپسی کی ٹکٹ کیا کٹاتے، پورا جہاز چارٹر کرا کر واپس آگئے۔ ان کا خیال ہو گا کہ اگر امام خمینی کی طرح ان کا استقبال نہ ہوا، تو بھی کسی نہ کسی طور اپنی بساط بچھا لیں گے۔ آخر کار وہ بھی تو ایک عدد مسلم لیگ کے مالک ہیں، جو آل پاکستان ہے، گویا پورا پاکستان ان کی مٹھی میں ہو گا۔ ان کو سمجھانے والوں نے بہت سمجھایا، فوجی حکام نے بھی ایڑی چوٹی کا زور لگایا۔ کہنے والے تو یہ بھی کہتے ہیں کہ غیر فوجی لہجے میں بھی انہیں اپنے ارادے سے باز رہنے کے لئے کہا گیا، لیکن انہوں نے کسی ایک کی کوئی ایک نہ مانی اور اپنے ہی پھیلائے ہوئے جال میں آ گئے، اپنی ہی خواہشات کی ''زلف ِ دراز‘‘ میں پائوں اُلجھ گیا۔ ان کے ساتھ یہاں وہی کچھ ہوا، جو ہونا تھا۔ وہ ایک کے بعد ایک مقدمے میں مبتلا ہوئے اور ضمانتیں حاصل کرتے چلے گئے، لیکن 3نومبر2007ء کو جو ایمرجنسی لگانے کے مرتکب ہوئے تھے، جب اس کے حوالے سے سپریم کورٹ کے زیر ہدایت وفاقی حکومت حرکت میں آئی، تو ہاتھ پائوں پھول گئے۔ ان کے لئے خصوصی عدالت قائم ہو چکی، فردِ جرم وہ وصول کر چکے، لیکن فضا میں ایک ارتعاش ہے کہ موجود ہے۔ ان کے حامی بلکہ مداح بتاتے ہیں کہ وہ اپنے فارم ہائوس میں مزے کی زندگی گزار رہے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ ان پر مقدمہ قائم کرنے والے اس میں اُلجھ چکے ہیں، وہ ایک بار پھر اڈاری مار جائیں گے اور ان کے دشمن خاک چاٹتے رہ جائیں گے۔
گزشتہ تین ماہ کے دوران جو کچھ ہوا، اُس نے بہت سُوں کی آنکھوں کھول دی ہیں، کسی کو حیران کیا ہے تو کسی کو پریشان۔ اپنے فارم ہائوس سے عدالت میں آنے کے لئے نکلے تو دل پر ہاتھ رکھ لیا اور ان کو پاک فوج کے ادارہ امراضِ قلب میں پہنچا دیا گیا۔ اُس کے بعد مسلسل تین ماہ ان کو برآمد نہیں کرایا جا سکا۔ انجیو گرافی ہوئی نہ انجیو پلاسٹی، لیکن دل کا مرض پھر بھی لاحق بتایا جاتا رہا۔ ان کے وکیل عدالت میں پھنکارتے رہے، ججوں سے اُلجھتے، میڈیا کو ڈراتے اور فوج کی طاقت کو اپنی طاقت بنا کر دکھاتے رہے، لیکن مقدمہ پھر بھی قائم رہا۔ عدالت ان کو طلب کرتی رہی، یہاں تک کہ وارنٹ جاری کر دیے گئے۔ اس پر بہت کچھ بدل گیا، غصیلے دلائل نے ہتھیار ڈال دیے، ایک دھیمے مزاج کے بیرسٹر منظر عام پر آئے، دبئی میں والدہ کی علالت کی خبریں گرم ہو گئیں، انہیں آئی سی یو میں داخل کرا دیا گیا، لمحے لمحے کی رپورٹ جاری ہونے لگی کہ ان کی جان خطرے میں ہے، آنکھیں دروازے پر لگی ہیں اور اپنے بیٹے کی راہ تک رہی ہیں، وہ آبِ حیات بن کر پہنچے تو مامتا کو نئی زندگی ملے۔ پرویز مشرف اچھے بچے بن کر عدالت میں پیش ہو گئے۔ مودبانہ لہجے میں اپنا مافی الضمیر بیان کیا، اپنی خدمات گنوائیں، اپنے خلاف غداری کے مقدمے پر احتجاج کیا، کہ ملک کی خاطر لڑنے والے اور دادِ شجاعت دینے والے سپاہی کو غدار کہنا افواجِ پاکستان کی توہین ہے۔ اس پر پراسیکیوٹر صاحب کا دل بھی پسیج گیا، انہوں نے وضاحت کی کہ ان پر آئین شکنی کا مقدمہ ہے، انہیں غدار کہنا ‘ بنانا یا ثابت کرنا مقصود نہیں ہے۔ مشکل معاملہ یہ ہے کہ آئین کی دفعہ6کہتی ہے کہ آئین کو منسوخ کرنا ، معطل کرنا یا سبوتاژ کرنا ایک ایسا فعل ہے، جسے انتہائی غداری قرار دیا جائے گا، گویا غداری صرف یہی نہیں ہے کہ آپ سرحدوں کے باہر یا اندر کسی دشمن ملک سے مل جائیں، اسے راز بیچ دیں یا اس کے مفادات کی حفاظت کریں، یہ بھی ہے کہ آپ ملک کے نظم و نسق میں خلل ڈال دیں۔ اس کے نظام کو درہم برہم کر دیں، چوکیدار کو گھر کا مالک اور مالک کو شوفر یا خانساماں قرار دے لیں۔ غداری کے سینگ نہیں ہوتے، نہ ہی اس کا کوئی خاص رنگ ہوتا ہے، قومی زندگی کو تہہ و بالا کرنا نہ صرف غداری کہلائے گابلکہ انتہائی غداریHigh Treason۔ مشرف صاحب اگر اپنے کسی پی سی او کے ذریعے یہ دفعہ بھی آئین سے خارج کر دیتے تو وہ آج کے دن سے بچ سکتے تھے، ایسا کیونکہ نہیں ہوا، اس لیے وہ ہو رہا ہے، جو ہو رہا ہے۔ دکھائی یہ دیتا ہے کہ کچھ ایسا ضرور تھا، جو دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ پرویز مشرف کے تازہ اور میٹھے وکیل نے ہنسی خوشی ان کی طرف سے والدہ کی تیمار داری کے لئے بیرون ملک جانے کی درخواست دائر کی۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں اپنی طرف سے کوئی رکاوٹ کھڑی نہیں کی، معاملہ انتظامیہ کی طرف دھکیل دیا۔ وزارت داخلہ نے اس پر غورو خوض یہ کیا کہ اسے مسترد کر دیا۔ کہا جا رہا ہے کہ وزیراعظم آڑے آ گئے۔ سب کو آڑے ہاتھوں لیا اور پرویز مشرف ''فردِ جرم‘‘ پا کر اپنے فارم ہائوس میں پہنچ گئے، یعنی ان کے دِل کو مسلسل نگرانی کی حاجت نہ رہی۔
پرویز مشرف کو جس طرح فوجی ادارۂ امراض قلب نے پناہ دیے رکھی، وہ کئی دوستوں کو بہت گراں گزری ہے، ان کا غصہ پرویز مشرف کے علاوہ بھی کئی ایک کو لپیٹنے کے لئے بے تاب ہے۔ وہ پرویز مشرف کی تنہائی کو ختم کرنے کے لئے دیگر ملزموں کی نشاندہی بھی کر رہے ہیں، جو ان کے شریک ِ جرم تھے، سو، تنائو ہے کہ بڑھ رہا ہے، حالات ہیں کہ بگڑ رہے ہیں۔ وزیر دفاع خواجہ آصف جال کو وسیع کرنے پر تُل گئے ہیں، ایک خصوصی انٹرویو میں انہوں نے خوب سینہ پھلا کر باتیں کیں، جواب میں فوج کا وقار حرکت میں آ گیا اور واضح کر دیا گیا کہ ادارے کی حفاظت کی جائے گی۔
دلائل تو ہر طرح کے لائے جا سکتے ہیں اور لائے بھی جا رہے ہیں، لیکن مناسب بات یہی ہے کہ مستقبل کو ماضی کی زنجیر میں نہ باندھا جائے۔ پرویز مشرف بیرون ملک نہیں جا سکے، ان کی والدہ بھی آئی سی یو سے واپس گھر پہنچ چکی ہیں۔ نئے وکیل فروغ نسیم نے فرمایا ہے کہ وکیلوں اور ججوں نے اپنے چیف (افتخار چودھری) کو بحال کرا لیا تھا،اب دیکھتے ہیں فوج اپنے چیف کو بحال کرا پاتی ہے کہ نہیں۔ اس منطق میں شرارت تو ہے صداقت نہیں ہے۔ دنیا کی کوئی فوج کسی سابق سربراہ کی قیادت میں صف آرا نہیں ہوتی، ریٹائرمنٹ کے بعد ہر چیف ایک سویلین شہری بن جاتا ہے۔ پرویز مشرف کے معاملے میں افسروں اور جوانوں کو مغالطے میں مبتلا کرنے کی نہیں، سمجھانے اور حقائق سے واقف کرانے کی ضرورت ہے۔ سیاسی قیادت کو تدبر سے معاملات پر قابو پانا چاہئے، لفظوں کی گولہ باری سے کوئی بھی مہم سر نہیں ہو سکتی۔ پرویز مشرف دو بار ہماری قومی زندگی کا شیرازہ منتشر کر چکے ہیں۔ 1999ء میں بچ کر نکل گئے، لیکن2007ء انہیں لپیٹ میں لیے ہوئے ہے۔ انہیں ایک بار اور یہ کھیل کھیلنے (یا کھلانے) کی اجازت نہیں ملنی چاہئے۔
(یہ کالم روزنامہ ''دنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)