تحریر : انجم نیاز تاریخ اشاعت     13-04-2014

معلومات یابیانات پر مبنی صحافت ؟

سب سے پہلے اچھی خبر۔۔۔ سی پی ڈی آئی (سنٹر آف پیس اینڈ ڈویلپمنٹ انیشی ایٹو ) نے ' انفارمیشن کلیئرنگ ہائوس ‘ قائم کیا ہے تاکہ صحافی حضرات کو عوامی اداروںاور ان کی کارگزاری سے متعلق درکارکلاسیفائڈ معلومات Right to Information Laws کے تحت فراہم کی جاسکیں۔ اس پروگرام کے منیجر زاہدعبداﷲ نے اس بات کی وضاحت کرنے کے لیے مجھے ایک ای میل بھیجی۔ ان کا کہنا ہے کہ ''صحافیوں کو درکار معلومات کے حصول کے لیے درخواست دینے کی سہولت فراہم کی جائے گی‘‘۔ اُنہوں نے ایک قدم آگے بڑھاتے ہوئے وعدہ کیا کہ ''اگر ضرورت پڑی تو وہ پبلک باڈیز میں صحافیوں کی نمائندگی کا انتظام بھی کریںگے‘‘۔ اس پیش رفت کو یقیناً خوش آئند قرار دیا جاسکتا ہے۔
بری خبر یہ ہے کہ میںنے مسٹر عبداﷲ کو جوابی ای میل کے ذریعے کہا کہ پاکستان میں پہلے سے ہی '' فریڈم آف انفارمیشن ایکٹ ‘‘ موجود ہے لیکن یہ موثر نہیں۔ یا تو حکومتِ وقت معلومات تک رسائی دینے میں تامل سے کام لیتی ہے یا صحافی حضرات اس کے طریقِ کار سے واقف نہیں۔ میںنے ان سے کہا کہ معلومات تو بعد کی بات ہے ، پہلے مجھے ذرا ' پبلک باڈیز ‘ کی وضاحت توکردیں۔ میرے علم کے مطابق پبلک باڈی ایک سول تنظیم ہے جس میں پارلیمنٹ اور وہ ادارے جو پارلیمنٹ کے سامنے جواب دہ ہوتے ہیں، شامل ہیں۔ انہی اداروںمیں نیشنل آڈٹ آفس، وفاقی محتسب اور الیکشن کمیشن بھی شامل ہیں۔ اس میں وہ محکمے بھی شامل ہیں جومختلف وزراء کے تحت کام کرتے ہیں۔ میں ان کے بارے میںکچھ مزید معلومات حاصل کرنا چاہتی ہوں۔ چالیس دن ہونے کو آئے ہیں، زاہد عبداﷲ کے جواب کا انتظار ہے۔ 
ان کی طرف سے جواب نہ آنے پر میں نے اس تنظیم کی ویب سائٹ سے ا ستفادہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ سب سے پہلے تو میں یہ دیکھنا چاہتی تھی کہ سی ڈی پی آئی کو فنڈز کون فراہم کررہا ہے اوراس کے ذمے اصل کام کیا ہے؟ جب میںنے اس کی سائٹ کو وزٹ کیا تو مجھے پاکستان کے مختلف علاقوں میںہونے والی سرگرمیوں کی لاتعداد رپورٹس ملیں۔ میرے لیے سب سے اہم اور دلچسپی کاباعث اس کے صفحہِ اول پر ایک ہیڈلائن تھی "Objectives of News Reporting Monitor" اس کی ذیلی ہیڈنگ تھی : 'رپورٹنگ میں پائے جانے والے خلا کا جائزہ لینے کے لیے اٹھارہ اخبارات کا تجزیہ ‘ ان انگلش اور اردو اخبارات میں '' روزنامہ دنیا ‘‘ بھی شامل تھا۔ یہ دیکھنا دلچسپی سے خالی نہیںہوگا کہ '' رپورٹنگ میں پائے جانے والے خلا ‘‘ کا تجزیہ کرنے کے لیے ان اٹھارہ اخبارات کی طرف سے پیش کی جانے والی کتنی کہانیوں کا جا ئزہ لیا گیا ہے اور ان اخبارات کے رپورٹرزکون ہیں ؟ کیا ان رپورٹرحضرات نے زاہد عبداﷲ سے رابطہ کیا تاکہ وہ انہیں ان کی کہانیوںکے لیے درکار معلومات فراہم کریں ؟ اگر انہوں نے ایسا کیا تو مسٹر عبداﷲ کی طرف سے ان کی کس طرح مدد کی گئی؟
دراصل ہم پاکستانی صحافی معلومات کے حصول کی بجائے '' بیانات پر مبنی صحافت‘‘ کے عادی ہوچکے ہیں۔ جب تک سی ڈی پی آئی اور اس کے '' انفارمیشن کلیئرنگ ہائوس‘‘ کی طرف سے، جس کے قیام کا زاہد عبداﷲ نے بہت فخر سے اعلان کیا، ویب سائٹ پر مطلوبہ نتائج کو شائع نہیںکیا جاتا، ہماری صحافت اسی دلدل میں پھنسی رہے گی۔ وقت کا تقاضا یہ ہے کہ یہ تنظیم جوٹیکس دہندگان کی رقم خرچ کر کے بنائی گئی ہے رپورٹرزکو مطلوبہ معلومات فراہم کرے ۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو ہمارے بہت سے صحافتی پیمانے تبدیل ہوجائیںگے، بلکہ اسے ایک حوالے سے ''گیم چینجر ‘‘ بھی کہا جاسکے گا کیونکہ اس کے ذریعے نہ صرف پبلک باڈیز میں ہونے والی بدعنوانی بلکہ اقربا پروری، چمچہ گیری اور پسند وناپسندکے پیمانوںکی بھی نشاندہی ہوسکے گی اور عام آدمی ان لوگوں کے نام جان سکے گا جنہوںنے اس ملک کو لوٹا ۔ لیکن اگر ہم عملی طور پر مواد حاصل کرنے کے بجائے مسٹر عبداﷲ کے''بیانات ‘‘پر ہی قانع رہے تو یہ بھی پاکستان میں بنائی گئی لاتعداد تنظیموں کی طر ح وقت اور رقم کا زیاں ہی ثابت ہوگی۔ 
اس وقت ملک میں دہشت گردی،عسکری اداروںکا کردار اور حکومت کی پالیسی کے معاملات سب سے اہم ہیں۔ عوام کو ان کے حوالے سے معلومات درکار ہیں تاکہ وہ جان سکیں کہ ان اہم معاملات کوکس طرح نمٹایا جارہا ہے۔ جہاں تک دہشت گردی کا تعلق ہے ،اس کے پھیلائوکی ذمہ داری ماضی میں بعض اداروںکی بنائی گئی کچھ پالیسیوںپر عائد ہوتی ہے۔ اگر عام شہری ہلاک ہورہے ہیں توکیا یہ دفاعی اداروںکی آئینی ذمہ داری نہیں کہ وہ انہیں تحفظ فراہم کریں اوراس قتل وغارت کو روکیں جو اس ملک میں ہمہ وقت جاری رہتی ہے؟ کیا ضروری ہے کہ اس کے بجائے ہم اعلیٰ قیادت سے بھاری بھرکم بیانات سنیں ؟ہمارے سابق چیف جسٹس بھی اس سسٹم کو درست کرنے کے لیے بیانات دینا اپنے فرائض کا لازمی حصہ سمجھتے تھے۔فی الحقیقت ہم نے ان سے بہت سے امیدیں وابستہ کرلی تھیں ، لیکن صرف بیان بازی ہوئی اور نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات ! اس دور میں اندھا دھند توہینِ عدالت کے نوٹس جاری کیے جانے کے سوا کوئی عملی پیش رفت نہ ہوئی۔ 
ہمارے سیاست دان تو اس عالمِ فانی میں آنکھ کھولتے ہی بیان دینے کے لیے ہیں۔ اس ضمن میں ہونے والی کسی سائنسی تحقیق کا تو علم نہیں لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ بیان دیتے ہی انسانی ذہن کام کرنا چھوڑ دیتا ہے اور موصوف کو یہ بھی یاد نہیں رہتا کہ اُنہوں نے ایک دن پہلے کیا کہا تھا۔ اگر اُن کے بیانات کی جن سے وہ اکثر منحرف ہوچکے ہوتے ہیں، ریکارڈنگ سنائی جائے توکہا جاتا ہے کہ ان کا میڈیا ٹرائل ہورہا ہے۔ اب تو بہت سے مولانا حضرات بھی یہ کہتے سنائی دیںگے کہ گزشتہ آٹھ سال سے طالبان کا میڈیا ٹرائل ہو رہا تھا اور یہ کہ ملک میں دہشت گردی کا کوئی واقعہ پیش ہی نہیں آیا۔ دوسری طرف اخبارات میں جب ان سیاست دانوں اور علماکے بیانات شائع ہوتے ہیں توان کا معروضی تجزیہ نہیںکیا جاتا اور نہ ہی عوام کو یہ بتایا جاتا ہے کہ کچھ عرصہ پہلے اُنہوں نے کیا کہا تھا۔ پھر یہ طعنہ دیا جاتا ہے کہ عوام کی اجتماعی یادداشت بہت کمزور ہے۔۔۔ پاکستان میں معروضی صحافت ایک خواب بنتی جارہی ہے۔ 
ہمارے ملک میں کلاسیفائڈ معلومات کا حصول یقینی بنایا جانا چاہیے۔ امریکہ میں یہ بات زیرِ بحث ہے کہ بش حکومت کے دوران بہت سی حساس معلومات عوام تک کیسے پہنچ گئیںاور سی آئی اے کے قائم کردہ عقوبت خانوں کا دنیا کوکیسے علم ہوا ؟ سینٹ کی انٹیلی جنس کمیٹی نے مطالبہ کیا ہے کہ سی آئی اے ان معلومات تک رسائی یقینی بنائے جو بہت حساس نہیں اور جن سے امریکہ کی سلامتی کو براہِ راست کو ئی خطرہ لاحق نہیں ہوتا۔ اس پر ہمیں کچھ محتاط رہنے کی ضرورت ہے کیونکہ سی آئی اے کے پاس ہمارے گزشتہ انتخابات کی رپورٹ بھی موجود ہے۔ اس رپورٹ میں کیا ہوگا ؟ کیا ہمیں جلد پتہ چل جائے گا یا بیس تیس سال کا انتظارکرنا ہوگا ؟یا اس سے پہلے ہی کوئی میڈیا ہائوس سی آئی سے درخواست تو نہیںکردے گا کہ اُسے وہ رپورٹ چاہیے۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved