ایمانداری کی بات تو یہی ہے کہ جنرل (ر) مشرف کو اصل خطرہ ان کے وکیلوں ہی سے ہے۔ پہلے ہمارے دوست رانا اعجاز احمد خان اور صاحبزادہ احمد رضا قصوری نے عدالت میں بدمزگی پیدا کرنے کی کوشش کی ‘حتیٰ کہ ہوا کا رُخ بھانپتے ہوئے وکلاء کی ٹیم ہی تبدیل کردی گئی۔ اب نئے وکیل صاحب آئے ہیں تو ایک نسخۂ کیمیا بھی ساتھ لے آئے ہیں جسے شاید وہ تُرپ کا پتہ بھی سمجھتے ہوں۔ بیان دیا کہ فوج صورت حال کو اس گومگو سے نکالے اور کھُل کر اعلان کرے کہ مشرف نے ایمرجنسی کا اعلان اپنے طور پر کیا تھا یا فوج کی رضامندی بھی اس میں شامل تھی۔ یہ فوج کو براہِ راست ملوث کرنے کی ایک واضح کوشش ہے جبکہ خود مشرف بھی یہ کہہ چکے ہیں کہ میں دیکھتا ہوں کہ راحیل شریف کہاں تک میرا ساتھ دیتے ہیں۔
بعض تجزیہ کاروں کی رائے میں یہ بہت خطرناک بات ہوگی‘ کیونکہ اگر فوج کی طرف سے جواب اثبات میں آ گیا تو کیا پوری فوج کے خلاف کارروائی کرنا پڑے گی اور اس طرح صورت حال قابو سے باہر ہو جائے گی‘ حالانکہ ایسا ہرگز نہیں ہے۔ اوّل تو فوج کو اس معاملے میں اس حد تک کُود پڑنے کی ضرورت ہی نہیں ہے‘ بے شک اس کی سو فیصد ہمدردیاں ہی موصوف کے ساتھ کیوں نہ ہوں۔ اس لیے بھی کہ فوج کے پاس دبائو ڈالنے کے دیگر طریقوں کی بھی کمی نہیں ہے۔ اگرچہ اس دبائو کے کارگر نہ ہو سکنے کے امکانات نسبتاً زیادہ ہیں۔ بفرضِ محال اگر فوج یہ مؤقف اختیار کر بھی لیتی ہے تو بھی معاملے کے بے قابو ہو جانے کا کوئی خطرہ نہیں ہے۔
بات بالکل سیدھی سی ہے‘ اور وہ یہ کہ یہ عدالت سپریم کورٹ کے حکم پر قائم کی گئی ہے اور اس کا دائرہ اختیار صرف اور صرف جنرل مشرف کے ٹرائل تک محدود ہے‘ اس لیے فوج کو اس مقدمہ میں فریق بنانے کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا‘ بھلے ہی وہ خدانخواستہ اس جرم میں شریک ہونے کا دعویٰ کیوں نہ کردے‘ کیونکہ اس طرح کا دعویٰ چودھری شجاعت حسین اس سے پہلے کر چکے ہیں۔ چنانچہ عدالت کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں اور وہ اپنے طے کردہ دائرہ کار سے آگے نہیں جا سکتی اور اگر کوئی اس مقدمے میں فریق ہی نہ ہو تو اُس کے اس قسم کے بیانات سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اس لیے وکیل صاحب کے اس بیان یا مطالبے کی حیثیت ایک مس فائر سے زیادہ کی نہیں ہے۔ اس لیے بہتر ہوگا کہ وہ کوئی اور نسخہ آزمانے کی کوشش کریں۔
دوسری طرف قانونی اور واقعی صورت حال یہ ہے کہ جنرل صاحب کی والدہ محترمہ بفضلِ خدا صحت یاب ہو کر ہسپتال سے گھر منتقل ہو چکی ہیں‘ اس لیے موصوف کو فوری طور پر ان کی بیمار پُرسی کے لیے ملک سے باہر جانے کی ضرورت نہیں رہی کہ اس بنا پر ان کا نام ای سی ایل سے نکال دیا جائے جبکہ خود جنرل صاحب بھی ہسپتال سے اپنے فارم ہائوس تشریف لا چکے ہیں۔ یہ بات خالی از دلچسپی نہیں کہ جب محترمہ آئی سی یو میں تھیں تو ان کے صاحبزادے نے امریکہ سے آ کر ان کی بیمار پُرسی کی ضرورت محسوس نہیں کی‘ اس لیے اگر موصوف کے خلاف ملک میں ایک سے زیادہ فوجداری مقدمات چل رہے ہیں تو انہیں ملک چھوڑنے کی اجازت دینے کا کوئی جواز نہیں ہو سکتا۔
ایک اور دلچسپ امر یہ ہے کہ فاضل وکیل نے کامران خان کے ساتھ پروگرام میں صرف وزیراعظم اور ان کی کابینہ ہی کے اس اقدام میں شامل ہونے کا ذکر کیا ہے‘ فوج کا نہیں‘ جبکہ پہلے ان کا مؤکل خود یہ کہہ چکا ہے کہ وہ تنہا اس اقدام کا ذمہ دار ہے جس میں اب وکیل صاحب کو تبدیلی کرنا پڑی جس کا انہیں پورا پورا حق ہے کیونکہ ڈیفنس کونسل مقدمے کی سماعت کے دوران کوئی بھی موقف اختیار کر سکتا ہے‘ حتیٰ کہ پہلے سے اختیار کردہ مؤقف سے سراسر مختلف بلکہ اُلٹ بھی؛ تاہم اُسے یہ بھی خیال رکھنا ہوگا کہ کہیں اس کا مؤقف ایک مذاق ہی بن کر نہ رہ جائے۔ میں خود وکیل ہوں اور ہمارے پیشے سے لاتعداد لطائف بھی منسوب ہیں جن میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ایک شخص پر قتل کا مقدمہ قائم ہو گیا تو اس نے وکیل مقرر کرتے وقت کہا کہ وہ اسے بے شک عمر قید کرا دے لیکن پھانسی سے بچا لے۔ مقدمے کی سماعت ہوتی رہی اور مؤکل وکیل صاحب کو عمر قید والی بات یاد دلاتا رہا۔ آخر ملزم کو جب عمر قید کی سزا سنائی گئی تو وہ باہر نکلتے وقت وکیل صاحب کا شکرگزار ہوا کہ انہوں نے اپنا وعدہ پورا کر دیا‘ جس پر وکیل صاحب بولے:
''میں نے بڑی مشکل سے تمہیں عمر قید کروائی ہے ورنہ جج صاحب تو تمہیں صاف ہی بری کر رہے تھے!‘‘
حالت یہ ہے کہ عمران خان کو بھی یہ کہنا پڑا کہ مارشل لاء ملک کو تباہی کی طرف لے جائے گا اور کوئی واقعی ملک کو تباہی کی طرف لے جانا چاہتا ہے تو بے شک مارشل لاء لگا دے۔ سوال یہ ہے کہ اوّل تو ملک میں ایسے حالات ہی نہیں ہیں کہ مارشل لاء کا کوئی جواز پیدا ہوتا ہو جبکہ زیادہ امکان یہی ہے کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کی مخدوش صورت حال کے پیش نظر شاید فوج کو ان کے خلاف آپریشن ہی میں مصروف ہو جانا پڑے‘ ایسے میں مارشل لاء کی کسے سوجھتی ہے۔ لیکن اگر ایسا ہو بھی جائے تو مارشل لاء ہمارے لیے کون سی نئی چیز ہے کہ چار پانچ مارشل لاء تو ہم پہلے بھی بھگت چکے ہیں تو ایک اور بھی سہی‘ یعنی ع
جو آئے آئے کہ یاں دل کشادہ رکھتے ہیں
بلکہ ہمارے آئین کو تو پامال ہونے کی اس قدر عادت پڑی ہوئی ہے کہ اگر پانچ سات سال اس کے بغیر گزر جائیں تو اس کی طبیعت پریشان ہونے لگتی ہے؛ چنانچہ ویسے بھی‘ آئین کے جذبات کاخیال رکھنا چاہیے!
فوج الحمدللہ اٹھارہ کروڑ عوام کی آنکھ کا تارا ہے اور اگر وہ یہ سمجھتی ہے کہ ایک مزید مارشل لاء لگا دینے سے بھی وہ عوام کی اُسی طرح محبوب و مطلوب ہی رہے گی تو سو بسم اللہ۔ کیونکہ اگر وہ حسب سابق اسے ملکی مفاد کے عین مطابق سمجھتی ہے تو اسے اس کارِ خیر میں ایک لحظے کی بھی دیر نہیں کرنی چاہیے؛ تاہم اسے اپنے تھنک ٹینک کے ذریعے پہلے وہ فہرست ضرور تیار کروانی چاہیے کہ مارشل لاء لگانے کا کیا کیا جواز ہو سکتا ہے جس طرح بقول شفیق الرحمن مغل بادشاہ بابر نے ہندوستان پر ایک اور حملے کے اسباب کی ایک فہرست تیار کروائی تھی جس میں ایک یہ بھی تھی کہ چونکہ ہماری ایک پھوپھی اس ملک میں مقیم ہے اور اُسے ملے ہمیں کافی عرصہ ہو گیا ہے‘ اس لیے یہ تازہ حملہ مجبوراً کرنا پڑا!
آج کا مقطع
جس کی کبھی جھلک بھی نہ دیکھی ہو عمر بھر
تو ہی بتا ظفرؔ اُسے کیسا بتایئے