''مشرف کیس‘‘ اور''طالبان سے مذاکرات‘‘ جیسے نان ایشوزکی بھرمار کرنے والا میڈیا اس ملک کے محنت کشوں کے حقیقی مسائل کوشاذو نادر ہی منظر عام پر لاتاہے۔جدید ٹیکنالوجی پرکام کرنے والے انجینئرز، ٹیکنیکل سٹاف اور ہنر مندوں سے لے کر بھٹہ مزدوروں تک محنت کش طبقے کی کئی پرتیں ہوتی ہیں۔ مختلف شعبوں میں مختلف نوعیت کا کام سرانجام دینے والے محنت کشوں کے استحصال کی شدت اور طریقہ کار بھی مختلف ہے۔ جہاں محنت کرنے والوں کو رنگ، نسل، ذات پات، مذہب اور فرقوں میں تقسیم کیا جاتا ہے وہاں اس طبقے کی نسبتاً زیادہ مراعات یافتہ پرتوں میں بھی برتری کے تعصبات ابھر آتے ہیں۔ اس نفسیات کو حکمران طبقات اور مالکان اپنے مفادات کے لئے استعمال کرتے ہیں۔
محنت کش طبقے کی پست ترین پرتوں میں بھٹہ مزدور سر فہرست ہیں۔ ان کی ملازمت اور مشقت کا نظام جدید صنعت کے مزدوروں سے بہت زیادہ مختلف ہے۔ انہیں عام طورپر ''بانڈڈ لیبر‘‘ یعنی جکڑے ہوئے مزدور بھی کہا جاتا ہے۔ پاکستان جیسے تیسری دنیا کے ممالک میں بانڈڈ لیبرعام ہے۔ سرمایہ داری کے اندر ''غلام داری‘‘ کی ایک باقاعدہ شکل موجود ہے۔ اکتوبر 2013ء میں آسٹریلیا کے ایک ادارے ''واک فری فائونڈیشن‘‘ کے مطابق دنیا میںتین کروڑ سے زائد افراد باقاعدہ طور پر جسمانی غلام ہیں۔ بھارت میں ایک کروڑ چالیس لاکھ افراد غلامی کی زندگی بسر کررہے ہیں، یہ تعداد دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔ تیس لاکھ کے ساتھ چین دوسرے جبکہ اکیس لاکھ غلاموں کے ساتھ پاکستان تیسرے نمبر پر ہے۔ رپورٹ میں کل 161ممالک کو شامل کیا گیا تھا۔
پاکستان میں پینتالیس لاکھ بھٹہ مزدور ہیں جن کی اکثریت قرضوں اور سود کے گھن چکر میں جکڑی ہوئی ہے۔ نسل در نسل غلامی کی زندگی بسرکرنے والے ان محنت کش خاندانوں سے بدترین مشقت لی جاتی ہے۔ یورپ کے ترقی یافتہ سرمایہ دارانہ ممالک میں صنعتی انقلاب نے بانڈڈ لیبرکو ختم کردیا ہے۔ ان ممالک میں غلام داری اور جاگیر داری کی جگہ سرمایہ دارانہ استحصال نے لے لی ہے۔ لیکن پاکستان اور ہندوستان جیسے ممالک میںسرمایہ داری کے ساتھ ساتھ غلام داری کے ذریعے استحصال آج بھی جاری ہے۔ یہ صورت حال جدید سماج کی تشکیل میں تیسری دنیا کے سرمایہ دار طبقے اور ریاست کی مکمل ناکامی کی غمازی کرتی ہے۔ پاکستان میں بانڈڈ لیبر کے خلاف آج تک جتنے بھی قانون بنے ان پر عمل درآمد نہیں ہوسکا ۔ بھٹہ مزدوری سے وابستہ محنت کشوں میں زیادہ تر کا تعلق ''نچلی ذاتوں‘‘ یا مذہبی اقلیتوں سے ہے جس کی وجہ سے انہیں معاشی جبرواستحصال کے ساتھ ساتھ سماجی اور مذہبی تعصبات کا نشانہ بھی بنایا جاتا ہے۔ان مزدوروں میں بالغ مردوں اور بچوں کے ساتھ بڑی تعداد خواتین کی بھی ہے جنہیں مالکان اور ان کے حواری جنسی استحصال کا نشانہ بناتے ہیں۔
بانڈڈ لیبر پر ڈھائے جانے والے مظالم کے واقعات آئے دن منظر عام پر آتے رہتے ہیں۔ وقتی طور پر تھوڑے شور شرابے اور رونے دھونے کے بعد اس جبرکو بھلا دیا جاتا ہے۔ پچھلے دنوں ضلع قصورکے علاقے پھول نگر اور نواح میں بھٹہ مزدوروں پر مالکان کی جانب سے بدترین تشدد کا واقعہ منظر عام پر آیا ہے۔ سرکاری طور پر مقررکردہ بھٹہ مزدورکی اجرت 740 روپے فی ہزار اینٹ ہے لیکن پھول نگر کے بھٹوں پرانہیں اس کی 400 روپے اجرت دی جارہی تھی۔ایسٹر کا تہوار قریب آنے پر محنت کشوں نے اجرت کی ادائیگی کا مطالبہ کیا تو مالکان نے ان پر کرائے کے غنڈے چھوڑ دیے۔تشدد کے بعد عورتوں اور بچوں سمیت تمام محنت کشوں کو نجی جیل خانوں میں بند کردیا گیا۔غنڈے جدید خودکار ہتھیاروں سے مسلح تھے اور مزدوروں کو قتل کرنے کی دھمکیاں بھی دے رہے تھے۔ پولیس نے اطلاع ملنے پرکوئی ایکشن نہیں لیا۔ جب اس واقعے سے متعلق پنجاب کے لیبر سیکرٹری کو اطلاع دی گئی تو انہوں نے دونوں اطراف کے نمائندوں کی میٹنگ بلوائی۔ اس میٹنگ کے دوران لیبر سیکرٹری کے سامنے بھٹہ مالکان کے ایک غنڈے نے پہلے ایک مزدور نمائندے پر جسمانی تشدد کیا اور پھر مزدوروں کی ایک تنظیم کی جنرل سیکرٹری غلام فاطمہ کو تھپڑ دے مارا۔ لیبر سیکرٹری صاحب سے جب مالکان کی اس کھلی بدمعاشی کے خلاف کارروائی کرنے کی درخواست کی گئی تو موصوف نے ضلع کے ڈی سی او سے شکایت کرنے کا مشورہ دیا۔ غلام فاطمہ اپنی اور اپنے ساتھیوں کی بے عزتی کی فریاد لے کر ڈی سی او کے پاس پہنچی۔ ڈی سی او نے بھٹہ مالکان کے خلاف کارروائی کرنے کی بجائے متاثرہ خاتون کی اس قدر تضحیک کی کہ اس نے خود کشی کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ اگلی صبح دنیا نیوز کے پروگرام ''خبر یہ ہے‘‘ میں ایک رپورٹ کے ذریعے بھٹہ مالکان اور ریاستی بیوروکریسی کا مکروہ چہرہ بے نقاب کیا گیا۔ اس کے علاوہ مختلف مزدور تنظیموں اور ٹریڈ یونینوں نے بھی یکجہتی کے پیغامات اور بیانات دیے جس سے خاتون مزدور رہنما کو ہمت اور حوصلہ ملا اور انہوں نے اپنی جان لینے کی بجائے آخری دم تک بھٹہ مالکان کے ظلم و جبر کے خلاف لڑنے کاعزم کیا۔یہ صرف ایک واقعہ ہے ، اس طرح کے سینکڑوں واقعات ملک کے طول و عرض میں ہر روز ہوتے ہیں۔
کچھ عرصہ پہلے ایک مشہور انگریزی روزنامہ میں چھپنے والی ایک رپورٹ کے مطابق بھٹہ مزدور اوسطاً 300 روپے فی ہزار اینٹ کی اجرت پرکام کرنے پر مجبور ہیں جبکہ مارکیٹ میں ایک ہزاراینٹ کی قیمت 7000روپے سے زیادہ ہے۔ رپورٹ میں شائع ہونے والے ایک بھٹہ مزدورکے انٹریوکے مطابق مالکان اتنی کم اجرت دیتے ہیں کہ زندہ رہنے کے لئے ادھار لینا مجبوری بن جاتا ہے اور بعد ازاں قرض کی انہی زنجیروں میں مزدوروںکو جکڑ لیا جاتا ہے۔ اگر مزدور احتجاج کریں یا اپنا حق مانگیں تو پولیس کے ذریعے جعلی مقدمات بنوا دیے جاتے ہیں اور جیل کی تلوار سر پر لٹکتی رہتی ہے۔
بھٹہ مالکان کا شمار درمیانے درجے کے سرمایہ داروں میں ہوتا ہے۔ ان میں سے زیادہ تر غنڈہ گرد اور مافیا عناصر ہیں جو انتخابات میں اپنی دہشت کو استعمال کرتے ہوئے سیاستدانوں کے لئے کئی طرح کی ''خدمات‘‘ سرانجام دیتے ہیں۔ بدلے میں سیاسی رہنما انہیں ہر طرح کا سیاسی تحفظ اور''سپورٹ‘‘ فراہم کرتے ہیں۔ مارشل لائوں میں یہ مالکان بیوروکریسی اور پولیس کے نچلے افسران کی مٹھیاںگرم کرکے اپنی واردات جاری رکھتے ہیں۔قدیم روم اور مصرکے غلاموں کے مالکان کی طرح بھٹہ مالکان کے خاص ملازمین میں تنخواہ دار غنڈے بھی شامل ہوتے ہیں جو تشدد اور''سزا‘‘کے مختلف طریقوں کے ذریعے مزدوروں کو زیادہ سے زیادہ کام کرنے پر مجبورکرتے ہیں۔
یہ بات تاریخی طور پر ثابت ہوچکی ہے کہ یہ نظام زر محنت کشوں کے لئے صرف قوانین ہی بنا سکتا ہے۔انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن (ILO) اور دوسری مزدور تنظیمیں کتنے ہی قوانین بنا لیں اور ان پر کتنے ہی ممالک کے حکمران دستخط کردیں،کوئی فرق پڑنے والانہیں۔ ان سب کا قبلہ وکعبہ سرمایہ دارانہ نظام ہے۔ پاکستان میں یہ نظام بوسیدگی اور جبر واستحصال کی انتہائوںکو چھو رہا ہے۔اس نظام میں بنائے گئے قوانین مسائل کو حل کرنے کی بجائے مزید الجھاتے ہیں۔یہ وقت سرمایہ دار حکمرانوں کا ہے، انہیں محنت کشوں کی ذلت اور غربت سے کوئی فرق نہیں پڑتا ، لیکن یہ عہد ہمیشہ نہیں رہے گا۔آنے والے دنوں میں ایک انقلابی قیادت کے پرچم تلے محنت کش طبقہ خود پر ڈھائے جانے والے ایک ایک ظلم اور ایک ایک زخم کا بدلہ لے گا۔ جب تک ایک قلیل طبقہ سیاسی اور معاشی طور پر سماج پر حاوی ہے،کسی کو انصاف نہیں مل سکتا۔اصل انصاف محنت کش عوام کا انقلاب ہی کرے گا۔ فیض کے الفاظ میں:
یہ مظلوم مخلوق گر سر اٹھائے
تو انسان سب سرکشی بھول جائے
یہ چاہیں تو دنیا کو اپنا بنا لیں
آقائوں کی ہڈیاں تک چبا لیں