کوئی دو سو برس پہلے کی بات ہے کہ کشمیر کی وولر جھیل کے کنارے ایک چھوٹے سے گاؤں کے باسیوں کو ایک روپے کا دھاتی سکہ ملا جس کے ایک طرف کسی بادشاہ کا سر بنا تھا اور دوسری طرف کوئی تحریر تھی۔ دنیا سے کٹے ہوئے اس گاؤں کے لوگوں کو معلوم نہیں تھا کہ دنیا میں اشیاء کے تبادلے کی بجائے اب روپے کے ذریعے لین دین ہوتا ہے۔ایک روپے کا یہ دھاتی سکہ کسی نامعلوم وجہ سے یہاں پہنچ تو گیا تھا لیکن ان میںسے کوئی یہ نہیں جانتا تھا کہ اس کا مصرف کیا ہے۔ آخرکار یہ معاملہ اس بستی کے سردار تک پہنچا کہ شاید یہ دانا آدمی انہیں اس بارے میں کچھ بتا سکے۔ سردار نے بھی اپنی زندگی میں کبھی سکہ نہیں دیکھا تھا اس لیے اس نے گاؤں کے تین معتبر لوگوں کو مشاورت کے لیے بلا لیا تاکہ تعین کیا جاسکے کہ دھات کا یہ ترشا ہو ٹکڑا اصل میں ہے کیا۔ ایک رات کی سوچ بچار کے بعد ان تینوں نے فیصلہ دیا کہ یہ سکہ کسی انسانی کارکردگی کا نتیجہ نہیں بلکہ آسمان سے نازل ہونے والی ایک خوشخبری ہے۔ اس سکے پر بنی تصویر دراصل ایک ایسے بادشاہ کا کٹا ہوا سر ہے جس کے خلاف بہت جلد کشمیر کا بادشاہ فتح حاصل کرلے گا۔ یہ توجیہہ سردار کے دل کو لگی ، گاؤں والوں کو جمع کیا گیا اورسردار نے انہیں بتایا کہ کس طرح آسمان نے انہیں اس اعزاز کے لیے منتخب کیا ہے کہ ان کے ذریعے بادشاہ کو فتح کی خوشخبری سنائی جارہی ہے۔ یہ سن کر سارے گاؤں نے فیصلہ کیا کہ اس بشارت کو پورے تزک و احتشام کے ساتھ بادشاہ تک پہنچایا جائے گا۔ خوش قسمتی کے اس سکے کو دارالحکومت پہنچانے کے لیے انہی تینوں عقل مندوں کو منتخب کیا گیا جنہوں نے اس پر بنی تصویر سے اتنی بڑی خبر کشید
کی تھی۔ سکے کو رکھنے کے لیے ایک خصوصی ڈولی بنائی گئی تاکہ طویل سفر میں اسے کوئی نقصان نہ پہنچ پائے۔ گاؤں کے بزرگوںنے کہاروں کی طرح یہ ڈولی اٹھائی اور اسے کشتی گھاٹ تک پہنچایا، جہا ں سے ان تینوں معتبروں کے سفر کا آغاز ہونا تھا۔ وولر کے دوسرے کنارے تک پہنچنے تک بھی ان تینوں نے یہ انتظام رکھا کہ بادشاہ کے لیے تیار کردہ ڈولی کی حفاظت کے لیے ایک نہ ایک شخص جاگتا رہے۔ خشکی پر پہنچ کر وہ ایک سرائے میں جا اترے اور یہاں بھی وہی سلسلہ چلتا رہا۔ اب سڑک پر سفر کی ترتیب یہ بنی کہ تینوں نے اپنی بہترین پوشاکیں پہنیں ، دو اس ڈولی کے کہار بنے اور ایک آگے آگے اعلان کرتے چلا جاتا کہ راستہ چھوڑ دوبادشاہ کے لیے وولر جھیل کے کنارے رہنے والوں نے ایک خصوصی نذر بھیجی ہے۔ ترانے گاتے ہوئے یہ تینوں کشمیری آخرکار بادشاہ کے محل میں پہنچ گئے۔ بادشاہ کے مصاحبوں نے بہت چاہا کہ کسی طور اس سوغات پر نظر پڑجائے جسے یہ لوگ ملک کے دوردراز علاقے سے لے کرا ٓئے ہیں، لیکن ان تینوں معتبر کشمیریوں نے دھمکی دی کہ ان کے لائے ہوئے تحفے کو بادشاہ سے پہلے کسی نے دیکھنے کی کوشش کی تو وہ ایسی کوشش کرنے والے کی شکایت کریں گے ۔ ان کی دھمکی سن کر ہر شخص اپنی راہ لیتا۔ بہت مصیبت کے بعد جب وولر کنارے کے یہ تینوں کشمیری بادشاہ کے سامنے پیش ہوئے تو انہیں نذر پیش
کرنے کا حکم ہوا۔ ان تینوں میں سے ایک نے فوری طور پر ڈولی کا دروازہ کھولا تاکہ آسمانی سکہ بادشاہ کے ہاتھ میں دے سکے، لیکن ہوا یہ کہ سکہ کہیں راستے میں گر چکا تھا۔ سکہ نہ پاکر تینوں کا خون خشک ہوگیا ۔ انہوں نے ڈرتے ڈرتے عرض کی کہ ان کی نذر کہیںکھو گئی ہے تو اس پر وزیر اعظم کو غصہ آگیا اور اس نے ان کے قتل کا حکم جاری کردیا، لیکن بادشاہ نے قتل کا حکم قید سے بدل دیا۔ بادشاہ کا خیال تھا کہ یہ تینوں اپنی سادہ لوحی کی وجہ سے مار کھا گئے ہیں اور واقعی اس کے لیے لائی گئی نذر کھو بیٹھے ہیں ورنہ ان کی بساط نہیں کہ وہ بلا وجہ اس تک پہنچنے کی کوشش کریں۔ ان کے امتحان کی خاطر اس نے حکم دیا کہ ان تینوں کو قیدخانے میں کچے راشن کے ساتھ ایک چولہا اور ماچس کی ڈبیا دے دی جائے تاکہ وہ اپنا کھانا خود تیار کرلیں۔ ان تین غریبوں کو کھانا تو بنانا آتا تھا لیکن یہ معلوم نہ تھا کہ ماچس کی ڈبیا اور اس میں پڑی تیلیوں کو استعمال کرکے چولہا کیسے جلایا جائے۔ سو کچے راشن میں سے جو کچھ کھا سکتے تھے کھا لیا باقی اسی طرح چھوڑ دیا۔ بادشاہ کو اس سادگی کی خبر ملی تو انہیں دوبارہ اپنے حضور بلوایا اور پوچھا کہ نذر میں کیا لائے تھے؟ ان تینوں نے ایک آسمانی سکے کے بارے میں بتلایا تو اس نے ایک سکہ دکھا کر پوچھا کیا اس طرح کا تھا۔ دستِ شاہ میں اپنا مطلوبہ سکہ دیکھ کر تینوں حیرت سے گنگ ہوگئے۔ پھر بادشاہ نے اپنے ہاتھ میں پکڑا سکہ انہیں دیا تاکہ وہ اپنے ہاتھوں سے نذر پیش کردیں۔ پھر بادشاہ نے انہیں کچھ تحائف دے کر رخصت کیا اور ہدایت کی کہ سیدھے گھر جانا۔ گھر کی طرف جاتے ان تینوں کشمیری معتبروں کو اتنا ضرور معلوم ہوگیا کہ سکے کی صورت میں آسمان سے ان کے بادشاہ کی فتح کی خوشخبری صرف انہی کے گاؤں میں نہیں اتری بلکہ پورے ملک میں برسی ہے۔
دو صدیا ں پہلے وولر کے کنارے آسمان سے گرنے والے ایک روپے کے سکے کی طرح جنرل (ر) پرویز مشرف پر غداری کا مقدمہ بھی کچھ ایسی ہی شکل اختیار کرچکا ہے جس کے بارے میں طرح طرح کے قیافے لگائے جارہے ہیں۔ اسلام آباد میں تین کشمیری معتبر ہیں جن میں سے دو جنرل (ر) مشرف کے مقدمے کو ڈولی میں ڈالے کہاروں کی طرح اٹھائے اٹھائے پھرتے ہیں اور ایک ان کے آگے آگے ہٹو بچو کی صدا دیتاچلتا ہے ۔ یہ سادہ لوح پورے خلوص کے ساتھ یہ سمجھتے ہیں کہ ان کے سواسارا ملک جنرل (ر) پرویز مشرف کو آرٹیکل چھ کے اطلاق سے بچانا چاہتا ہے۔ ان کے خیال میںجو شخص منہ بھر کر جنرل مشرف کو گالی نہیں دیتا، بلا ضرورت اس معاملے پر الجھتا نہیں اوربار بار خود پر تشدد کی مثال نہیں دیتا دراصل آمریت کا ایجنٹ ہے۔ اپنے مؤقف کی صداقت پر ان تینوں کا ایمان بلا شبہ قابل تعریف ہے لیکن اس کے اظہار میں اتنا مبالغہ ہے کہ ان میں سے ایک نے تو جنرل مشرف کے خلاف دلیل کے طور پر وزیراعظم اور دیگر وزراء کے سامنے اپنی پیٹھ سے قمیض اٹھا کر کوئی ایسا نشان دکھانے کی کوشش کی جس کا تعلق اس تشدد سے ہے جو اس پر لاہور میں کیا گیا۔
'معتبروں‘ کی اسی مثلث کی چیخم دھاڑ ہے جس نے حکومت اور فوج کے درمیان فاصلہ پیدا کرکے ایسا ماحول بنا دیا ہے کہ سیاسی صفوں میں موجود وہ تمام قوتیں جن کاروزگار آمریت سے جڑا ہے، خودکار نظام کے تحت حرکت میں آگئی ہیں۔جنرل مشرف کے ساتھ جو کچھ ہونا تھا ہو چکا، جو ہونا ہے اس کا معاملہ عدالت میں ہے لیکن ان تینوں کی نادانی نے خرابی کی جو صورت پیدا کی ہے وہ جاتے جاتے جائے گی۔وزیراعظم نے بروقت مداخلت کرکے معتبروں کی اس مثلث کو توڑنے کے لیے ایک آدھ وزارت میں تبدیلی پر غور شروع کردیا ہے اور زباں بندی کا حکم بھی دے دیا ہے۔ وقتی طور پر ان اقدامات سے بگڑے مزاج کچھ درست تو ہوجائیں گے لیکن ان تینوں' کشمیری بھائیوں ‘ کے شورشرابے سے جو سوئے ہوئے فتنے جاگ اٹھے ہیں ، ان کے رخصت ہونے میں ابھی دو ماہ اور لگیں گے۔