تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     15-04-2014

سرخیاں‘ متن اور ٹوٹا

لوٹ مار کرنے والے ٹھیک ہو جائیں
ورنہ اُلٹا لٹکا دوں گا... شہباز شریف
خادم اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ''لوٹ مار کرنے والے ٹھیک ہو جائیں، ورنہ اُلٹا لٹکا دوں گا‘‘ اگرچہ انتخابات سے پہلے تو میں نے کہا تھا کہ لوٹ مار کرنے والوں کا پیٹ پھاڑ کر دولت باہر نکلوائوں گا، اب میں سمجھتا ہوں کہ اُلٹا لٹکانا زیادہ بہتر ہے کیونکہ سر کے بل لٹکنے سے کھایا پیا خود ہی باہر آ جاتاہے جبکہ ٹھیک ہو جانے سے میری مراد یہ ہے کہ کرپشن ٹھیک طریقے سے کریں اور اناڑی پن کا مظاہرہ نہ کریں کیونکہ یہ بھی ایک آرٹ ہے اور سیکھنے سے ہی آتا ہے جس کی روشن مثالیں ہمارے ہاں آسانی سے دستیاب ہیں، صرف دماغ کو حاضر کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''کرپشن ختم نہ کرا سکا تو سیاست چھوڑ دوں گا‘‘ کیونکہ پہلے بھی ہم سیاست نہیں کر رہے۔ بادشاہت کا ایک سلسلہ ہے جسے اللہ کے فضل و کرم سے جاری رکھے ہوئے ہیں ۔جبکہ بیچ میں دو چار سال کے لیے آرام کا وقفہ مل جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''یہاں تو وزیراعلیٰ کی آنکھوں میں دھول جھونکی جاتی ہے‘‘ حالانکہ دھول تو عوام کی آنکھوں میں جھونکنے کے لیے ہوتی ہے۔ آپ اگلے روز طیب اردوان ہسپتال کا دورہ کر رہے تھے۔
فوج اور حکومت کے تعلقات میں کچھ
کشیدگی ہے‘ رفع کر لیں گے...چودھری نثار
وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار احمد خاں نے کہا ہے کہ ''بیانات سے فوج اور حکومت کے تعلقات میں کچھ کشیدگی ہے جسے جلد رفع کر لیں گے‘‘ اور چونکہ متعلقہ وزرائے کرام کو مزید بیان بازی سے منع کر دیا گیا ہے، اس لیے امید ہے کہ یہ کشیدگی اپنے آپ ہی ختم ہو جائے گی، اگرچہ خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ وہ اپنے بیان کے ایک ایک لفظ پر قائم ہیں، تاہم وہ اس پر مزید قائم رہتے لیکن ایسا کہنے کی کیا تُک تھی۔ انہوں نے کہا کہ ''فوج سے مل کر مذاکرات آگے بڑھا رہے ہیں‘‘ اگرچہ دراصل طالبان ہی آگے بڑھا رہے ہیں کیونکہ مذاکرات میں تو تعطل ہے اور اُن دوستوں نے ابھی تک جنگ بندی میں توسیع بھی نہیں کی ہے، تاہم ہماری طرف سے جنگ بندی بدستور جاری ہے جسے جنگ بندی میں پچاس فیصد کامیابی کہا جا سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''مذاکرات کی تاریخ جلد طے ہو جائے گی‘‘ البتہ مذاکرات ناکام ہونے کی تاریخ کے بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔
جان بوجھ کر ایسے شخص کو وزیر دفاع بنایا
گیا جسے فوج نا پسند کرتی ہے...شیخ رشید
عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید احمد نے کہا ہے کہ ''جان بوجھ کر ایسے شخص کو وزیر دفاع بنایا گیا جسے فوج نا پسند کرتی ہے‘‘ اور فوج خاکسار کو جتنا پسند کرتی ہے، اس کے جذبات کا خیال رکھنا چاہیے تھا جو کہ نہیں رکھا گیا اور موجودہ صورت حال پیدا ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''حکومت اور فوج کی کشیدگی وزیراعظم کو بھُگتنا پڑے گی‘‘ حالانکہ وہ پہلے بھی اسے ٹھیک ٹھاک بھُگت چکے ہیں اور دیکھیے کہ تاریخ کس خوبصورتی سے اپنے آپ کو دہرانے جا رہی ہے اور یہی جمہوریت کا حسن بھی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''فوج مشرف اور مشرف فوج‘‘ اور دونوں میں صرف وردی کا فرق ہے۔ انہوں نے کہا کہ''آرمی چیف کے بیان کا مطلب ہے کہ وہ کافی تنگ ہیں‘‘ تاہم مجھ سے زیادہ تنگ نہیں ہیں کیونکہ پورٹ فولیو کے بغیر قوم کی کیا خدمت کی جا سکتی ہے اور جو پورٹ فولیوز جے یو آئی کو دیے جانے تھے، کم از کم وہ تو فارغ تھے ہی۔ انہوں نے کہا کہ ''حکومت اور فوج میں بہت بڑی خلیج پیدا ہو چکی ہے‘‘جسے خاکسار ہی پُر کر سکتا ہے کیونکہ میرے جُثے کے بارے تو کسی کو کوئی شک وشبہ ہونا ہی نہیں چاہیے۔ آپ اگلے روز جناح پارک شیخوپورہ میں ایک جلسے سے خطاب کر رہے تھے۔ 
شہباز شریف 24کی بجائے 26
گھنٹے کام کرتے ہیں...صدر ممنون
صدر ممنون حسین نے کہا ہے کہ ''شہباز شریف 24کی بجائے 26گھنٹے کام کرتے ہیں‘‘ اور اب کوشش کر رہے ہیں کہ اس عرصے کو مزید بڑھایا جائے چنانچہ اس سلسلے میں پارٹی زعماء سے تجاویز طلب کر لی گئی ہیں، اگرچہ پارٹی معززین اور افسروں کو موصوف کے 6گھنٹے بھی 26گھنٹے کے برابر ہی لگتے ہیں کہ ڈانٹ ڈپٹ ہی جاری رہتی ہے اور یہ 6گھنٹے بھی ختم ہونے میں نہیں آتے۔ انہوں نے کہا کہ ''وزیراعلیٰ نے پنجاب کا نقشہ ہی تبدیل کر دیا ہے‘‘ چنانچہ اب راولپنڈی کی جگہ فیصل آباد، گجرات کی جگہ ساہیوال اور شیخوپورہ کی جگہ رحیم یار خاں آ گیا ہے اور ان شہروں کا سفر کرنے والے بُری طرح بوکھلائے بوکھلائے رہتے ہیں اور انہیں کچھ سمجھ نہیں آتی کہ کہاں جا رہے تھے اور کہاں پہنچ گئے ہیں، چنانچہ عوام کی سہولت کے لیے یہ نقشہ چھپوایا جاتا ہے تاکہ انہیں معلوم ہو سکے کہ کون سا شہر اب کہاں واقع ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''پنجاب اب ایک ترقی یافتہ اور خوشحال صوبہ نظر آتا ہے‘‘ اور یہ اس لیے ہوا ہے کہ نئے نقشے کے مطابق لاہور اب پورے پنجاب کی جگہ آ گیا ہے۔ آپ اگلے روز لاہور میں وزیراعلیٰ سے ملاقات کے بعد صحافیوں سے گفتگو کر رہے تھے۔
یک بام و دو ہوا
وزیر داخلہ نے یہ اعتراف تو برملا کیا ہے کہ حکومت اور فوج کے درمیان ہلکی سی رنجش موجود ہے جسے جلد رفع کر لیا جائے گا۔ اس کا صاف مطلب یہ بھی ہے کہ وہ اگر فوج کو حکومت پر بالا دست نہیں تو برابری کی سطح پر ضرور رکھ رہے ہیں، اور زمینی حقائق بھی یہی ہیں اور اسی لیے اس حوالے سے نت نئی افواہیں بھی زور پر رہتی ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ اگر صورت حال واقعتاً یہ ہے تو حکومت فوج کے ساتھ اتنی بے تکلفی، کھلواڑ اور پنگے بازی کا مظاہرہ کیوں کر رہی ہے اور کس بَرتے پر؟ یا تو وہ آئین میں دی گئی اپنی برتری پر عمل کرے اور فوج کے معاملے میں ایسا ہی رویہ اختیار کرے جو ایک ماتحت ادارے کے ساتھ کیا جاتا ہے اور اگر وہ ایسا نہیں کر سکتی تو کان کو سیدھی طرف سے ہاتھ لگائے، کیونکہ وہ دہشت گردوں کو برابری کا درجہ دے کر اور بسیار کوششوں کے بعد انہیں مذاکرات پر آمادہ کرنے سے بھی اپنے کمزور اور نحیف و نزارہونے کا ثبوت فراہم کر چکی ہے۔ سو حکومت کو چاہیے کہ یہ دوغلا پن چھوڑ کر یا تو فوج کو اپنے پیچھے لگا لے، یا شرافت کے ساتھ اس کے پیچھے لگ جائے اور کسی نئے ڈرامے کو دعوت نہ دے!
آج کا مطلع
یہ نہیں کہتا کہ دوبارہ وہی آواز دے 
کوئی آسانی تو پیدا کر‘ کوئی آواز دے 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved