مغرب زدہ نظامِ تعلیم کے پروردہ اور ابتدائی تعلیم سے ہی مرعوبیت کی لوریاں سن کر جوان ہونے والے افراد اپنے سیکولر استادوں کی خود ساختہ منطق سے بنائے گئے تصورات میں سے ایک تصور عام طور پر پیش کرتے نظر آتے ہیں کہ جس ملک سے ٹیکنالوجی آتی ہے‘ اس کے ساتھ اس ملک کا کلچر بھی آتا ہے۔ جس معاشرے کی ٹیکنالوجی پر برتری ہو گی، اسی کی بالادستی قائم ہو گی۔ ان لوگوں کے نزدیک کلچر اور ثقافت دراصل گاڑیاں، ایئرکنڈیشنر، برقی سازوسامان، صوفے اور کرسیاں یا دیگر استعمال کی چیزیں ہوتی ہیں اور اسی کو وہ مکمل کلچر تصور کر لیتے ہیں۔ کلچر کی تمام تعریفوں میں ایک بات مشترک ہے کہ یہ ایک Complex whole ہے‘ یعنی ایک قوم یا معاشرے کی ثقافت میں اس کی زبان، رہن سہن، کھانا پینا، اخلاقیات، مذہبی رسومات، پہناوا، شادی بیاہ، موت، رقص، موسیقی، جنگ و جدال، دوستی و دشمنی غرض ہر وہ چیز شامل ہوتی ہے جو اس قوم کے لیے خاص ہوتی ہے۔ اسے آج کے ''مہذب‘‘ معاشرے میں لائف سٹائل کا نام دیا جاتا ہے۔ یہ وہی لائف سٹائل ہے‘ جس کے تحفظ کے لیے پوری مغربی دنیا گیارہ ستمبر کے بعد عالمِ اسلام کے خلاف متحد ہو گئی تھی۔ یہی وہ وقت تھا جب جارج بش اور ٹونی بلیئر نے اپنی اپنی تقریروں میں ایک ہی نعرہ استعمال کیا تھا کہ ''یہ لوگ ہمارا لائف سٹائل ہم سے چھیننا چاہتے ہیں۔ لائف سٹائل کے تحفظ ہی کی کوشش تھی کہ فرانس کی پارلیمنٹ کو صرف 92 حجاب پہننے والی عورتوں کے خلاف قانون سازی کرنا پڑی۔ اس لیے کوئی ملک اگر یہ کہتا ہے کہ اس کا کوئی نظریہ نہیں تو وہ غلط بیانی کر رہا ہوتا ہے۔ مغربی ممالک جس چڑیا کو اپنا لائف سٹائل اور طرز زندگی کہتے ہیں، وہی ان کا نظریہ ہے اور وہ اس کے تحفظ کے لیے جس ملک پر چاہیں چڑھ دوڑیں، قتل و غارت کریں، پورے پورے شہر کھنڈر بنا دیں‘ اسے جائز قرار دیتے ہیں۔
کیا ٹیکنالوجی کی برتری کسی معاشرے کے خوابوں، امنگوں، امیدوں، اخلاقیات، گھریلو اقدار اور معاشرتی رویے پر اثر انداز ہو سکتی ہے؟ یہ ہے وہ سوال جو ہر مغرب زدہ شخض ہم سے پوچھتا ہے اور پھر خود ہی اس کا ''ہاں‘‘ میں جواب دیتا ہے کہ اگر ہم مغرب کی ٹیکنالوجی استعمال کریں گے تو ہمیں ان کا کلچر بھی لینا ہو گا۔ مملکتِ خداداد پاکستان کے بارے میں جاپان کا ایک دعویٰ ہے کہ اس ملک کا کوئی ایک گھر بھی ایسا نہیں جس میں جاپان کی بنی ہوئی کوئی چیز موجود نہ ہو‘ خواہ وہ ایک چھوٹی سی آڈیو کیسٹ ہی کیوں نہ ہو۔ کاریں‘ ٹیلی ویژن‘ ریفریجریٹر بلکہ بے شمار اشیاء ہیں جو جاپان سے آتی ہیں۔ اس کے بعد دوسرا بڑا ملک جس کی مصنوعات ہم دھڑا دھڑ استعمال کرتے ہیں ‘چین ہے۔ چین نے تو ہماری اپنی مصنوعات کی کھپت ہی اس ملک میں ختم کر کے رکھ دی ہے۔ بجلی کے سوئچوں سے لے کر جوتوں اور فرنیچر سے لے کر ٹائلوں تک‘ کون سی چیز ہے جو چین سے درآمد نہیں ہوتی اور ہم استعمال نہیں کرتے۔ لیکن کیا اس ملک کے کسی کونے میں چین یا جاپان کے کلچر کا کوئی محدود سا اثر بھی نظر آتا ہے؟ کیا ہم نے جاپانیوں کی طرح وعدہ خلافی پر اپنی انگلیاں کاٹنا شروع کر دی ہیں؟ یا دھوکہ کا الزام ثابت ہونے پر شرمندگی سے بچنے کے لیے خود کشی شروع کی ہے؟ ہم ان کی طرح جھک کر آداب کرنے لگے ہیں؟ ہم گھروں کے اندر زمین پر سوتے ہیں یا پھر کئی بار کورنش بجا لا کر چائے پیتے ہیں؟ ہم تو جاپانی کھانوں میں سے کوئی ایک کھانا بھی نہیں کھاتے جبکہ ہمارے کھانے جاپان کی بنائی ہوئی مصنوعات میں پکتے اور گرم ہوتے ہیں۔ یہی معاملہ چین کا ہے۔ کیا سوائے چینی کھانوں کے‘ جو خود انہوں نے دنیا بھر میں متعارف کرائے، چینی ثقافت کا کوئی اور پہلو ہمارے معاشرے میں نظر آتا ہے؟ کیا برقی مصنوعات یا دیگر نئی دریافتیں ہماری اقدار بدل دیتی ہیں؟ ہمارے شرم و حیا کے اصول تبدیل ہو جاتے ہیں؟ دنیا میں کتنے ایسے معاشرے ایسے ہیں جہاں ٹیکنالوجی سیلاب کی صورت آئی لیکن تمام معاشرتی اقدار قائم رہیں۔ جاپان ہی کو دیکھ لیجیے‘ جو اپنی اخلاقیات اور رہن سہن کے اعتبار سے آج بھی کئی سو سال پہلے کی معاشرتی حالت پر کھڑا ہے۔ وہاں بلٹ ٹرین چلتی ہے، اونچی اونچی عمارات بنی ہیں لیکن ان جاپانیوں کے قصے کہانیاں بدلی ہیں اور نہ ہی رہنے کے اصول۔ ان کے خواب، ان کے ہیرو، ان کے معاشرتی اصول سب کے سب آج بھی وہی ہیں۔
کسی بھی ملک کا کلچر، ٹیکنالوجی کی ترقی سے نہیں بدلتا بلکہ اس نصاب تعلیم سے بدلتا ہے جو ہم بلا سوچے سمجھے اپنے اوپر لاگو کر لیتے ہیں۔ اس میڈیا سے بدلتا ہے جس پر ہم اس بات کی اجازت دیتے ہیں کہ جس طرح کی چاہیں فحاشی‘ عریانی اور بے حیائی اور بے شرمی دکھائیں‘ ہمیں کوئی اعتراض نہ ہو گا۔ کوئی موبائل فون یا ٹیلی ویژن فحش نہیں ہوتا بلکہ اس کے پیچھے بیٹھے انسان ہوتے ہیں جو اسے پراگندہ کرتے ہیں۔ ہم نے کئی سالوں کی محنت سے بچوں کو وہ کارٹون دکھائے، کومکس پڑھائیں، گیت اور کہانیاں سنائیں جن میں وہ کلچر موجود تھا جو کسی بھی مغربی معاشرے میں مروج تھا۔ شراب کشید کرنے کے تہوار سے لے کر فادرز ڈے اور مدرز ڈے تک سب کے سب ہماری محنت اور لگن سے ہی ہمارے لوگوں تک پہنچے۔ ان میں کسی ٹیکنالوجی نے کوئی فیصلہ نہیں کیا تھا کہ اگر ایسا ماحول نہ ہو گا تو ٹیلی ویژن چلنے سے انکار کر دے گا یا مائیکرویو کھانا نہیں گرم کرے گا۔
دنیا میں جہاں کہیں بھی کسی دوسرے علاقے کے کلچر کو فروغ ملا اس کی صرف دو وجوہ تھیں۔ ایک یہ کہ وہاں کے حملہ آوروں نے اسے فتح کیا‘ وہاں مدتوں حکومت کی اور پھر فاتحین کے کلچر نے وہاں زبردستی اپنی جگہ بنائی۔ دوسرا کسی بھی معاشرے میں سے لوگوں کی دوسرے علاقوں کی طرف ہجرت نے وہاں کے رہن سہن اور طور طریقوں حتیٰ کہ مذہب کو بھی بدل دیا۔ امریکہ دریافت ہوا تو وہاں کے ریڈ انڈین کلچر کو کسی ٹیکنالوجی نے نہیں‘ قتل و غارت اور ظلم و ستم نے تباہ کیا تھا۔ جن ملکوں کو برطانیہ، سپین، فرانس، ہالینڈ اور پرتگال نے فتح کیا‘ وہاں زبردستی اپنا کلچر نافذ کیا۔ اس دور میں اس کا ہتھیار نظام تعلیم تھا اور آج اس کے دو ہتھیار ہیں نظامِ تعلیم اور میڈیا۔ کلچر نہ فزکس پڑھانے سے بدلتا ہے اور نہ کیمسٹری سے۔ کلچر دوسرے ملکوں کے کلچر کو غالب دکھا نے اور اس کو قصے کہانیوں کے ذریعے ذہنوں پر نقش کرنے سے بدلتا ہے۔ حیرت یہ ہے کہ جاپان‘ جس کی ترقی یافتہ تہذیب بھی ہے‘ ٹیکنالوجی پر مکمل کنٹرول بھی رکھتا ہے اور پوری دنیا اس سے مستفید بھی ہوتی ہے لیکن اس کا کلچر کسی دوسرے ملک میں پروان نہیں چڑھتا مگر امریکہ صرف جنگی سازوسامان ہی بھیجے تو لوگ اس کے کلچر کے رنگ میں رنگ جاتے ہیں۔