کئی زمانے اِتنی تیزی سے گزر گئے ہیں کہ گویا ہمارے سَر سے گزر گئے ہیں۔ ایک زمانہ تھا کہ ہم شام کے حسین لمحات دوستوں یا اہل خانہ کے ساتھ گزارا کرتے تھے۔ پھر یہ ہوا کہ اخباری ملازمت میں آنے کے بعد زندگی کا معاشرتی پہلو غائب ہو گیا۔ اِس شعبے میں آنے سے پہلے ہم شام تک گھر پہنچ جاتے تھے اور اہلِ خانہ کو صرف درشن ہی نہیں دیتے تھے بلکہ اُن کے ساتھ بیٹھ کر کھانا بھی کھا لیا کرتے تھے۔ عام آدمی کی ایسی ہی زندگی تھی۔ تب تک ڈش اینٹینا نہیں آیا تھا اور موبائل فون بھی نہیں تھے۔ یعنی وقت اچھا خاصا تھا اور اُسے باضابطہ یعنی منصوبہ بندی کے تحت خرچ کرنا پڑتا تھا۔ پہلے تو وی سی آر کی ''بدولت‘‘ بیشتر گھر سینما گھر میں تبدیل ہوئے۔ پھر یہ ہوا کہ بیسیوں چینلز گھر بیٹھے دیکھنے کی سہولت میسر ہوگئی۔
اب انٹرنیٹ ہے اور ہم ہیں۔ زندگی کا کون سا پہلو ہے جو انٹرنیٹ کی دست بُرد سے بچا ہے۔ اور کیا ہے جو انٹرنیٹ پر میسر نہیں۔ انٹرنیٹ کا استعمال بھی سوشل میڈیا کی اسیری اختیار کرنے، تفریحِ طبع کے ہر آئٹم میں دلچسپی لینے یا پھر چند مُخربِ اخلاق ویب سائٹس کے دیکھنے تک رہ گیا ہے۔ کچھ لوگ ڈراموں سے دل بہلاتے ہیں۔ کسی کو فلمیں دیکھنی ہوتی ہیں۔ بس، ہمارے لیے تو یہی انٹرنیٹ کی کُل کائنات ہے۔سوشل میڈیا کی اصلاح بھی خوب ہے۔ جس چیز نے ہمیں نان سوشل، بلکہ بہت حد تک اَن سوشل کر ڈالا ہے اُسے سوشل میڈیا قرار دیا جارہا ہے! نئی نسل کو فیس بُک اور ٹوئٹر سے فُرصت نہیں اور اِس سے آگے کچھ بھی دکھائی نہیں دیتا۔
نئی نسل کو ایک واضح لائن مل گئی ہے اور وہ ہے آن لائن۔ نوجوان فیس بُک کے پیج پر رہتے ہیں یا پھر ٹوئٹر پر براجمان دکھائی دیتے ہیں۔ فیس بُک کے پیج پر پائی جانے والی ''وال‘‘ کو نئی نسل دیوارِ گریہ کے طور پر استعمال کرتی ہے یعنی اپنا اور دوسروں کا ماتم کرتی رہتی ہے۔ کسی کے پاس کچھ ہو تو اُس میں دوسروں کو شریک کرنے کا سوچنا معقول معلوم ہوتا ہے۔ ہماری نئی نسل کا کمال یہ ہے کہ کچھ نہ ہونے پر بھی بہت کچھ ''شیئر‘‘ کرنا چاہتی ہے! طریقِ واردات وہی ہے یعنی شیئرنگ بھی ہوتی ہے تو فیس بُک کے پیج پر! ہم نے تو ایسے نوجوان بھی دیکھتے ہیں جو فیس بُک پیج کو کچن اور ڈائننگ ٹیبل کے طور پر بھی استعمال کرتے ہیں یعنی وہ اپنے پیج پر آن لائن رہنے ہی کو پیٹ بھرنے کا ذریعہ سمجھ بیٹھے ہیں۔ اُنہوں نے اپنی زندگی سے باقی سب کچھ نکال کر ایک طرف رکھ دیا ہے۔ اگر کسی دن فیس بُک یا ٹوئٹر پر نہ جاسکیں تو زندگی میں کوئی بڑی کمی سی محسوس ہوتی ہے، جیسے بہت کچھ کہیں راستے میں گر گیا ہو! کسی بھی وجہ سے سوشل میڈیا پر دو تین دن غائب رہنے سے بعض نوجوانوں کو جتنا ملال ہوتا ہے اُتنا ملال تو بہت سوں کو اب کسی عزیز کے مرنے پر بھی نہیں ہوتا! سوشل میڈیا پر پوسٹ کئے جانے والے کمنٹس سے اندازہ ہوتا ہے کہ نئی نسل کو اندازہ ہی نہیں کہ جب سوشل میڈیا نہیں تھا تب بھی بہت کچھ تھا جو سوشل تھا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ زندگی اچھی خاصی سوشل تھی! مگر اب نئی نسل کو کیا سمجھائیں کہ جب یہ سب کچھ نہیں تھا تب زندگی کی کیا شکل تھی۔ ؎
لطفِ مے تُجھ سے کیا کہیں زاہد!
ہائے کم بخت، تو نے پی ہی نہیں
ستم ظریفی یہ ہے کہ دنیا بھر میں کاروباری ادارے اب ملازمین بھرتی کرتے وقت یہ بھی دیکھتے ہیں کہ سوشل میڈیا پر اُن کا اسٹیٹس کیا ہے۔ یعنی جس کے دوست اور فالوورز زیادہ ہوں‘ وہ زیادہ موزوں قرار پائے گا۔ امریکی ریاست ورجینیا کی اولڈ ڈومینین یونیورسٹی کے عمرانیات کے ماہرین نے ایک اسٹڈی میں بتایا ہے کہ آجروں کو بہترین افرادی قوت کے انتخاب میں فیس بُک غیر معمولی مدد فراہم کرتی ہے۔ فیس بُک پروفائل سے امیدوار کی شخصیت کا بہت حد تک درست اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ فیس بُک پروفائل سے حاصل کردہ معلومات اور سیلف رپورٹیڈ پرسنیلٹی ٹیسٹ میں غیر معمولی مطابقت پائی گئی۔ معاشرتی اُمور کی محقق کیٹلین کاوانو کا کہنا ہے کہ سوشل میڈیا اور خاص طور پر فیس بُک سے ملازمت کے کسی بھی امیدوار کے بارے میں تازہ ترین اپ ڈیٹس ہی معلوم نہیں ہو پاتیں بلکہ پورا ٹریک ریکارڈ سامنے آ جاتا ہے۔
ہماری نئی نسل بہت زیادہ سوشل بننے کی کوشش میں خاصی Unsocial اور Unethical ہوگئی ہے۔ جب راہ کو منزل سمجھ کر خوش ہو رہنے کی ذہنیت پنپ جائے تو ایسا ہی ہوا کرتا ہے۔ ہمیں حیرت ہے کہ سوشل میڈیا پر متحرک رہنے والے اچھے ملازم کیسے ثابت ہوسکتے ہیں کیونکہ جو اِس طلسمات میں گیا، پتھر کا ہوگیا۔ کئی نوجوانوں کو ہم نے پتھر کا ہوتے دیکھا ہے۔ اور معاملہ نوجوانوں تک کہاں محدود ہے، اچھی خاصی عمر والے بھی سوشل میڈیا کی زُلفِ ناز کے اسیر ہیں۔ اور سچ تو یہ ہے کہ بہت سوں نے اِس زُلفِ ناز کو خوشی خوشی اپنے گلے کا پھندا بنا ڈالا ہے۔ سوشل میڈیا کو جس نے گلے لگایا وہ پھر کسی اور کو پورے مَن سے اپنا نہ سکا۔ گویا بہ قول جوشؔ ملیح آبادی
تیری ہی زُلفِ ناز کا اب تک اسیر ہوں
یعنی کسی کے دام میں آیا نہیں ہنوز
سوشل میڈیا رابطوں کا موثر ترین ذریعہ ہونے کے ساتھ ساتھ نمک کی کان بھی ہے۔ ہم نے جس کسی کو اِس راہ پر چلتے دیکھا ہے وہ پھر کسی منزل کا شیدائی دکھائی نہیں دیا۔ گویا ؎
منزلیں ڈھونڈتی ہی رہ جائیں
راہ کی دِل کشی میں کھو جاؤں!
نمک کی اِس کان میں جو بھی گیا اُسے ہم نے نمک ہوتے دیکھا ہے۔ سوشل رہنے کا ہم نے تو یہ گُر کھوج نکالا ہے کہ سوشل میڈیا پر کم کم جاتے ہیں اور درست راہ پر گامزن رہنے کے لیے کم کم آن لائن ہوتے ہیں۔