وزیراعظم نوازشریف اور پیپلزپارٹی کے سربراہ‘ آصف زرداری میں ہونے والی ملاقات کافی اہمیت کی حامل ہے۔ یہ ایسے وقت میں ہو رہی ہے‘ جب پرویزمشرف کے کیس اور دہشت گردوں کے ساتھ مذاکرات کے سوال پر منتخب حکومت اورپاک فوج اور اس کی قیادت کے مابین‘ دو بنیادی نوعیت کے معاملات پر اختلاف رائے پیدا ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ فریقین اس پر جتنی چادریں چاہیں ڈالتے رہیں‘ ان کے نیچے سے حقیقت کے نوکدار کونے‘ ابھرے ہوئے صاف نظر آ رہے ہیں۔ پرویزمشرف کے بارے میں قارئین کو میری رائے اچھی طرح معلوم ہے۔ جو کچھ ابھی تک ان کے ساتھ ہو چکا ہے‘ سبق دینے کے لئے کافی ہے۔ اگر آگے بڑھنے کی کوشش کی گئی‘ تو ہو سکتا ہے‘ سبق دینے میں دوسرا پہل کر دے۔ گھوڑے کا قصہ تو آپ نے سنا ہو گا۔ گھوڑے کو تکلیف ہوئی تو مالک حکیم کے پاس دوا لینے چلا گیا۔ تکلیف بتائی۔ حکیم نے ایک پائوڈر دیتے ہوئے کہا ''اسے کسی پلیٹ پر رکھ کر‘گھوڑے کی ناک کے آگے لا کر پھونک مار دینا۔‘‘ مالک نے اسی طرح کیا۔ جیسے ہی اس نے پلیٹ گھوڑے کے ناک کے پاس کی اور پھونک مارنے کے لئے منہ پلیٹ کے اوپر لایا۔ گھوڑے نے پھونک مار دی۔ سیاسی طاقت دوا پلیٹ میں رکھ چکی ہے۔بہتر ہے کہ پھونک مار کے فارغ ہو جائے اور گھوڑے کو چلتا کرے۔ ایسا نہ ہو کہ گھوڑا پہلے پھونک مار دے اور سیاسی طاقت کے ہاتھ سے موقع نکل جائے۔
یہ میں بلاوجہ نہیں لکھ رہا۔ بیرونی اور داخلی حالات ‘ جمہوریت کے حق میں اتنے سازگار نہیں رہ گئے‘ جیسے ڈیڑھ دو برس پہلے تک تھے۔ نمونے کے طور پر‘ مصر کی مثال آپ کے سامنے ہے۔ صدر مورسی کی حکومت ہر اعتبار سے ایک مکمل نمائندہ اورمستحکم حکومت تھی۔ ان کے حامیوں نے تحریراسکوائر میں عرب دنیا کی سیاسی زندگی کا طویل ترین دھرنا دے کر‘ اپنی طاقت کا مظاہرہ کیا تھا اور فوج پر اتنا دبائو ڈالا کہ اسے پسپا ہونا پڑا۔ عام انتخابات میں عوام کا دبائو اتنا زیادہ تھا کہ حکمران جنرلوں کو دھاندلی کا حوصلہ بھی نہ ہوا۔ صدر مورسی اور ان کے حامیوں نے باور کر لیا کہ اب فوج دبائو میں آ چکی ہے اور اس میں عوامی طاقت سے مقابلے کا دم خم نہیں رہ گیا۔ تحریر اسکوائر کے تاریخی مظاہروں کے اثرات موجود تھے اور حکمران جماعت‘ اخوان کو یقین تھا کہ فوج ابھی عوامی طاقت کے مظاہروں کو بھولی نہیں ہو گی۔لیکن جب مورسی اور ان کے ساتھیوں نے فوج پر‘ اس کی قوت برداشت سے زیادہ دبائو ڈالا‘ تو فوج نے تحریراسکوائر میں مظاہروں کا بندوبست کیا۔ مورسی حکومت عوام کا کوئی مسئلہ حل نہیں کر پائی تھی۔ ان کی مایوسی میں اضافہ شروع ہو چکا تھا۔ تحریر اسکوائر کے مظاہروں نے مایوس اور بیزار عوام کی توجہ اپنی طرف مبذول کر لی اور فوج نے حالات کا رخ دیکھ کر اقتدار پر قبضہ کر لیا۔ یہاں تک ایڈونچر تھا۔ پردہ اس وقت اٹھا‘ جب امریکہ نے اچانک فوجی بغاوت کو عوامی طاقت اور مظاہروں کا نتیجہ قرار دیتے ہوئے اعلان کر دیا کہ یہ بغاوت نہیں‘ فوج نے عوامی خواہشات کے مطابق اقدام کیا ہے۔ ساتھ ہی فوجی حکومت پر دھڑا دھڑ ڈالروں کی بارش ہونے لگی۔ سعودی عرب اور اس کی حواری عرب ریاستوں کی حکومتیں‘ اخوان کے ساتھ تھیں۔ لیکن وہ کوشش کے باوجود اس کی مدد نہ کر سکیں۔ میں نے اسی وقت لکھ دیا تھا کہ اب جمہوریت سے امریکہ کا رومانس ٹھنڈا پڑنے لگا ہے اور مصر کا تجربہ کامیاب ہو گیا‘ تو بات آگے بڑھ سکتی ہے۔ مصر کا تجربہ ناکام نہیں رہا۔
پاک فوج سے امریکہ کی ناراضی ‘ صدر مشرف اور ان کے ساتھیوں پر تھی۔ قبائلی علاقے کے اوپر پرواز کرتے ہوئے سینئر کمانڈروں کے ساتھ جنرل کیانی کی گفتگو‘ ایجنسیوں نے ریکارڈ کر لی تھی۔ وہ کہہ رہے تھے کہ حقانی نیٹ ورک ہمارا اثاثہ ہے۔ اس کے خلاف کارروائی نہ کرنا۔اس کے بعد مشرف حکومت کی دو عملی کو گہری نظر سے دیکھنے کی کارروائی شروع ہو گئی اور امریکہ نے نتیجہ اخذ کیا کہ مشرف اور ان کے ساتھی دوغلی پالیسی چلا رہے ہیں۔ اس وقت انہیں پاک فوج کی قیادت پر غصہ تھا کہ اس کے سربراہ نے اتحادی بن کر ہمارے ہی سرمائے اور اسلحہ سے ‘ ہمارے ہی فوجیوں پر حملے کرنے والوں کو تحفظ اور وسائل مہیا کئے۔ پرویزمشرف بہت دنوں سے جا چکے ہیں۔ افغانستان کے حالات بدل چکے ہیں۔ پاک فوج اور امریکہ کے دیرینہ تعلقات کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ خصوصاً ہمارا اسلحہ اور جنگی صلاحیتوں کے دوسرے شعبوں میں‘ ہم ایک ہی ٹیکنالوجی استعمال کرتے ہیں۔ پاکستان کے پاس اتنے وسائل نہیں کہ ہم اپنی فوج کو دستیاب ٹیکنالوجی کی جگہ‘ نئی ٹیکنالوجی مہیا کر دیں۔ جیسے کہ بھارت اپنی افواج کو روسی ٹیکنالوجی کے ساتھ ساتھ مغرب کی ٹیکنالوجی بھی مہیا کر رہا ہے۔حالات نے پینٹاگون اور پاک فوج دونوں کو باہمی انحصار کی چوائس دے دی ہے۔ امریکی‘ افغانستان سے اپنی اور اتحادیوں کی افواج کا بڑا حصہ ضرور نکال رہے ہیں۔ لیکن وہ افغانستان کو نہیں چھوڑ رہے۔ کریمیا پر حملے کے بعد روس کے تیور اچھے نہیں لگتے۔اس بار افغانستان میں روس اور بھارت کے حامی بھی کافی زور پکڑ چکے ہیں اور یہ امکان پیدا ہو گیا ہے کہ اگر اس بار روس نے طالبان کے خلاف افغان حکومت کی مدد کے لئے فوج بھیجی‘ تواسے ناکامی کا زیادہ اندیشہ نہیں ہو گا۔ افغانستان کے اردگر صرف ایک ہی فوج ایسی ہے‘ جو وہاں پر کسی بیرونی مداخلت کی مزاحمت کر سکتی ہے۔
پاکستان کے اندرمذہبی سیاستدانوں اور دہشت گردوں کی طاقت میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ امریکی فوجوں کے انخلا کے بعد‘ افغان اور پاکستانی طالبان کے مابین جنگی تعاون کے آثار نمایاں ہیں۔ عام خیال یہی ہے کہ وہ ملا عمر کی قیادت میں سرحد کے دونوں طرف ٹھکانے بنا کر افغان حکومت اور پاک فوج کے خلاف کارروائیاں کریں گے۔ ان کا مقابلہ کرنے کے لئے ہماری فوج کو مزید اسلحہ اور دہشت گردی سے نمٹنے کے لئے جدیدٹیکنالوجی کی شدید ضرورت ہو گی۔ اس وقت طالبان کافی طاقتور ہو چکے ہیں۔ ان کے ہتھیار اور جنگی تکنیک کافی موثر ہو گئی ہے اور انہیں بیرونی طاقتوں کی مدد بھی حاصل ہے۔ خطے میں امریکہ اور پاکستان کے مفادات ہم آہنگ ہوتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔ قوموںکے مابین تعاون اور عدم تعاون کے فیصلے ‘ باہمی مفادات کے تصادم یا ہم آہنگی کی بنیادوں پر ہوتے ہیں۔ پاک فوج کی سابق قیادت کے دور میں امریکہ اور ہمارے مفادات میںٹکرائو پیدا ہو گیا تھا۔ اب وہ ٹکرائو ختم ہونے لگا ہے۔ دہشت گردوں کے خلاف ہمارے مفادات میں ہم آہنگی پیدا ہونے لگی ہے۔ اس معاملے میں سعودی عرب سمیت تمام عرب ممالک‘ پاکستان کی طرف دیکھ رہے ہیں کہ ہم دہشت گردوں کے ساتھ کس طرح نمٹ رہے ہیں؟ امریکہ اور سعودی عرب میں بعض پالیسیوں کے سوال پر جو اختلاف نظر آ رہا ہے‘ ماہرین کے مطابق اس میں کمی ہوتی جائے گی۔ امریکہ اور پاکستان دو ملک ایسے ہیں‘ جو سعودی عرب کے دفاعی نظام کے اندر ٹھوس موجودگی رکھتے ہیں۔ سعودی عرب‘ پاکستان کے ساتھ تعلقات میں ہمہ جہت اضافے کی طرف جو پیش قدمی کر رہا ہے‘ امریکہ اسے اچھی نظر سے دیکھے گا۔ کسی بھی پہلو سے دیکھیں‘ آنے والے دنوں میں امریکی دلچسپی‘ ماضی کی طرح ایک بار پھر پاکستان کی فوجی صلاحیت میں ہو گی۔ اس نئی دلچسپی کا عملی اظہار ابھی شروع نہیں ہوا۔ مگر وقت آنے پر امریکہ کو اگر ٹوٹی پھوٹی جمہوریت اور منظم فوج میں سے ایک کا انتخاب کرنا پڑا‘ تو وہ مصر کو دہرانے سے گریز نہیں کرے گا۔ مناسب یہی ہے کہ فوج اور منتخب حکومت‘ ایک ورق کو چھوڑ کر‘ ایک صفحے پر آ جائیں۔ اس وقت یہ دونوں ایک ورق پر ضرور ہیں۔لیکن الگ الگ صفحات پر۔پرویزمشرف اور اس کے نقش قدم پر چلنے والوں کے لئے اتنا سبق ہی کافی ہے۔ وقت آ گیا ہے کہ پاکستان کے ادارے تصادم کی روایت چھوڑتے ہوئے‘ اس دائرہ کار کے اندر ہم آہنگی سے رہنے کے طریقے سیکھ لیں‘جو جمہوریت فراہم کرتی ہے۔جس نظام میں حالات کے رخ کا انحصار دولیڈروں کی ملاقات پر ہو‘ اس میں استحکام ڈھونڈنا اندھیرے میں سوئی ڈھونڈنے کے مترادف ہے۔