تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     17-04-2014

معذرت

سویر اب زیادہ تازگی سے طلوع ہوتی ہے اور شام کبھی کہانی بھی کہتی ہے ۔ اس عجیب آدمی ضمیر جعفری نے یہ کہا تھا: 
یوں شام و سحر کے پردے سے امیدجھلکتی رہتی ہے 
جیسے کسی سلمیٰ کا آنچل اٹھتا جائے، گرتا جائے 
بریگیڈیئر سلطان مرحوم سے پوچھا: آپ کو کیا پڑی تھی کہ اوّل 1977ء کے الیکشن میں دھاندلی پہ احتجاج کیا ، پھر مارشل لا کے نفاذ پر۔ سیاست سے نہیں ، آپ کا تعلق مسلّح افواج سے تھا، کسی بریفنگ میں اظہارِ خیال پہ اکتفا کی ہوتی۔ یحییٰ خان کے عہد میں بنگالیوں اور بھٹو دور میں بلوچ نوجوانوں کے ساتھ تصادم سے گریز میں وہ کامیاب رہے تھے لیکن اب ان کی نائو ساحل پر ڈوب گئی ۔ 
صداقت شعار سپاہی کچھ دیر سوچتا رہا اور پھر یہ کہا : ہمارے فکر و خیال پر کہاں کہاں کی پرچھائیں پڑتی ہے ۔ ممکن ہے کہ مسلسل ریاضت نے مجھے تھکا دیا ہو اور شعوری طور پر اس کا ادراک نہ ہو ۔ 
میں اپنے آپ سے پوچھتا ہوں : ٹیلی ویژن سے یکا یک ایسی بیزاری کیوں ؟ ایک آدھ منٹ کے تبصرے کی بات دوسری ہے ، پروگرام میں شرکت کے تصور ہی سے ہول اٹھتا ہے ۔ کیا 21روز قبل آخری دن کے دو تکلیف دہ واقعات یا اس کے سوا بھی ؟ میرا خیال ہے کہ سوا ہی ۔ قاعدے کی بات تو یہ تھی کہ دنیا ٹی وی کے سوا کسی اور چینل کے پروگرام میں کبھی شریک ہی نہ ہوتا ۔ دوسرے اداروں میں بھی یہی سوال اٹھتا رہا مگر ہم خلاف ورزی کرتے رہے ۔ 
مگر اب نہیں۔ اس لیے بھی کہ مصروفیات بہت بڑھ 
گئیں۔ ٹی وی کے ایک پورے پروگرام کا مطلب ہے تقریباً تین گھنٹے۔ کوئی اخبار نویس الیکٹرانک میڈیا سے یکسر بے نیاز نہیں رہ سکتا ۔ میرا خیال یہ ہے کہ میں افراط و تفریط کا مرتکب ہوا۔ کچھ ضرورت ، کچھ مروّت ؛حتیٰ کہ تقریباً ہر شام اسی کی نذر ہونے لگی۔ نصف شب کو لوٹ کر آتا اور ایک ملال کے ساتھ میں کتاب پڑھنے یا ٹی وی دیکھنے لگتا۔ اذیت کا نقطۂ عروج وہ تھا جس دن آٹھ پروگراموں میں شرکت کی دعوت ملی۔ ایک میں شرکت کا مطلب تھا، باقی سب کو ناراض کیا جائے۔ اپنا حق وہ جتلاتے بھی بہت ہیں اور ہے بھی تو۔ آخر اس سے پہلے کتنے لوگ ہماری بات سنا کرتے ۔ شکر ادا کرنا چاہیے اور کرتے رہنا چاہیے۔ 
جناب کامران شفیع اور بعض بزرگ اخبار نویسوں کی رائے یہ تھی کہ صحافت ہمارے لیے ایک پیشہ ہے ۔ بلامعاوضہ یہ بوجھ کیوں اٹھایا جائے۔ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ الیکٹرانک میڈیا ابھی اس قابل نہیں کہ وہ ادائیگی کر سکے ۔ پھر یہ کہ سب کام پیسوں کے لیے نہیں کیے جاتے۔ 
بہت سی چیزیں روپے سے زیادہ اہم ہوتی ہیں ۔ اللہ کا شکر ادا نہیں کر سکتے کہ تنخواہ اچھی ہے بلکہ بہت اچھی ، مراعات اس کے سوا۔ ایک شرمندگی سی رہتی ہے کہ اس کا حق ادا نہیں کر سکتے ۔ اخبار نویسی جسے اختیار کرنی ہو ، جج جسے بننا ہو ، سپاہ میں جسے خدمت انجام دینی ہو، سادہ زندگی کواسے شعار کرنا چاہیے۔ اگر نہیں تو کاروبار کرے ۔ اللہ کے آخری رسولؐ کا فرمان یہ ہے : رزق کے دس میں سے نو حصے تجارت میں رکھے گئے۔ 
انسانی توانائی کی مگر ایک حد ہے ۔ حالاتِ حاضرہ کا موضوع وسیع بہت ہے ۔ تہہ در تہہ ایک گھنا جنگل ۔ راہ تلاش کرنے کے بعد بھی اطمینان کبھی نہیں ہوتا۔ عجیب مردہ ہے صاحب! شب گاڑ کر سوئو، سویر سامنے کھڑا ہوتاہے ۔ ہر روز ایک نیا مسئلہ۔ ہر مسئلے کی بے شمار جہات۔ کون انصاف کر سکتاہے ؟ کون کر سکتاہے ؟ 
دو برس پہلے احساس ہونے لگا کہ تکرار ہی تکرا ر ہے ۔ سیاسی شرکا کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ اپنی پارٹی پالیسیوں کے پابند ہیں۔ بعض تو بالکل ہی لیڈروں کے خوشامدی۔ اندھے اور جذباتی وکیل۔ خیر، وہ روش اب قدرے کم ہوئی کہ ادھر آپ نے اختلاف کیا ، ادھر آپ کو کانٹوںمیں گھسیٹا جانے لگا۔ نون لیگ کے ایک لیڈر نے تو حد ہی کر دی ۔ گالی گلوچ پہ اترآئے ۔ میری غلطی بھی اتنی ہی بڑی ہے ، صبر کیا ہوتا مگر نہ کر سکا۔ اب پلٹ کر دیکھتا ہوں تو حیرت ہوتی ہے کہ یہ صرف پیپلزپارٹی تھی ، مجموعی طور پر جس کا روّیہ قابلِ برداشت تھا۔ مذہبی لوگوں کے ساتھ تو بحث آپ کر ہی نہیں سکتے ورنہ آپ کی آنے والی سب نسلیں بھی جہنّمی۔ لسانی اور گروہی فرقہ پرست بھی کچھ کم نہیں ۔ دھمکیاں بھی ملتی رہیں؛ اگرچہ کم ہی پروا کی۔ 
نو برس ہوتے ہیں ، عارف نے ایک دعا تعلیم کی تھی ۔ پڑھو اور آزاد رہو۔ رفتہ رفتہ خوف کا خاتمہ ہی ہوگیا۔ کبھی کبھی تو حیرت ہونے لگتی۔آدمی کی افتادِ طبع ہی اس کی تقدیر ہے۔ بات ادھوری کیوں رہے ، لفظ چبائے کیوں جائیں؟ ادھر سیاست کا سارا کاروبار ہی شعبدہ بازی کا۔ ملک میں ایک سیاسی جماعت بھی نہیں، جو واقعی سیاسی جماعت ہو۔ جمہوریت؟ کون سی جمہوریت ؟ فوجی آمریت نہیں تو سول ۔ کیا اسے شہد لگا کر چاٹا جائے؟ مار شل لا تو مارشل لا ہے۔ آدمی پر لوہے کی حکمرانی۔ نام نہاد جمہوری حکومتوں میں بھی اقتدار ایک خاندان کے ہاتھ میں رہتا ہے۔ پولیس اس کی ، پٹوار اس کی ۔ سرکاری دفاتر میں راج اس کا ۔ اللہ کا شکر ہے ، کبھی کسی حکمران سے رعایت نہ مانگی۔ تنگ کرنے کی کوشش انہوںنے بہت کی مگر الحمد للہ کبھی پروا نہ کی۔ دو سیاسی پارٹیوں کے لیڈر میرے خاندان کا بہت سا روپیہ ہڑپ کر گئے ۔ بعد میں ان میں سے ایک روتا ہوا میرے پاس آیا۔ الحمد للہ کبھی کسی کالم، کسی پروگرام میں ان کا ذکر نہ کیا۔ ایک عہد ہے ، جو بیت گیا ہے اور ایک عہد سامنے ہے ۔ زندگی کا اگرچہ کیا بھروسہ مگر اب آرام بڑھانے کا ارادہ کیا ہے ۔ پوتے پوتیاں ، یارانِ عزیز اور اگر اللہ کو منظور ہوا تو ع 
فراغتے و کتابے و گوشۂِ چمنے 
دنیا ٹی وی کے پروگراموں میں شرکت سے انکار نہیں کیاجا سکتا۔ باقی دوستوں سے اب مودبانہ معذرت۔ چار مختلف ٹی وی میزبانوں سے ایک ایک بار شرکت کا وعدہ ہے، انشاء اللہ وہ نبھا دوں گا مگر فی الحال نہیں۔ اپنا فون نمبر میں نے تبدیل کرنے کا فیصلہ کیاہے۔ جسے رابطہ کرنا ہو، عزیزم بلال الرشید کو 0345-5422710پر پیغام بھیج دے ، فقط پیغام ہی۔ تھر، لیاری اور بلوچستان پر چالیس پچاس صفحے کے نوٹس رکھے ہیں اور ترتیب تک نہ دے سکا۔ کب تک ، آخر کب تک ؟ ایک ہفتہ قبل تھر میں پانی کی فراہمی پر ایک رپورٹ لکھنا تھی ۔ اب کہیں آغازِ کار ہوا ہے۔ اللہ کا کرم ہے کہ صحت اچھی ہے اور یادداشت بھی۔ ایسا ہرگز نہیں کہ ع 
دوستو ختم ہوئی دیدۂِ تر کی شبنم
معاملہ برعکس ہے ۔ تین ہفتے گزرنے کے بعد ، جس میں بعض مہربان دوستوں نے زندگی جہنم بنانے کی پوری کوشش کی، سویر اب زیادہ تازگی سے طلوع ہوتی ہے اور شام کبھی کہانی بھی کہتی ہے ۔ اس عجیب آدمی ضمیر جعفری نے یہ کہا تھا: 
یوں شام و سحر کے پردے سے امید جھلکتی رہتی ہے 
جیسے کسی سلمیٰ کا آنچل اٹھتا جائے، گرتا جائے 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved