تحریر : سعدیہ قریشی تاریخ اشاعت     17-04-2014

آنسوئوں سے بھیگی اوڑھنیاں

تھر میں بہار نہیں آئی۔ بہار ہر سال تھر سے دامن بچا کر گزر جاتی ہے۔ سبزہ‘ پھول‘ پھولوں پر اڑتی تتلیاں‘ تھر کے باسیوں کے لیے اجنبی ہیں۔ بہار کی ریگستانی ایسا نظارہ ہے ‘ جسے دیکھنے کو تھری کی آنکھیں ترس رہی ہیں۔ اس بستی کی قسمت میں خزاں ہی تحریر ہے۔ تھری بھی بس اپنی طرز کے جوگی ہیں‘ اپنی محرومیوں سے سمجھوتہ کرنے والے۔ اپنے حال میں مست ۔ روکھی سوکھی میسر آتی رہے تو زندگی سے شاکر اور راضی رہتے ہیں۔ ان کی سب سے بڑی خواہش اور دعا‘ بارش کی ہے۔ بارش سال میں ایک بار ہی ہو جائے تو تھر کی پیاسی زمین کو سیراب کر جاتی ہے۔ دھرتی کے خشک دامن میں مینہ پڑتے ہی خشک ہوتی ٹہنیوں‘ پیاسے درختوں‘ پیاس سے مردہ ہونے والی جھاڑیوں میں جان پڑ جاتی ہے۔ ان کے میلے خاکستری بدن سبز پیرہن اوڑھ لیتے ہیں۔ تھر کی دھرتی بھی سخی ہو کر سبزہ اگلنے لگتی ہے۔ تھر کے باسیوں کے لیے یہ سامان زندگی بخش ہے۔ ان کی ہر خوشی بارش سے جڑی ہے۔ بارش ہوگی تو ڈھور ڈنگروں کے لیے چارہ میسر آئے گا۔ بارش کے بعد ان کے ڈھور ڈنگر ہی ان کے دکھ سکھ کے ساتھی ہیں۔ انہی سے ان کی روزی روٹی کا سامان پیدا ہوتا ہے۔ وہ اپنے بچوں سے بڑھ کر اپنے ڈھور ڈنگروں سے پیار کرتے ہیں۔ تھر کی زمین پر اگر مینہ نہ پڑے تو‘ ایک تھری کا دل آنے والے دنوں کی سختی سے کانپ اٹھتا ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ سال میں ایک بار مینہ نہ برسنے سے‘ اس کی زندگی کی ساری بدبختی جڑی ہے۔ اب پیاسی زمین پر اُگی خود رو جھاڑیاں تک مرجھا جائیں گی۔ خشک ہوتے ہوئے ٹوبے پانی سے نہیں بھریں گے تو ڈھور ڈنگر پیاس اور بھوک سے مرنے لگیں گے۔ قدرت کا بڑا عجیب اصول ہے‘ کسی سرزمین پر قدرتی آفت آنے سے پہلے وہاں موجود جانوروں‘ پرندوں پر سختی آتی ہے۔ جیسے اس شعر میں بھی کہا گیا۔ ؎
یہ اک اشارہ ہے آفاتِ ناگہانی کا 
کسی جگہ سے پرندوں کا کوچ کر جانا 
ایسے ہی‘ قحط کے سخت دن آنے سے پہلے‘ تھریوں کے ڈھورڈنگر مرنے لگتے ہیں۔ اچھے بھلے ڈنگروں پر بیماری آن پڑتی ہے اور جانور دنوں میں جان دے دیتا ہے۔ بیمار جانور کا علاج کروانے کہاں جائیں کہ یہاں تو انسانوں کے لیے نہ شفاخانے ہیں نہ دوا‘ دارو...! اگر ہیں بھی تو ناکافی! 
تھر کے حالیہ قحط میں بھی ایسا ہی ہوا۔ انسانوں پر بھوک‘ بیماری اور موت کی اس ارزانی سے پہلے‘ قحط کی بدبختی کو تھریوں کے ڈھور ڈنگروں نے اپنے اوپر سہنا شروع کیا۔ پچھلے برس سے‘ جب سال کی ایک آدھ بارش بھی نہ ہوئی اور مون سون بھی گزر گیا تو تھر کے مویشی پانی اور چارے کی کمی سے بیمار رہنے لگے۔ اور رفتہ رفتہ گائیں‘ بھینسیں‘ بکریاں اور تو اور تھر کے حسین مور بھی موت سے نہ بچ سکے۔ بارش کی آواز پر رقص کرنے والا جانتا تھا کہ اب کڑا وقت ہے۔ یہ قناعت پسند‘ معصوم لوگ ہیں جو زندگی کی بنیادی ضرورتوں سے بھی محروم ہیں۔ چلیں یہ خود تو سرکار کو آنے والے قحط کی خبر نہ دے سکے تو کیا سرکار کی ذمہ داری نہ تھی۔ آخر یہ لوگ بھی پاکستان کے شہری ہیں اور آئین پاکستان ان کے حقوق کا تحفظ بھی کرتا ہے۔ تھر میں قحط پڑنا نئی بات نہیں ۔ ہر برس یہ خطرہ موجود ہوتا ہے کہ اگر بارشیں نہ ہوئیں تو پھر تھر میں زندگی کا وجود ہی خطرے میں پڑ جائے گا۔ ایسے میں کسی حکومت نے آج تک تھریوں کی قسمت بدلنے کے لیے کچھ نہیں کیا۔ اس کے برعکس اسی صحرائے تھر کا جو حصہ بھارت میں موجود ہے وہاں ہمہ جہت قسم کے ترقیاتی 
منصوبے جاری ہیں۔ 2002ء میں جب راجستھان (سابق راجپوتانہ) میں تاریخ کا بدترین قحط پڑا تو سرکار نے اس نہج پر سوچنا شروع کردیا کہ قدرت کے کاموں میں انسان دخل نہیں دے سکتا لیکن انسان اپنے حالات کو بہتر کرنے کی کوشش تو کر سکتا ہے۔ ڈیزرٹ ڈیویلپمنٹ پروگرام کے تحت راجستھان میں سرکاری اور غیر سرکاری تنظیموں کے تعاون سے صحرائی لوگوں کے معیارِ زندگی کو بہتر بنانے کے لیے کئی اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ مثلاً ستلج سے اندرا گاندھی نہر‘ راجستھان کے صحرا کو سیراب کرنے کے لیے نکالی گئی۔ صرف اس ایک پراجیکٹ نے وہاں کی زندگیوں میں انقلاب برپا کردیا۔ راجستھانی لوگوں میں تعلیم عام کرنے کے منصوبے اب عملی صورت میں وہاں کام کر رہے ہیں۔ مویشیوں اور کھیتوں کے لیے مصنوعی آبپاشی کا بندوبست کیا گیا ہے۔ صحرائی لوگوں کو نئے ہنر سکھائے جا رہے ہیں تاکہ وہ روزگار کے لیے دوسرے ذرائع پر بھی انحصار کر سکیں۔ صحرا کے پسماندہ ماحول کو بہتری سے آشنا کرنے کے لیے‘ سماجی تبدیلی کے ہمہ جہت پروگرام پر عمل ہو رہا ہے۔ 
فوڈ اینڈ فوڈر (Food & Fodder )کے نام سے ایک پروگرام صرف مویشیوں کے چارے کے حوالے سے کام کر رہا ہے کیونکہ چارے کی عدم دستیابی سے مویشی مرنے لگتے ہیں۔ ان کے دودھ اور گوشت پر انحصار کرنے والے افراد بھی غذا کی کمی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ 
چاند پر پہنچنے کی خبر بھی اب گلوبل ویلیج کے تصور کی طرح پرانی ہو چکی ہے۔ اب تو بہت آگے بڑھ کر مریخ پر زندگی کے آثار تلاش کیے جا رہے ہیں۔ عین ممکن ہے کہ مستقبل میں مریخ پر انسان بسنے لگیں گے۔ ترقی اور انسانی پیش رفت کے اس دور میں تھر کے معصوم باسیوں کے ساتھ حکومت کی مجرمانہ غفلت‘ ان کی بنیادی ضرورتوں سے پہلو تہی کھلا ظلم ہے۔ حکومت کی غفلت سے سینکڑوں جانیں موت کے منہ میں چلی گئیں۔ اس وقت جب جشن بہاراں کے میلے سجائے جا رہے ہیں۔ کہیں کلچر فیسٹیول کا انعقاد ہے تو کہیں فوڈ فیسٹیول کی دھوم ہے۔ ایسے میں بارش کی آواز پر رقص کرنے والے تھری بھوک‘ بیماری اور قحط کے ہاتھوں اپنے آنگن اور گھر بار کو اجڑتا دیکھ رہے ہیں۔ تھر کی بے بس مائیں‘ اپنی رنگین اوڑھنیوں کے گھونگھٹ میں‘ اپنے مر جانے والے بچوں کی یاد میں آنسو بہا رہی ہیں اور جمہوریت کو بچانے کے لیے وزیراعظم سے سابق صدر زرداری اہم ملاقات کر رہے ہیں۔ ایسی ہنگامی اور اعلیٰ سطحی میٹنگ‘ تھر کے بے بس باسیوں کو قحط اور موت سے بچانے کے لیے کیوں نہیں ہوتی؟ اہلِ اختیار کو مائوں کی خالی گودیں اور آنسوئوں سے بھیگی اوڑھنیاں کیوں دکھائی نہیں دیتیں؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved