صبح سویرے انہوں نے لندن روانہ ہونا تھا۔ اب یہ تو ممکن نہ تھا کہ طالبِ علم اپنے استاد کو الوداع کہنے اکٹھے نہ ہوں۔ اسی موقعے سے فائدہ اٹھا کر انسان اور کائنات کے بارے میں ، میں نے اپنے سوالات کا جواب پانے کی کوشش کی اور بہت سی گرہیں کھلتی چلی گئیں ۔
حضرت علی ابن ابی طالب ؓ سے پوچھا گیا: آدمؑ سے پہلے کیا تھا؟ فرمایا : آدم۔ اس سے پہلے آدم اور اس سے قبل ستّر ہزار آدم۔ ستّر ہزار سے یہاں شاید ان گنت مراد ہے لیکن سوال یہ ہے کہ آدم علیہ السلام سے قبل یہ کون سے انسان تھے، جن کا حضرت علی ؓ نے ذکر کیا؟ اس موضوع پر بحث سے قبل میں کچھ حقائق آپ کے سامنے بیان کرنا چاہتا ہوں ۔
ہم نے کبھی کوئی ڈائنا سار نہیں دیکھا لیکن ان خوفناک اور عظیم الجثہ جانوروں کے ڈھانچے اور فوسل مکمل صحت کے ساتھ موجود ہیں ۔ان کا وجود جھٹلایا نہیںجا سکتا۔ ساڑھے چھ کروڑ سال پہلے میکسیکو کے علاقے چک زولب میں خلا سے دس مربع کلومیٹر کی ایک چٹان آکر گری تھی ۔ اس سے جو گڑھا نمودار ہوا، اس کا قطر 180اور گہرا ئی 10 کلومیٹر تھی۔ یہ کرّۂ ارض کے بڑے مصدقہ حادثات میں سے ایک ہے ۔ فوسلز کا ریکارڈ ثابت کرتا ہے کہ تقریباً اسی دور میں بڑے پیمانے پر
جانداروں کی نسلیں ناپید ہوئیں ، جن میں ڈائنا سار بھی شامل ہیں ۔ سائنسی دنیا اس بات پر تقریباً متفق ہے کہ اسی واقعے نے ان کی جان لی۔ اسی طرح میمتھ (Mammoth)کہلانے والی ہاتھی کی کئی بڑی نسلیں دس ہزار سال قبل تک موجود تھیں۔ مختلف حادثات نے (جن میں آب و ہوا کی تبدیلی زیادہ اہم سمجھی جاتی ہے ) ان کا خاتمہ کردیا۔ میمتھ کا وجود بھی شک و شبہے سے بالاتر ہے ۔
اب آئیے حضرت علیؓ کے قول کی روشنی میں ان بے شمار انسانوں کی طرف، جو آدمؑ سے پہلے اس زمین پر موجود تھے ۔ انتہائی دلچسپ بات یہ ہے کہ یورپ کے نی این ڈرتھل انسان (Neanderthal Man) کی باقیات بھی مکمل صحت کے ساتھ موجود ہیں ۔ یہ انسان قدّو قامت میں چھوٹا لیکن اس کا سر ہم سے بڑا تھا۔ سائنسی طور پر اسے ہومو سیپین نی اینڈرتھل (Homo Sapien Neanderthal) اور ہمیں ہومو سیپین سیپین (Homo Sapien Sapien)کہا جاتاہے ۔ پروفیسر احمد رفیق اختر ایک قرآنی آیت کا حوالہ
دیتے ہیں ، جو یہ کہتی ہے کہ ایک طویل عرصے تک انسان کوئی قابلِ ذکر شے ہی نہ تھا۔دوسری طرف فرشتوں کو علم کے میدان میں شکست دینے والے آدمؑ تو نمایاں و ممتاز آدمی تھے۔ تو یہ ناقابلِ ذکر انسان کون ہے؟ ایک اور جگہ لکھا ہے کہ انسان کو آزمانے کا فیصلہ ہوا تو اسے سننے اور دیکھنے کی صلاحیتیں عطا کی گئیں ۔ ہمیں یہ معلوم ہے کہ آدم علیہ السلام ان صلاحیتوں سے بہرہ ور تھے۔ اس کا مطلب ہے کہ معاملہ اتنا سادہ نہیں ، جتنا کہ عام طور پر سمجھا جاتاہے۔ ان سوالات کا جواب کسی مسلمان مفکر کے پاس نہ تھا ؛لہٰذا عافیت اسی میں سمجھی گئی کہ کسی بھی قسم کے ارتقا کا (بالخصوص انسان کے معاملے میں) مکمل طورپر انکار کر دیا جائے ۔
میرا خیال یہ تھاکہ امیر المومنین حضرت علیؓ نے آدمؑ سے قبل کے جن انسانوں کا ذکر کیا ہے ، وہ یورپ کا وہی نی اینڈرتھل انسان ہے ، بقا کی ساری صلاحیتوں کے باوجود جس کا ناپید ہونا سمجھ میں نہیں آتا۔میں یہ سمجھتا تھا کہ آدم علیہ السلام شاید پہلے ہومو سیپین تھے ۔محترم استاد کے سامنے میں نے یہ سوال اٹھائے ۔ جو کچھ انہوں نے بتایا، اس کا خلاصہ میں بیان کیے دیتا ہوں: سائنس تصدیق کرتی ہے کہ ستّر ہزار سال پہلے انسان میں وہ جین پیدا ہوا، جو اسے بولنے کی صلاحیت عطا کرتاہے ۔ اس سے قبل دوسرے جانوروں کی طرح وہ گنی چنی آوازیں نکالنے ہی کے قابل تھا۔ عقل بھی اس کی محدود تھی۔ "The Story of Civilization"کا مصنف، عظیم مورخ ول ڈیورانٹ اور ابنِ عربی دونوں متفق ہیں کہ چالیس ہزار سال قبل کوئی حادثہ پیش آیا(اس موقعے پر انسان کے طرزِ زندگی اور اس کے علم وہنر میں یکدم اضافہ ہوتاہے )۔آسمان سے شاید انسانی دماغ پر برق نازل ہوئی۔ اس کی عقل بڑھنے لگی اور وہ ممتاز ہوگیا۔ اصل میں یہ وہی لمحہ تھا، جب ہمارے جدّامجد آدمؑ اور حوّاؑ کو زمین پر اتارا گیا۔ انہیں انسانی بدن میں قید کر دیا گیا۔آدمی کی ذہانت میں اضافہ ہوا اور وہ پہلا جواب دہ انسان بنا۔ آئندہ نسلوں کو اب دیکھے بغیر، عقل کی مدد سے کائنات میں بکھری نشانیوں سے خدا کا سراغ لگانا اور پھر اس کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق زندگی گزارنے کے امتحان سے گزرنا تھا۔ بعض لوگ جب حیران اور معترض ہوتے ہیں تو پروفیسر صاحب کہتے ہیں کہ یہ عمل تو آج بھی دہرایا جارہا ہے ۔ رحمِ مادر میں بچے کا جسم ایک لوتھڑے کے سوا کچھ نہیں ہوتا؛حتیٰ کہ تین ماہ بعد اس میں روح پھونکی جاتی ہے اوروہ ایک زندہ آدمی میں بدل جاتاہے ۔ یہ بھی بتایا کہ اس بات کے کافی شواہد موجود ہیں کہ ہو مو سیپین نی اینڈرتھل آدم خور تھااور یہی اس کے ناپید ہونے کا سبب بنا۔
قارئین ، طالبِ علم سوال پہ سوال اٹھاتے رہے۔ مثلاً یہ کہ برمودا ٹرائی اینگل کا قصہ کیا ہے ؟حسبِ معمول پروفیسر صاحب بشاشت سے جواب دیتے رہے ۔ پیشانی پہ شکن اور نہ کسی سوال سے پہلو تہی۔ جواب قرآن و حدیث کی روشنی میں لیکن جدید سائنسی تحقیق کا حوالہ بھی۔ میرا سوال یہ تھا کہ سات آسمانوں سے مراد کیا ہے ؟سائنسی حلقے اب کئی متوازی کائناتوں کا ذکرکرتے ہیں ۔یہ سب انشاء اللہ پھر کبھی۔