حجاب! علم ہی حجابِ اکبر ہے۔ کبھی نہ کبھی ہم سب اس کا شکار ہوتے ہیں ۔ تحریکِ پاکستان کے مخالفین سے تو کیا امید کہ وہ اس ملک اور قائداعظم سے بغض رکھتے ہیں مگر جماعتِ اسلامی؟ مگر تحریکِ انصاف ؟جگر خون ہو جاتا ہے !
کیا ایک ملک میں دو افواج ہو سکتی ہیں ؟ کیا ریاست کے اندر ریاست کا وجود ممکن ہے ؟کیا تاریخ میں کبھی ایک بار بھی ایسا ہوا ہے؟ طالبان کا مطالبہ یہ ہے کہ انہیں ایک عدد پُر امن علاقہ مہیا کیا جا ئے ۔ دوسرے الفاظ میں یہ کہ وہاں پر ان کا اقتدارقبول کر لیا جائے، جہاں فوج کو داخل ہونے کی اجازت نہ ہو ۔ خطرناک دہشت گردوں کی سزائے موت پر عمل درآمد پہلے ہی سے بند ہے لیکن ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے ، ان کے قیدیوں کو اب مہمان سمجھا جائے ۔کراچی سے کوئٹہ اور لاہور سے پشاور تک، جہاں کہیں ان کے لوگ تیاریوں میں لگے ہیں ، ان سے تعرض نہ کیا جائے ۔ اس لیے کہ ان کا تعلق حکومت کے ساتھ بات چیت کرنے والے برابر کے ایک گروہ سے ہے ۔ برابر نہیں ، بالاتر کہ ''معمولی تلخی ـ‘‘پر ایک دوسرے کے چالیس افراد کو قتل کرنے کے باوجود وہ شریعت کے امین ہیں اور دوسرے گم کردہ راہ۔
پروفیسر ابراہیم اب طالبان کمیٹی کے سب سے نمایاں ترجمان ہیں ۔ ان کا ارشاد یہ ہے کہ طالبان اپنا جھنڈا نصب نہ کریں گے ۔ میڈیا اس باب میں غلط فہمیاں پھیلانے کا مرتکب ہے۔ بجا ارشاد، اس طرح کے ماحول میں مبالغہ آرائی ہوتی ہے اور گاہے غلط بیانی بھی ۔ ہرگز طالبان اپنا علم لہرانے کے آرزومند نہ ہوں گے مگر یہ تو سبھی جانتے ہیں کہ اس خطے کو ، جہاں وہ دندناتے پھرتے ہیں ، وہ ''امارات ِ اسلامی خراسان ‘‘کہتے ہیں ۔ پروفیسر صاحب کا کہنا یہ بھی ہے کہ بلوچ انتہا پسندوں سے تو بات چیت ہے ، جو پاکستانی جھنڈے کو اتار پھینکتے ہیں ، طالبان سے مختلف سلوک کیوں ؟یہی تو مسئلہ ہے ، یہی تو مسئلہ۔مطالبہ یہ نہیں کہ قانون سب پہ نافذ کیا جائے بلکہ یہ کہ ایک سے چشم پوشی ہے تو دوسرے سے بھی ہونی چاہیے ۔ برا ہو دھڑے بندی کی نفسیات کا ، اپنے حامیوں کے لیے ہمیشہ ہمیں دلیل سوجھتی ہے اور جس سے اختلاف ہو ، اس کی بہترین دلیل بھی ناقص۔
میاں محمد نواز شریف نے مذاکرات کا فیصلہ کیا تو فعال طبقات اور مسلّح افواج کی طرف سے تحفظات کے باوجود تمام سیاسی جماعتوں نے تائید کا فیصلہ کیا ۔ بار بار اس وقت یہ عرض کیا کہ ریاست چالبازی اورخیانت کی متحمل نہیں ہو سکتی ۔ بات چیت کرنی ہے تو خلوصِ دل سے کی جائے ۔ وہ نہ ہو کہ نانی نے خصم کیا ، براکیا۔ کر کے چھوڑ دیا ، اور بھی برا کیا۔
مذاکرات کو سبوتاژ کس نے کیا ؟ اس سے بھی پہلے سوال یہ ہے کہ آغازِ کار ہی سے ، جب بات چیت کی ابتدا بھی نہ ہوئی تھی ، جنرل ثنا ء اللہ نیازی کو کس نے قتل کیا؟ پشاور کے چرچ میں بے گناہوں کے خون سے ہولی کس نے کھیلی؟ مذاکرات آگے بڑھتے دکھائی دیے تو 23فوجیوں کے گلے کس نے کاٹے ؟ ملک بھر میں تخریب کاری کی وارداتیں کس نے جاری رکھیں ؟ ان کی دشمنی تو انکل سام اور اس کی حلیف حکومت سے ہے ۔ مساجد، مارکیٹوں اور مزارات میں انسانوں کے چیتھڑے وہ کیوں اڑاتے رہے ؟ اس انداز کے سوچنے والوں سے مکالمے کی کامیابی کاکتنا امکان ہو سکتاہے ؟ ابھی چند روز قبل ہی خیبر ایجنسی سے انہوں نے 100سے زائد افراد اغوا کر لیے اور جوابی کارروائی پر پسپائی اختیار کی۔ حضرت مولانا سمیع الحق اور پروفیسر ابراہیم کو اگر اللہ توفیق دے تو اس پر بھی غور کریں کہ جن لوگوں کی سرے سے کوئی اخلاقیات نہ ہو ، جنہوں نے جنگ کے لیے حضور اکرمؐ کے طے کردہ تمام بنیادی اصولوں کو پاما ل کیا ہو ، ان سے امید استوارکرنے کا جوازکتنا ہے ؟ پروفیسر صاحب یہ فرمائیں کہ کیا طالبان کے حکم پہ آئین بدل دیا جائے ؟ ہو سکے تو اس پر غور فرمائیں کہ ان کے ذرائع آمدن کیا ہیں ؟ کیا یہ بات درست نہیں کہ اغوا برائے تاوان ، بھتہ خوری ، منشیات اور غیر ملکی امداد؟ دوسروں کے کہنے پر نہ جائیں ، خود تحقیق فرمائیں ۔ صادق اور امین لوگوں کی ایک کمیٹی جماعتِ اسلامی بنا دے اور ایک تحریکِ انصاف جسٹس وجیہ الدین ، عمر اسد اور جاوید ہاشمی پر مشتمل ۔ اگر پسند کریں تو ان کمیٹیوں کے دفاتر میں قرآنِ کریم کی آیتِ کریمہ آویزاں کر دی جائے ''کسی گروہ کی دشمنی تمہیں زیادتی پر آمادہ نہ کرے ۔ انصاف کرو کہ یہی تقویٰ ہے ‘‘
کبھی نہیں کریں گے ، کبھی نہیں ۔ ذاتی زندگی میں سیّد منور حسن صاف ستھرے ہیں مگر اختلافی نقطۂ نظر سننے کے لیے کبھی تیار ہوتے اورنہ اپنی رائے پہ نظرِثانی کرنے کا کوئی تصور ۔ایک ذرا سے شبہے پر دوسروں کو امریکی ایجنٹ قرار دے دیا کرتے ۔ حکیم اللہ محسود ان کے نزدیک شہید تھا اور پاکستانی فوج مقتول ۔ جنابِ سراج الحق سے امید تھی کہ وہ نظرِ ثانی کریں گے ۔ کم از کم ایک وسیع تر مکالمہ ہی۔ ان کا سارا زورکرپشن پہ ہے ۔ یہ تو بجا اور بالکل بجا ۔ اس ارشاد کا مفہوم مگرکیا ہے کہ کرپشن دہشت گردی کے برابر ہے ۔ کیا اللہ کی کتاب میں یہی لکھا ہے ؟ کیا اللہ کے آخری رسولؐ کے فرامین کا مفہوم یہی ہے ؟
مخمصہ ہے اور بہت بڑا مخمصہ ۔ مشکل ہے او ربہت بڑی مشکل ۔ 20کروڑ مسلمانوں کے محتاج اور منحصر ملک نے افغانستان پر اپنا فیصلہ استعماری دبائو میں صادر کیا۔ ایک بے رحم فوجی آمر نے ، جنرل شاہد عزیز کے بقول ، جسے حدیثِ رسولؐ کا مذاق اڑانے میں بھی تامّل نہ تھا۔ اس پالیسی کی حمایت کرنے والوں میں امریکہ نواز پارٹیاں پیش پیش ہیں اور وہ این جی اوز ، جن کے دستر خوان سمندر پار کی عنایات سے آباد ہیں ۔ یہی امتحان ہوتا ہے،یہی امتحان۔ تحریکِ پاکستان میں بھی یہی ہوا تھا۔ مذہبی لیڈروں کی اکثریت نے نئے وطن کی مخالفت کی تھی اور اس قدر کہ اعلیٰ اخلاقی اقدار پہ سختی
سے قائم قائداعظم ایسے شخص میں کوئی خوبی انہیں دکھائی نہ دیتی تھی ۔ وہ شخص ،عمر بھر جس نے کبھی جھوٹ نہ بولا، کبھی ایک ذرا سی خیانت اور نہ وعدہ شکنی ۔آج کوئی اقبالؔ موجود ہے اور نہ قائداعظم؛چنانچہ مغالطوں میں مبتلا ہونے کا امکان اور بھی زیادہ الّا یہ کہ کوئی تعصبات سے اوپر اٹھ کر سوچ سکے ۔ الّا یہ کہ کوئی قرآنِ کریم ا ور اسوۂ رسول ؐ کو رہنما کرنے کا تہیہ کرلے ۔ اقبالؔ کے انتقال سے چند روز قبل سیّد ابوالاعلیٰ مودودی ان سے ملے تو یہ کہا: میری درخواست یہ ہے کہ ''سر‘‘کا خطاب واپس کر دیجیے ۔ ابو الاعلیٰ سے انہیں حسنِ ظن تھا اور نگاہِ پدر سے انہیں دیکھتے تھے مگر صدمہ ہوا ۔ خاموش رہے ۔ غالباً یہ سوچتے ہوں گے کہ اس بہادر آدمی کو عملی زندگی کے تقاضوں کی کیا خبر۔ اسے کیا معلوم کہ میں کبھی اس خطاب کا آرزومند تھاہی نہیں ۔ 1947ء اور1948ء میں ترجمان القرآن کے اداریے پڑھیے ۔ حیرت ہوتی ہے کہ اس نادرِ روزگار محمد علی جناح ؒ کو سیّد صاحب ایک ذرا سی رعایت دینے پر کبھی آمادہ نہ ہوئے ؛اگرچہ یہ سفید جھوٹ ہے کہ تحریکِ پاکستان کی ا نہوں نے کبھی مخالفت کی۔ پھر یہ کہ بلاشبہ وہ ایک اجلے آدمی تھے۔1974ء میں لاہور کے بی این آر سینٹر میں ، میں نے سیّد صاحب کو کہتے سنا: کوئی ہوش مند قائد اعظمؒ کی امانت و دیانت پر شبہ نہیں کر سکتا ۔ امانت و دیانت ہی نہیں ، ان کی سیاسی بصیرت پر بھی۔
حجاب! علم ہی حجابِ اکبر ہے ۔ کبھی نہ کبھی ہم سب اس کا شکار ہوتے ہیں ۔ تحریکِ پاکستان کے مخالفین سے تو کیا امید کہ وہ اس ملک اور قائداعظم سے بغض رکھتے ہیں مگر جماعتِ اسلامی؟ مگر تحریکِ انصاف ؟جگر خون ہو جاتا ہے !