تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     18-04-2014

اقوام متحدہ کا چیف جسٹس اور کشمیر

اپنی جائیداد کے حصول کیلئے کسی نے دیوانی( سول عدالت) میں مقدمہ کرنا چاہا تو خاندان کے ایک بزرگ نے اسے پاس بٹھا کر کہا اگر تو تمہارے پاس قارون کا خزانہ، خضر کی عمر اور صبر ایوبؑ ہے تو تم اپنی جائیداد کے حصول کا یہ مقدمہ دیوانی عدالت میں دائر کر دو۔ وہ بزرگ شائد نہیں جانتے تھے کہ ایک بین الاقوامی ادارہ بھی پاکستان کی دیوانی عدالتوں کی طرح کا ہے‘ جسے اقوام متحدہ کہا جاتا ہے، جہاں کشمیر اور کشمیریوں کی زندگی اور موت کا مسئلہ 50سال تک لٹکا رہا اور جب اس مسئلہ کے ساتھ لٹکنے والے کشمیری تنگ آ کر اپنے ہاتھ پائوں مارنے لگے تو پھر انہیں کہا جانے لگا کہ چلوچھوڑو، ان پرانی باتوں کو‘ اب کشمیر پر نئے رویوں کی ضرورت ہے ۔ یاد رکھو کہ نئے رویوںکی روشنی میں بات چیت ہوتی ہے لڑائی جھگڑا یا چیخنا چلانا نہیں۔ آپ کے اس طرح رونے، چیخنے سے دنیا کا سکون خراب ہو رہا ہے۔دنیاوی خدائوں کے کہنے پر ہونے والی بات چیت کو جب 15 سال گزر گئے اور تنگ آکر کشمیر کی نئی نسل کے دس سے پندرہ سال کے بچوں نے اپنی گردنوں کے گرد لپٹا ہوا غلامی کا طوق اپنے خون سے ڈھیلا کرنا شروع کر دیا تو کہا جانے لگا بیوقوف لوگو! آپس میں تجارت کرو، ثقافتی میلے کرائو‘واہگہ بارڈر پر لڈیاں ڈالو ۔یہ کھیل تماشے کرتے مزید چند سال گزر گئے اور کشمیر کی قسمت کا فیصلہ کرنے والی بات ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھی کیونکہ اقوام متحدہ کے ''چیف جسٹس‘‘ نے دنیا کے اس اہم ترین 
مسئلہ کو '' کاز لسٹ‘‘ سے نکال کر ایک بار پھرپاک بھارت ''مربوط مذاکرات‘‘ کی طرف بھیج دیا اور مربوط مذاکرات کا یہ طویل اور صبر آزما سلسلہ ہے کہ ختم ہونے میں ہی نہیں آ رہا ۔پندرہ سال قبل اقوام متحدہ کے'' چیف جسٹس‘‘ کی ہدایت پر پاکستان نے جو سب سے بڑی غلطی کی وہ کشمیر پر اقوام متحدہ کی قراردادوں کو نظر انداز کر دینا تھا ۔ کشمیر پر اقوام متحدہ کی قراردادوں سے لاتعلقی، بلاشبہ بھارت کو دی جانے والی بہت بڑی رعائت تھی، جس کی قیمت کشمیر کی ہر ماں اور ہر بیٹی آج بھگت رہی ہے۔ اور اب تو یہ سوچ کر ہی کپکپی طاری ہو جاتی ہے کہ جب اقوام متحدہ کی قرار دادوں کو پھلانگ کر آپ باہر آ کر کھڑے ہو جائیں تو آپ کے پاس اس تنازع کی راکھ سمیٹنے کے سوا اور کیا رہ جاتا ہے۔ مقبوضہ کشمیر کی بیٹیوں کے مستقبل سے کھیلتے ہوئے جس نے بھی ان قرار دادوں کو پھلانگا ہے وہ چہرے ہمارے سامنے ہیں۔اب کوئی شک نہیں رہا کہ کشمیر سے متعلق بھارتی ڈپلومیسی کا تمام تر مقصد یہ ہے کہ اس مسئلہ کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے سرد خانے کی نذر کر دیا جائے ۔ بھارت کشمیر پر اپنا دعویٰ مضبوط کرنے کے لیے مقبوضہ وادی میں معین وقفوں سے ہونے والے انتخابات کو بنیاد بناتا ہے اور سات 
لاکھ سے زائد بھارتی فوج اور دو لاکھ پیرا ملٹری فورسز کی سنگینوں کے سائے میں ہونے والے ان انتخابات کے نتائج کو کشمیری عوام کے فیصلے سے تعبیر کر کے عالمی رائے عامہ کو گمراہ کرنے کی مکروہ کوشش کرتا ہے۔ حالانکہ سب جانتے ہیں کہ کشمیریوں کی تمام نمائندہ جماعتوں پر مشتمل آل پارٹیز کانفرنس نے کبھی بھی ان انتخابات میں حصہ نہیں لیا۔ جہاں تک سیا چن ، سرکریک اور پاکستانی پانیوں کا مسئلہ ہے بھارت اپنی ہٹ دھرمی پر اسی طرح قائم ہے۔ پاکستان کے ساتھ کھلے دل سے دوستانہ تعلقات جاننے کیلئے کشمیر تو بہت دور کی بات ہے سیاچن اور سر کریک پر بھارتی نیت سب کے سامنے ہے۔ اسلام آباد سے لاہور پہنچنے پر بھارتی وزیر خارجہ نے ایک سوال کے جواب میں کہا تھا کہ ابھی تو ابتدا ہے (67 سال کے تکلیف دہ اور صبر آزما مذاکرات بھارت کی نظر میں ابھی ابتدا ہیں) ایک ملاقات سے مسائل حل نہیں ہوتے۔چند دن پہلے بھارت کے ایک سابق مرکزی وزیر کا انٹرویو سب کے سامنے ہے کہ2005ء میں من موہن سنگھ سیا چن پر معاہدے کیلئے تیار ہو گئے تھے لیکن بھارتی فوج نے ایسا کرنے سے منع کر دیا تھا۔ اس کے بعد مئی2007ء میں من موہن سنگھ اسلام آباد میں سیاچن کے تصفیہ کا اعلان کرنے کیلئے آ رہے تھے لیکن اس وقت کے بھارتی آرمی چیف جنرل جے جے سنگھ نے آگے بڑھ کر اعلان کر دیا کہ پاکستان میں اس وقت ''عدلیہ کی آزادی‘‘ کی تحریک چلنے سے جنرل مشرف حکومت کے لیے غیر یقینی کی سی کیفیت پیدا ہو چکی ہے‘ اس لئے پاکستان کے ساتھ سیا چن پر کوئی بات نہیں کی جائے گی۔ انہیں شائد کسی نے بتایا نہیںکہ 17 دسمبر1985ء کو نئی دہلی میں جنرل ضیا الحق اور راجیو گاندھی کے درمیان تفصیلی بات چیت ہوئی تھی۔ اس کے بعد ڈیفنس سیکرٹری کی سطح کے پانچ اجلاس ہوئے اور آخر کار17 جون1989ء کو اسلام آباد میںبے نظیر بھٹو اور راجیو گاندھی کے درمیان ایک اجلاس کے بعد مشترکہ اعلامیہ جاری ہوا جس میں دونوں ملکوں کی باہمی رضامندی سے لکھا گیا تھا ''سیاچن میں دونوں ملکوں کی فوجوںکی تعیناتی کی حد بندی اور وہاں کسی بھی قسم کی نامناسب صورت حال سے بچنے اور زمینی حدود کی نشاندہی کیلئے شملہ معاہدے کے تحت سیاچن کا مسئلہ حل کیا جائے گا‘‘ ۔ بعد میں بھارت یہ کہہ کر مکر گیا کہ پاکستان پہلے سیاچن سے ان مقامات کا تعین کرے جہاں سے وہ فوری طور پر بھارتی فوجوں کا انخلا چاہتا ہے۔ بعد میں امریکی دبائو پر وہ پھر بات چیت پر آمادہ تو ہو گیا لیکن نیت کا کھوٹ ہر وقت سامنے آتا رہا کیونکہ وہ جانتا ہے کہ سیا چن کے ساتھ پانی کا مسئلہ بھی حل ہو جائے گا۔اس صورت میں کشمیر پر کسی تصفیے کا سوچا جانا ایک خواب کے سوا کچھ نہیں۔ بھارت اپنے ایجنڈے پر کام کر رہا ہے جس میں بلوچستان میں مسلح مداخلت، فاٹا میں اپنی فورسز کو پھیلانا‘ سندھ میں تخریب کاری کے ذریعے پاکستانی معیشت کو تباہ کرنا اور اپنے مخصوص میڈیا ایجنٹوں کے ذریعے پاکستانی فوج کے مورال کو تباہ کرنا۔بھارت اس موقع سے بھر پور فائدہ اٹھا رہا ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اس وقت پاکستانی حکومت نفسیاتی طور پر پسپائی کے مرحلے سے گزر رہی ہے جس کی نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ بھارت کی شہ پر کٹھ پتلی افغان حکومت کو نہ صرف پاکستانی فوجیوں کو قتل کرنے کی جرأت ہوتی جا رہی ہے بلکہ الٹا پاکستان کو بین الاقوامی برادری میں بدنام کرنے کیلئے اس پر الزام تراشیوں کا سلسلہ اس کے منہ پر بھی شروع کر دیا گیا ہے۔ بھارتی کہتے ہیں کہ اس خطے میں پاکستان '' تھور کا پودا‘‘ ہے جو بھارت کی مرضی کے خلاف اُگا یا گیا ہے۔ ہماری دفاعی قوتوں کو یہ حقیقت سامنے رکھ کر اپنی حکمت عملی تیار کرتے رہنا ہو گی !

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved