تحریر : عرفان حسین تاریخ اشاعت     19-04-2014

اخلاقی الجھنیں اور دہشت گردی

حال ہی میں میرے ایک قاری نے مجھ پر غیر مستقل مزاجی کا الزام عائد کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اگرچہ میں بہت زور و شور سے انسانی حقوق کی وکالت کرتا ہوں لیکن میں نے دہشت گردوںکے خلاف بنائے گئے قوانین کی حمایت کی۔ اس کے علاوہ میں ان کے خلاف سخت ایکشن لینے کی بھی بات کرتا ہوں۔ وہ صاحب اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہتے ہیں۔۔۔ اور ان کی بات بڑی حد تک درست ہے۔۔۔کہ ان انتہا پسندوںکو شکست دینے کے لیے ریاست کو ان کی سطح تک نہیں گر جانا چاہیے۔ میں اس بات سے اتفاق کرتا ہوں کہ مجرموںکے ان گروہوں اور ان سے نمٹنے والی ریاست کے درمیان اصول و ضوابط ایک جیسے نہیں ہو سکتے اور نہ ہی ان کے پاس اپنی بات منوانے کے لیے اپنایا جانے والا طریق کار ایک جیسا ہو سکتا ہے۔ 
جب ہم ان عمومی معروضات کو پاکستان کے مخصوص حالات کے بالمقابل رکھ کر دیکھتے ہیں تو یہاں ہماری جنگ ایک ایسے جنونی دشمن کے ساتھ ہے جسے جنیوا کنونشن کا کوئی لحاظ نہیں۔ اس نے پاکستان کے عوام اور اس کے اداروں کے ساتھ انتہائی وحشیانہ سلوک روا رکھا ہے، جیسا کہ قیدیوں کو ذبح کرنا۔ اس پر ہمارا رد عمل کیا ہونا چاہیے؟ اس پر ہمارے ملک میں مختلف آراء پائی جاتی ہیں۔ ایک یہ ہے کہ کیا ہمیں انسانیت کے ان دشمنوںکو انہی کی زبان میں جواب نہیں دینا چاہیے؟ کسی حد تک دیگر مہذب ممالک، جو قانون اور انسانی حقوق کی پاسداری میں ہم سے بہت آگے ہیں، نے سخت اقدامات کیے۔ نائن الیون کے بعد خاص طور پر امریکی اور مغربی ممالک میں دہشت گردی کے خلاف سخت قوانین بنائے گئے اور انسداد دہشت گردی کے لیے بنائی گئی فورسز کو بے رحمی سے استعمال کیا گیا۔ اگرچہ اس عمل کے دوران انسانی حقوق کی پامالی بھی دیکھنے میں آئی لیکن انہوں نے انتہا پسندی کا کامیابی سے سدّ باب کیا۔ 
بات یہ ہے کہ مغرب کے سامنے انتہاپسندی کی جو شکل تھی، وہ مسلمان تارکینِ وطن کے حوالے سے تھی۔ کہا جا سکتا ہے کہ ''دوسروں‘‘ کے خلاف قوانین بنانا اور سختی سے لاگو کرنا بہت آسان ہے۔ اس کے علاوہ مسلمان تارکین وطن پر سختی کرنے کے عمل میں وہاں کی حکومتوں کو اپنے عوام کی حمایت بھی حاصل تھی۔ سری لنکا میں تامل باشندوںکو بڑی حد تک ''آئوٹ سائیڈرز‘‘ سمجھا جاتا ہے کیونکہ وہاں سنہالی باشندوں کی اکثریت ہے۔ اس لیے جب وہاں کی حکومت نے تامل ٹائیگرز کو کچلنے کے لیے وحشیانہ رویہ اپنایا تو اسے عوام کی طرف سے حمایت ملی تھی۔ 
پاکستان میں صورت حال ایسی نہیں۔ طالبان اور ان کی چھتری تلے کام کرنے والے بہت سے گروہوں کو ''بھٹکے ہوئے بھائی‘‘ سمجھا جاتا ہے حالانکہ وہ چالیس ہزار سے زائد پاکستانیوںکو ہلاک کر چکے ہیں۔ بہت سے پاکستانیوں نے سخت قوانین بنانے پر نواز شریف کی حمایت بھی کی۔ نوٹ کرنے کی اہم بات یہ ہے کہ بلوچ علیحدگی پسندوں کے خلاف کوئی بھی اقدام کرنے کی اجازت ہے، اُنہیں کوئی بھی ''بھٹکے ہوئے بھائی‘‘ قرار نہیں دیتا۔ ان کے خلاف کارروائی کرنے پر سول سوسائٹی اور میڈیا کی طرف سے کوئی احتجاج سامنے نہیں آتا۔ حقیقت یہ ہے کہ جب تک انتہا پسندی سے ہمیں براہِ راست خطرہ نہ ہو، ہم اسے اپنا مسئلہ نہیں سمجھتے۔ ہو سکتا ہے کہ ہم کسی حملے کے نتیجے میں ہونے والے جانی نقصان پر کچھ مذمت بھری آوازیں سنیں لیکن کچھ دیر کے بعد پھر سکوت طاری ہو جاتا ہے۔ مجموعی طور پر انتہا پسندوں کے خلاف بھرپور کارروائی کرنے کی حمایت کرنے والی آوازیں بہت کم ہیں۔ 
ہمیں ایک اور سچائی کا سامنا کرنے میں کوئی تامل نہیں ہونا چاہیے کہ ہم تشدد کو اپنی زندگیوں کا حصہ سمجھنے لگے ہیں۔ ہم روزمرّہ زندگی میں ظلم، بربریت اور غیر انسانی رویوں کو معمول سمجھ کر برداشت کر لیتے ہیں‘ اس لیے طالبان کی کارروائیوں کو بس ''معمول سے کچھ زیادہ‘‘ سمجھ کر اس کا کوئی نہ کوئی جواز نکال لیا جاتا ہے۔ چند ماہ پہلے کراچی میں طالبان نے نڈر پولیس افسر چوہدری اسلم کوشہید کر دیا۔ وہ انتہا پسندوں کو گرفتار کرنے کی بجائے انہیں ہلاک کرنا بہتر سمجھتے تھے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ بعض وجوہ کی بنا پر یہ رہا کر دیے جائیں گے۔ ان پر بہت سے ''مقابلوں‘‘ کا مبینہ طور پر الزام بھی تھا لیکن ان کی شہادت پر ہم میں سے اکثر نے سوگ منایا کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ طالبان کا اس کے سوا کوئی علاج نہیں۔ 
اسی اخلاقی الجھن کی ایک جھلک ڈرون حملوں کے حوالے سے ہونے والی بحث میں بھی دکھائی دیتی تھی۔ دنیا کی واحد سپر پاور اور ہمارا اتحادی، امریکہ، ہمارے ہمسائے میں طالبان کے خلاف جنگ میں پھنسا ہوا تھا۔ الزام لگایا جاتا تھا کہ ہماری سرحد کے اندر محفوظ ٹھکانوں میں رہنے والے انتہا پسند افغانستان جا کر نیٹو افواج پر حملہ کرکے پھر واپس آجاتے ہیں۔ اس صورتِ حال کا تصور کریں کہ ہماری سرزمین پر موجود جنگجو دوسرے ملک میں جا کر افواج پر حملہ کر رہے ہوں اور اُنہیںکوئی پوچھنے والا نہ ہو! یہ درست ہے کہ عالمی قوانین دیگر ممالک کو اپنے دشمنوں کے تعاقب میں پاکستان کی سرحد عبور کرنے کی اجازت نہیں دیتے لیکن اگر ہماری فوج ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کرتی تو پھر امریکی کیا کریں؟ بطور ایک پاکستانی میں اس بات سے نفرت کرتا ہوں کہ غیر ملکی ڈرون طیارے ہماری فضائوں میں پرواز کرتے ہوئے انتہا پسندوںکو نشانہ بنائیں اور ان کے میزائلوں کی زد میں آ کر سویلین بھی ہلاک ہو جائیں؛ تاہم حقیقت پسندی سے سوچیں تو پھر اور کیا آپشن رہ جاتا ہے؟ دنیا بھر کے لبرل اور قانون پسند شہریوں کا موقف ہے کہ باقاعدہ طریق کار کے تحت ان انتہا پسندوں کو عدالت کے سامنے پیش کیا جائے تاکہ وہ قانون کا سامنا کریں، لیکن ایسا کرے گا کون؟ ہمارے قبائلی علاقوں پر ریاست کا کنٹرول نہیں، لیکن ہمہ وقت ہم ڈرون کی آمد سے مجروح ہونے والی خود مختاری کا رونا روتے رہتے ہیں۔ 
اس لیے بہتر ہو گا‘ ہم اس بات کی تفہیم کر لیں کہ انسانی حقوق کا احترام اپنی جگہ پر لیکن ہم ایک غیر معمولی صورت حال سے دوچار ہیں۔ اگر ہم نے اسی تساہل سے کام لیا جس کا مظاہر ہ ہم کئی برسوںسے کر رہے ہیں تو ہم یہ جنگ ہار جائیں گے۔۔۔ اور ہمارے پاس کوئی جائے مفر باقی نہیں۔ اگر ہمیں اس خطرے سے نمٹنے کے لیے انتہائی اقدامات کرنے پڑیں تو ہمیں اپنی بقا کی جنگ سمجھ کر گریز نہیں کرنا چاہیے۔ دیگر اقوام نے اس حقیقت کا ادراک کرتے ہوئے خود کو محفوظ بنا لیا لیکن ہمیں ابھی ایسا کرنا ہے اور وقت ہمارے ہاتھ سے نکلا جا رہا ہے۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved