تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     19-04-2014

مغربی دانش کے دلدادہ

ایک جھوٹ کو چھپانے کی خاطر یعنی غلط بات یا فعل کو درست ثابت کرنے کے لیے سو جھوٹ بولنے پڑتے ہیں۔ جھوٹی انا کی غلامی اور حقیقت سے صریح گریز کا ایسا ہی نتیجہ برآمد ہوا کرتا ہے۔ مغرب آج جس حالت میں ہمارے سامنے ہے وہ کئی صدیوں تک اپنائے رکھے جانے والے معمولات کا ''ثمر‘‘ ہے۔ 
2003ء میں ریلیز ہونے والی بالی وڈ مووی ''گنگا جل‘‘ میں مرکزی ولن سادھو یادو (موہن جوشی) کا بیٹا سُندر یادو (یشپال شرما) شہر کی ایک لڑکی اپوروا کماری (کرانتی ریڈکر) کو ہر حال میں ہتھیانا چاہتا ہے۔ اپوروا کماری کی شادی کہیں اور کی جارہی ہوتی ہے تو وہ دُلہا کو قتل کردیتا ہے۔ اِس کے بعد وہ اپوروا کماری کو اغوا کرلیتا ہے۔ اپوروا کماری، اُس کی ماں اور چھوٹے بھائی کو سُندر یادو کے ہاتھوں اِتنی تکلیف پہنچتی ہے کہ ایک دن اپوروا کماری کی ماں غریبوں سے ہمدردی رکھنے والے فرض شناس سپرنٹنڈنٹ آف پولیس امِت کمار (اجے دیوگن) کے سامنے روتے ہوئے کہتی ہے، ''ساری پریشانی اِس منحوس، نامُراد (اپوروا کماری) کے باعث ہے۔ یہ پیدا ہوتے ہی مر کیوں نہ گئی؟ جی تو چاہتا ہے کہ اِس کا گلا گھونٹ دیں۔‘‘ 
اہل مغرب کا بھی کچھ کچھ ایسا ہی کیس ہے۔ جب انہوں نے دیکھا کہ اگلے وقتوں کی شرافت اور اقدار کو برقرار رکھنا زندگی بھر کا سَودا اور آزمائش ہے تو اپنے آپ کو بدلنے اور حالات کا سامنا کرنے کے بجائے اقدار کا پوٹلا ہی سَر سے اُتار پھینکا۔ 
جو لوگ آج اہلِ مغرب کی بے مثال مادّی ترقی کو سب کچھ، بلکہ زندگی کا حاصل اور تہذیب و تمدن کا نچوڑ سمجھ بیٹھے ہیں اُن کے لیے اوسوالڈ اسپنگلر کی کتاب ''دی ڈیکلائن آف دی ویسٹ‘‘ (زوالِ مغرب) چشم کشا ثابت ہوسکتی ہے جس میں اُنہوں نے اپنی تہذیب کی چمک دمک ہی کو زوال کی سب سے بڑی نشانی قرار دیا ہے۔ مادّی معاملات میں فقید المثال عروج پاتے ہوئے مغرب کی پیش گوئی کرنا کسی مغربی مورّخ اور مفکر کے لیے بڑی آزمائش تھا۔ دنیا حیران ہوئی مگر پھر سمجھ گئی کہ اسپنگلر نے تہذیب کے زوال کی بات کی ہے۔ 
مغرب کے دورِ جہل میں مذہبی پیشواؤں نے تمام معاملات پر اجارہ داری قائم کرکے بے حساب سِتم ڈھائے تھے۔ غیر جانبدار سوچ رکھنے والے اہلِ دانش اور عوام کا ردعمل مذہبی پیشواؤں کے خلاف ہونا چاہیے تھا مگر نزلہ گرادیا گیا مذہب پر۔ پاپائیت کے علم بردار چونکہ مذہب، روایات اور اخلاقی اقدار کے محافظ ہونے کے دعویدار تھے اِس لیے اُن کی بدنیتی کو مذہب اور اخلاقی اقدار کی خرابی نتیجہ تصور کرلیا گیا۔ اِسی سوچ سے مذہب بیزار رویّے نے جنم لیا۔ 
چار صدیوں سے زائد مدت گزری، اہلِ مغرب نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ ہر معاملے میں مادر پدر آزادی ہی زندگی کا محور اور مقصد ہے۔ حد یہ ہے کہ جُرم کی راہ پر گامزن ہونے کو بھی آزادی ہی کی ایک شکل تصور کرتے ہوئے ''نفرت جُرم سے، مُجرم سے نہیں‘‘ کا نظریہ اپنالیا گیا ہے۔ یعنی کوئی کیسا ہی جُرم کر گزرے، دِل کی تسلی کے لیے اُسے تھوڑی سی سزا دے لیجیے اور پھر اُس کی اِصلاح پر مائل ہوجائیے! یہی سبب ہے کہ سزائے موت کو غیر حقیقت پسندانہ تصور قرار دے کر رد کیا جارہا ہے۔ منطق یہ ہے کہ اگر کسی قاتل کو موت کی سزا دے دی گئی تو پھر اُس فکر و عمل کی اِصلاح کیسے کی جاسکے گی! 
آنکھ سے حیا اور دِل سے خوفِ خدا ختم ہوجانے پر جو کچھ ہوا کرتا ہے‘ وہی مغرب میں بھی ہوا۔ ناجائز رشتوں کو پہلے فیشن کا درجہ ملا، پھر عادت کا اور اب یہ طرزِ زندگی کا حصہ ہے۔ تازہ ترین مثال برطانیہ کے دو نوعمر پارٹنرز کی ہے۔ بارہ سالہ لڑکی نے تیرہ سالہ بوائے فرینڈ کے ناجائز بچے کو جنم دیا ہے! اِس فعل پر ''پارٹنرز‘‘ کو شرمندگی ہے نہ اُن کے ماں باپ کو۔ اور ہو بھی کیوں؟ بازار میں چلتے ہوئے سِکّے کو کھوٹا کون کہتا ہے؟ 
500 سال پہلے مغرب کے معاشرے بھی ہماری ہی طرح ''دقیانوسی‘‘ اور ''پس ماندہ‘‘ تھے۔ پھر اُنہوں نے سوچا حرام و حلال 
اور جائز و ناجائز کے چَکّر میں رہے تو ''آگے‘‘ نہیں بڑھ سکیں گے۔ پاؤں میں اخلاقی اقدار کی زنجیریں تھیں۔ اِن زنجیروں سے گلوخلاصی ناگزیر تھی۔ مذہب کی بات کرنے والوں سے بیزاری کے اظہار کی خاطر مذہب ہی کو طاقِ نسیاں پر سجادیا گیا۔ اِس کے بعد کون تھا جو روکتا۔ شخصی آزادی کا گھوڑا تین صدیوں سے سرپٹ دوڑ رہا ہے اور ہر اُس خیال، رویّے اور عمل کو روند رہا ہے جس میں معقولیت کی ہلکی سی بھی رَمق پائی جاتی ہو۔ اِس بے لگام آزادی نے عجیب و غریب فکر کو جنم دیا۔ یہ سمجھ لیا گیا کہ تمام اخلاقی حدود و قیود سے نکلے بغیر ترقی کرنا تو دور کی بات ہے، اُس کے بارے میں سوچا بھی نہیں جاسکتا۔ پہلے مشترکہ خاندان کا نظام اِس مفروضے کی بھینٹ چڑھا، خونی رشتوں کا تقدس بھی پامال ہوگیا۔ اور پھر شادی کے ادارے ہی کو داؤ پر لگا دیا گیا۔ اب حالت یہ ہے کہ مشترکہ رہائش کے نتیجے میں دو تین بچوں کی پیدائش کے بعد رسمی کارروائی کے طور پر شادی بھی کرلی جاتی ہے! 
بے حیائی اگر ذاتی معاملہ ہو تو کسی کو کیا اعتراض؟ یہ سیلاب اب ہمارے گھروں میں داخل ہوچکا ہے۔ کَچّے ذہنوں کو بہت میٹھے اور سُریلے انداز سے باور کرایا جارہا ہے کہ زندگی تو صرف اپنی مرضی کے مطابق گزارنی چاہیے۔ 
سنی لیون اِس وقت بالی وڈ کی مشہور اداکارہ ہے۔ یہ واحد اداکارہ ہے جو خالص مخرب اخلاق فلموں سے مین اسٹریم سنیما میں آئی ہے۔ ہمارے آپ کے گھروں میں بھی دیکھے جانے والے انڈین پروگرام ''بگ باس‘‘ میں سلمان خان نے سنی لیون کو ''اہل خانہ‘‘ کے سامنے پیش کیا۔ لڑکیاں (اسکرپٹ کے مطابق) آپس میں کُھسر پُھسر کرنے لگیں تو سلمان خان نے پوچھا کیا بات ہے۔ ایک لڑکی نے نظریں جھکاکر شرمانے کی عمدہ اداکاری کرتے ہوئے سنی لیون کی طرف اشارا کرکے کہا یہ تو مخرب اخلاق فلموں کی اسٹار ہیں۔ اِس پر سلمان نے ''بڑے بھائی‘‘ کی طرح پیار بھرے لہجے میں ڈانٹتے ہوئے کہا، ''بھئی، وہ اِن کا کام ہے!‘‘ کَچّے ذہنوں کو دیا جانے والا پیغام کِتنا پُختہ ہے‘ اِس کا اندازہ لگانے کے لیے آئن اسٹائن ہونا لازم نہیں! 
مغرب کی اداؤں پر فِدا ہوجانے والے ہمارے پڑوسی بھی تمام حدوں سے گزرتے جارہے ہیں۔ کمل ہاسن اور ساریکا کی مثال واضح ہے جس نے تین بیٹیاں بڑی ہونے پر شادی کی! 1987ء میں اداکارہ نینا گپتا کا ویسٹ انڈین کرکٹر ویوین رچرڈز سے ناجائز تعلق قائم ہوا جس کے نتیجے میں نینا نے ایک بیٹی کو جنم دیا۔ 
مغرب میں اُلّو دانش کی علامت ہے۔ دانش کی اِس علامت کے پرستار اُلّو کے پَٹّھے ہوئے! اُلّو کو تو کچھ نہیں ہوا مگر اُس کے پَٹّھے اکڑے ہوئے ہیں۔ یہ اکڑن شرم و حیا اور غیرت کے تیل کی مالش سے دور ہوسکتی ہے۔ مگر اب یہ کہنا بہت مشکل ہے کہ مالش کا فیصلہ ہونے تک پَٹّھے رہیں گے یا نہیں! ع 
دستِ جنوں رہے نہ رہے، آستیں رہے

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved