تحریر : بلال الرشید تاریخ اشاعت     19-04-2014

سات آسمان‘ سات زمینیں

قارئین‘ گزشتہ کالم میں پرو فیسر احمد رفیق اختر کی لندن روانگی سے قبل کی نشست کا ذکر کیا تھا۔ استاد کو الوداع کہنا مقصود تھا لیکن ساتھ ہی ساتھ طالبانِ علم سوال پہ سوال اٹھاتے رہے۔ پروفیسر صاحب کو استفسار سے محبت ہے اور کیوں نہ ہو؟ کبھی کم، کبھی زیادہ، سوال غور و فکر کا مظہر ہوتا ہے۔ نیّت صاف اور سمت درست ہو تو وہ خدا تک لے جا سکتا ہے۔ 
اسی محفل کے ضمن میں، آدمؑ سے قبل کے حالات پر امیرالمومنین حضرت علیؓ کے قول کی روشنی میں تفصیل بیان کرنے کی کوشش کی اور باقی سب تشنہ رہ گیا: 
کہیں جو ذکر ہو باغِ بہشتِ آدم کا
تو یاد آتی ہے تیرے دیار کی صورت 
قدیم عشق چھپا ہے میری دراڑوں میں 
میرا بدن ہے میاں ایک غار کی صورت
اپنے آپ کو ٹٹولیے اور کائنات کی سب سے بڑی سچّائی تک پہنچ جائیے۔ 
اب باقی روداد۔ ایک صاحب نے برمودا ٹرائی اینگل کے بارے میں پوچھا۔ امریکہ کے نزدیک، یہ سمندر میں ایک تصوّراتی مثلث ہے۔ اس کی حدود متنازع لیکن ایک سرا برمودا 
جزائر کو چھوتا ہے۔ یہاں پراسرار واقعات منظرِ عام پر آتے رہے ہیں۔ اندازہ اس سے لگائیے کہ گزشتہ ماہ ملائیشیا کے ایک طیارے کی گمشدگی نے اقوامِ عالم کو پریشان کر ڈالا تھا۔ اس واقعے سے متعلق متضاد بیانات پر چین نے ملائیشین حکّام سے سخت ناراضی کا اظہار بھی کیا۔ برمودا مثلث میں 1918ء سے 1965ء کے درمیان چھ چھوٹے بڑے بحری جہاز اور چھ ہی طیارے لاپتہ ہوئے۔ ان حادثات میں قریباً 600 افرادغائب ہوئے اور پھر ان کا کوئی سراغ نہ لگ سکا۔ ہمارے یہاں اس کی ایک ممکنہ وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ کرّہء ارض کی تاریخ کا سب سے خطرناک فتنہ دجّال وہاں روپوش ہے۔ اس کی وجہ غالباً حضرت تمیم داریؓ سے متعلقہ وہ حدیث ہے، جس میں وہ بحری سفر میں راہ کھو بیٹھنے کے بعد ایک جزیرے میں دجّال سے ملاقات اور واپسی پر حضرت محمدؐ سے سارا ماجرا بیان کرتے ہیں۔
پروفیسر صاحب نے بتایا کہ اپنی جوانی میں وہ خود بھی اس بارے میں بڑے متجسّس ہوا کرتے تھے۔ اس زمانے میں اینٹی 
میٹر کو اپنے تصرّف میں لانے کے معاملے پر دونوں عالمی طاقتوں، امریکہ اور سوویت یونین میں ایک مقابلہ جاری تھا۔ اینٹی میٹر کو یوں سمجھیے کہ کائنات جس مادے سے مل کر بنی ہے، وہ چھوٹے چھوٹے ذرّات پر مشتمل ہے۔ اینٹی میٹر یا ضدّ مادہ بھی ایسے ہی ذرّات پر مشتمل ہے لیکن وہ مخالف چارج رکھتے ہیں۔ میٹر اور اینٹی میٹر کے ملاپ سے ایک دھماکہ ہوتا ہے۔ بہرحال برمودا سے متعلق ایک نقطہ نظر یہ تھا کہ وہاں اینٹی میٹر کے تجربات کیے گئے ہیں۔ اس کے نتیجے میں جہاز اور بالخصوص جاندار غائب ہو جاتے۔ اس طرح کے تین چار تھیسز بیان کرنے کے بعد ہمارے استاد نے کہا: یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ اللہ کا عرش پہلے پانی پر تھا۔ جب وہ آسمانوں کو بلند ہوا تو شیطان نے وہاں اپنا عرش تعمیر کر ڈالا۔ 
قارئین میرا سوال اس پر یہ تھا کہ کیا خدا کا عرش اس کرّہء ارض کے پانی پر تھا؟ بتایا: جی ہاں، تب وہ زمین کو درست کر رہا تھا۔ دوبارہ موقع ملا تو میں یہ پوچھوں گا کہ اب خدائے بزرگ و برتر کا عرش کہاں ہے؟ 
قارئین ایک سوال یہ تھا کہ سات آسمانوں سے مراد کیا ہے؟ اس لیے کہ کائنات میں کم از کم 100 ارب کہکشائیں ہیں۔ کہاں ایک آسمان ختم اور دوسرا شروع ہوتا ہے؟ اس پر یہ بتایا گیا: سات آسمانوں سے مراد ہے سات کائناتیں۔ اس لیے کہ خدا یہ فرماتا ہے کہ آسمانِ دنیا کو ہم نے چراغوں (ستاروں) سے زینت دی۔ جہاں تک ہماری نگاہ ستاروں کو جگمگاتا دیکھے گی، وہ ہمارا آسمان اور ہماری کائنات ہے۔ ایک آیت میں خدا یہ کہتا ہے کہ ہم نے سات آسمان بنائے اور ان میں اتنی ہی زمینیں اور ان زمینوں پہ خدا کا حکم اترتا ہے(مفہوم)۔ زمین سے مراد یہاں ایک ایسا سیارہ ہے، جہاں زندگی موجو د ہو وگرنہ تو صرف ہماری اپنی ہی کہکشاں میں کم و بیش سو ارب سیارے موجود ہیں۔ پروفیسر صاحب نے یہ بتایا کہ ہم سب سے اوپر والی کائنات میں جی رہے ہیں۔ اس لیے کہ حدیث میں یہ بتایا گیا ہے کہ ہماری زمین کے مرکز میں اگر سوراخ کرکے ایک زنجیر لٹکائی جائے تو وہ ساتویں زمین تک جا پہنچے گی (مفہوم)۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ سات کائناتیں ایک دوسرے کے اوپر موجود ہیں‘ جیسے سات تکیے ایک دوسرے کے اوپر رکھ دیے جائیں۔ ہر کائنات میں کرّہء ارض جیسا ایک زندگی سے آباد سیارہ موجود ہے۔ یہ بھی کہ باقی چھ سیارے ہماری زمین کے عین متوازی گردش میں ہیں۔ 
قارئین ظاہر ہے کہ رسولِ اکرمؐ نے زنجیر والی یہ مثال اپنے زمانے کے لوگوں کو اس دور کی ٹیکنالوجی ذہن میں رکھتے ہوئے ارشاد فرمائی تھی۔ ہم زمین کے مرکز سے عین نیچے، خلا میں ایک طاقتور مواصلاتی سگنل روانہ کر سکتے ہیں۔ ممکن ہے کہ ہزاروں لاکھوں سال بعد کوئی جوابی سگنل موصول ہو۔ گو کہ ایسا لگتا ہے کہ انسان کے پاس دو چار ہزار سال سے زیادہ کا وقت باقی نہیں۔ 
حرفِ آخر یہ کہ سائنس بھی اب متوازی کائناتوں (Parallel Universes) کا نظریہ پیش کرتی ہے۔ اس بارے میں مغربی سائنسدان کیا دلائل پیش کرتے ہیں، ان پر پھر کبھی بات ہو گی۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved